ڈونلڈٹرمپ کے امریکہ کے 47ویں صدرمنتخب ہونے کے بعدبہت سے ممالک اورافرادنے ا ن سے مختلف توقعات وابستہ وابستہ کرلی ہیں،عرب رہنماوں کو توقع ہے کہ ٹرمپ صدارت سنبھالنے کے بعد مشرقِ وسطی میں جاری تنازعات ختم اور ایران سے متعلق سخت موقف اختیار کریں گے،غزہ اورلبنان میں جاری جنگ بندی کی کوشش کریں گے ،کچھ لوگوں کوتوقع ہے کہ روس کے ساتھ مذاکرات یا معاہدوں کے ذریعے یوکرین جنگ ختم کر دیں گے۔ بانی پی ٹی آئی اوران کے حامیوں کوامیدہے کہ وہ عمران خان کورہاکروائیں گے وغیرہ، اس کے علاوہ بھی ٹرمپ سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں آئیں دیکھتے ہیں کہ آیاٹرمپ ان کی توقعات پرپورااتریں گے ؟
سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز، ولی عہد محمد بن سلمان، متحدہ عرب امارات کے حکمران، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد نے ڈونلڈ ٹرمپ کو فتح کی مبارک باد دی ہے اور امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ کو اہم قرار دیا ہے۔ اِس وقت مسلم دنیا کی پوری توجہ فلسطین پر ہے اور ان کی خواہشات، سیاست، خدشات سب کا محور فی الوقت فلسطین ہی ہے۔ عرب رہنما ٹرمپ سے چاہتے ہیں کہ وہ لبنان اور غزہ میں جنگ ختم کرائیں۔
ٹرمپ پہلے ہی مشرق وسطی سے امریکی فوجیوں کے انخلا اور افغانستان میں جنگ کے خاتمے کا جیسے اعلانات کر کے ثابت کر چکے ہیں کہ وہ جنگ کے حق میں نہیں ہیں۔ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں جو وعدے کیے تھے ان میں غزہ میں جنگ ختم کرانا بھی شامل تھا۔ لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ یہ کیسے کریں گے؟ کیا اس جنگ کا خاتمہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے ساتھ ہو گا؟ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخاب میں جیت کو وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو نے عظیم ترین کامیابی قرار دیا ہے جبکہ اسرائیلی صدر نے ٹرمپ کو امن کا چیمپیئن اور اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے انھیں اسرائیل کا حقیقی دوست قرار دیا ہے۔
مئی 2024 میں بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کو بتایا تھا کہ وہ اسرائیل کو 8400 کروڑ روپے سے زیادہ کے ہتھیار بھیجنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور اس کے بعد ایسا کیا بھی گیا۔ اس پیکیج میں 70 لاکھ ڈالر مالیت کے ٹینک اور گولہ بارود بھی شامل تھا۔امریکہ کے واٹسن انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ اسرائیل کو تقریبا 18 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کر چکا ہے۔اب ٹرمپ کے لیے اس جنگ کوختم کرنااتناآسان نہیں اگرٹرمپ یہ جنگ ختم کرتے ہیں تواس کے لیے امت مسلمہ کوکچھ قیمت اداکرناہوگی ۔وہ قیمت کیاہے آئیںاس کاجائزہ لیتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے پہلے دور میں الدین الابراہیمی اور ابراہام کوریڈور جیسے اسرائیلی منصوبے بنائے جس کے تحت معاہدہ ابراہام ہواتھاجس کے تحت 2020 میں امریکا کی ثالثی سے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے ابراہیم ایگریمنٹ کہا جاتا ہے اور اس کے تحت ان مسلمان ممالک نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا تھا اور اسی ضمن میں دیگر مسلمان ممالک سے بات چیت جاری تھی مگر اسی دوران ٹرمپ کی صدارت کا خاتمہ ہو گیا۔
اس کے علاوہ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت مئی 2018 کو امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس )منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ اور ٹرمپ نے گولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضے کو قانونی قرار دیا تھا ۔جب کہ اس سے قبل دسمبر 2017 کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ امریکہ سرکاری طور پر یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس )کو اسرائیل کا دارالحکومت سمجھتا ہے۔ اور تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کر دے گا۔ اس اعلان کے بعد امریکہ دنیا کا پہلا ملک بن گیا تھا جس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا ۔
خیال رہے کہ ٹرمپ کے قریبی حلقوں میں کٹر یہودی(بنیاد پرست و اثر ورسوخ رکھنے والے دجالی یہودی)شامل ہیں ۔ جو ٹرمپ کے فیصلوں اور پالیسیوں پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں ۔ "وہی( یروشلم) جس پر یہودی صدیوں سے اپنے ابدی دارالحکومت کا دعوی کرتے چلے آ رہے ہیں”
امریکی صدر مئی 2017 کو یہودیوں کے مقدس مقام "دیوار گریہ”پر اپنی فیملی بیوی میلانیا، بیٹی ایوانکا اورداماد جیرارڈ کشنر کے ساتھ گئے۔*اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ ان کی اہلیہ، بیٹی اور داماد دیوار گریہ پر ہاتھ رکھ کر مذہبی رسومات کی ادائیگی کی۔امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر ہیں، جنہوں نے ‘دیوار گریہ’ کا دورہ کیا اور یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) کواسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کا تعلق یہودیوں کے آرتھوڈوکس فرقے سے ہے، جن سے شادی کے بعد ایوانکا نے بھی یہودی مذہب قبول کرلیاتھایادرہے کہ اسی دامادکے ذریعے عمران خان نے ٹرمپ سے تعلقات قائم کیے تھے اورٹرمپ سے ملاقات کی تھی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ جب پہلی دفعہ امریکی صدر بنے ، دیوار گریہ کا دورہ کیا اور یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا۔ تب بھی اسرائیل کا وزیر اعظم انتہا پسند نیتن یاہو تھا اور حیرت انگیز طور پر آج جب ٹرمپ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوا ہے تو بھی اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یاہو ہی ہے ۔
خیال کیاجارہاہے کہ ٹرمپ کی دوسری آمددنیامیں بہت سے تبدیلیوں کی باعث بنے گی،چار نومبر کو یعنی ووٹنگ سے ایک دن پہلے، ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ ہم امریکی سیاست کی تاریخ کا سب سے بڑا اتحاد بنا رہے ہیں۔ مشیگن کے عرب اور مسلم ووٹرز ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ وہ امن چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ممکنہ طور پر اسرائیل کی دائیں بازوں کی حکومت کی جانب سے مغربی کنارے کے بڑے علاقے پر قبضے کو تسلیم کر سکتے ہیں اور ایسا ہوا تو حالات فلسطینیوں اور اردن کے لیے مزید پیچیدہ ہو جائیں گی۔
اسی منصوبے کے تحت مزیدعرب ممالک کواسرائیل تسلیم کرنے پرمجبورکیاجائے گا اورہوسکتاہے کہ سعودی عرب بھی سجدہ ریزہوجائے ،سعودی عرب کے بعدپاکستان کے لیے اسرائیل کے حوالے سے اپنے مئوقف پرکھڑارہنانہایت مشکل ہوگا اگرریاست پاکستان نے اس معاملے میں مزاحمت کی تومتبادل کے طورپرعمران خان نیازی کوتیارکیاگیاہے اورعمران خان کوبھی اس کااندازہ ہے اس لیے اس نے پہلے ہی ٹرمپ،یہودی لابی اوراسرائیل سے تعلقات کومضبوط کرلیاہے ۔اگرچہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان واضح کر چکے ہیں کہ ان کا ملک غزہ میں جنگ کے خاتمے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گامگراس موقف نے گزشتہ ایک سال سے غزہ میں جاری جنگ میں فلسطینیوں کوکیافائدہ پہنچایاہے ؟
بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ سعودی عرب اندر سے اقتصادی حوالے سے مضبوط ہورہاہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے یمن جنگ میں سعودی عرب کے عسکری اتحادکوشکست ہوچکی ہے یمن کے حوثی نہایت مضبوط ہوگئے ہیں جس سے سعودی عرب کی علاقائی حیثیت متاثرہورہی ہے۔ خطے میں اس وقت ایران اور اسرائیل کے اثرات گہرے ہوگئے ہیں۔ جس کے باعث سعودی عرب کے پاس دو آپشنز بچتے ہیں۔ یا تو وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرکے مکمل طوپرامریکہ کی جھولی میں چلاجائے اور ایرانی پیش قدمی روکے ۔ یاپھر ایران کے ساتھ تلخیاں ختم کرکے اسرائیل کی پیش قدمی کوروکے ۔
اس حوالے سے سعودی عرب ابھی تک دوکشتیوں پرسوارنظرآتاہے وہ ایران اوراسرائیل کوساتھ لے کرچلناچاہتاہے مگریہ پالیسی زیادہ دیرتک نہیں چل پائے گی ۔سعودی عرب کوبالآخرمکمل طورپرامریکہ اوراسرائیل کی طرف جاناہوگایہی ایران کی بھی خواہش ہے ۔کیوں کہ امریکہ بھی مشرق وسطی میں مضبوط ایران کا وجود ضروری سمجھتا ہے ۔اس کے علاوہ ٹرمپ یوکرین جنگ کوختم کرکے پوٹن کے ذریعے تہران سے رابطے کر سکتے ہیں جو ایران کے قریبی اتحادی بن گئے ہیں یوں وہ ایک طرف ایران کے ذریعے سعودی عرب اورپاکستان کوبلیک میل کرے گا دوسری طرف ایران کومضبوط کرے گا۔
اب آتے ہیں کہ کیاٹرمپ عمران نیازی کی رہائی کے لیے کرداراداکریں گے ؟پی ٹی آئی کوبہت زیادہ امیدہے کہ ٹرمپ اورعمران خان اچھے دوست ہیں اس لیے اڈیالہ جیل میں قیدعمران خان کی رہائی کے لیے کرداراداکریں گے سوال یہ ہے کہ ٹرمپ ایساکیوں کریں گے ؟ان کی عمران خان سے کیادلچسپی ہے ؟اس کاجواب یہ ہے کہ ٹرمپ دیکھیں گے کہ اگرپاکستان میں موجودہ حکومت اگرمشرق وسطی ،چین اورانڈیاکے حوالے سے ان کے ایجنڈے میں معاون ثابت ہوئی توپھرخان کی رہائی مشکل ہے اگرحکومت نے اس ایجنڈے میں مشکلات ڈالیں توپھرلامحالہ ٹرمپ عمران نیازی کے لیے آوازاٹھائیں گے ۔کیوں کہ عمران نیازی ماضی میں ٹرمپ کے ایجنڈے میں معاون یاآلہ کاربن کریہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ اس خطے میں امریکی مفادات کے لیے بہترین آپشن ہیں ۔
اس کی سب سے بڑی مثال 2019 میں واشنگٹن کے دورے کے دوران ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات تھی جس کے بعدانڈیانے مقبوضہ کشمیرکی آئینی حیثیت ختم کردی تھی اورعمران خان جمعہ جمعہ احتجاج سے آگے نہیں بڑھ پائے تھے۔ اس کے علاوہ عمران نیازی کے دورمیں اسرائیل کے حوالے سے پالیسی میں کافی نرمی لائی گئی تھی اورپہلی مرتبہ کسی یہودی کوپاکستانی پاسپورٹ پراسرائیل جانے کی اجازت دی گئی تھی اس کے علاوہ بھی کافی اقدامات ایسے تھے جس میں ٹرمپ عمران نیازی کاگٹھ جوڑ ہواتھا مگر 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدارتی انتخاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جو بائیڈن امریکی صدر بن گئے۔
ان کے صدر بننے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر سردمہری نظر آئی اور عمران خان اور بائیڈن کے درمیان کوئی ٹیلیفونک رابطہ تک نہیں ہوپایاتھا۔پھر سنہ 2022 میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمی سے فارغ ہوئے تو انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت گِرانے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔مگرپھرعمران خان اوراس کے حامی لابنگ فرمزکے ذریعے امریکہ کی غلامی کاسرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اب اگرٹرمپ عمران خان کی رہائی کامطالبہ کرتے ہیں توایسی صورت میں حکومت پاکستان کے پاس اچھاموقع ہے کہ ڈاکٹرعافیہ کے بدلے عمران نیازی کوامریکہ کے حوالے کردیناچاہیے ۔