اٹک کا ایک چھوٹا سا گاؤں، لارنس پور، پاکستان کی صنعتی تاریخ میں ایک شاندار مقام رکھتا ہے۔ جی ٹی روڈ کے کنارے آباد یہ گاؤں کسی زمانے میں ملک کی بڑی کاروباری فیملی کے تحت 1950ء میں قائم کی گئی وولن ملز کی بدولت ملکی و بین الاقوامی سطح پر جانا جاتا تھا۔ جب دنیا میں گرم کپڑوں کی مانگ عروج پر تھی، تو یہ ملز تیزی سے کامیاب ہوئی اور صرف چار سالوں میں وولن انڈسٹری میں نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے درآمد شدہ اون سے تیار کردہ کپڑے دنیا بھر میں مقبول ہوئے۔
مل سالانہ 16 لاکھ میٹر کپڑا تیار کرتی، جو تقریباً مکمل طور پر بیرونِ ملک برآمد ہوتا۔ مشہور برانڈز جیسے مدر کیئر اپنے وولن ڈریس لارنس پور سے تیار کرواتے تھے۔ مل کے مالک سیٹھ اپنے کارکنوں کا خاص خیال رکھتے تھے؛ 1200 ملازمین اور ان کے خاندانوں کو روزانہ 75 پیسے میں ناشتہ، لنچ، ڈنر اور شام کی چائے فراہم کی جاتی تھی۔ رمضان میں افطاری اور عید پر 20 میٹر کپڑا دیا جاتا تھا۔ رہائش اور یوٹیلٹی بلز سمیت تمام ضروریات کا ذمہ کمپنی کے سپرد تھا، جس سے ان کی کریڈیبلٹی اس حد تک بڑھ گئی کہ ان کا کوئی ورکر دنیا میں کہیں بھی جاتا تو اسے شہریت اور نوکری مل جاتی۔
زوال کی وجہ؟
پاکستان کے بیشتر سرکاری اور نجی اداروں کی طرح، لارنس پور بھی ایک وقت کے بعد معاشی بدحالی اور حکومتی عدم توجہ کا شکار ہو گیا۔ ملک میں بڑھتی بجلی کی لوڈشیڈنگ، توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور اقتصادی دباؤ کے باعث لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں کمپنی کے لئے منافع بخش ہونا مشکل ہوگیا۔ نتیجتاً، لارنس پور کی تمام مشینری کو بنگلہ دیش منتقل کر دیا گیا اور یہ برانڈ جو ایک وقت میں بین الاقوامی سطح پر پہچانا جاتا تھا، قصۂ پارینہ بن گیا۔