پیر, نومبر 4, 2024

اسرائیل کا ایران پرحملہ

اسرائیل نے جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب ایران میں عسکری اہداف پر میزائل حملے کیے ہیں۔دوسری جانب ایران نے اپنے فوجی اڈوں پر حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حملوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا گیا لیکن کچھ مقامات پر محدود نقصان ہوا۔

یکم اکتوبرکوایران کے اسرائیل کے حملے پر میں نے یہ سوال اٹھایاتھا کہ ایران کے میزائل شام،عراق ،پاکستان میں گرتے ہیں توتباہی مچاتے ہیں مگریہ میزائل اسرائیل کانقصان نہیں کرتے اب یہی سوال اسرائیل کے حوالے سے ہے کہ اس کے میزائل فلسطین ،لبنان ،مصرعراق پرگرتے ہیں توتباہی پھیردیتے ہیں ،یہی میزائل اورڈرون فلسطین میں پینتالیس ہزارسے زائدبے گناہ لوگوں کوشہیدکرچکے ہیں، لبنان میں اب تک ڈھائی ہزارلوگوں کوشہیداوربارہ لاکھ کوبے گھرکرچکے ہیں بیس بیس منزلہ عمارتوں کوآنافاناملبے کاڈھیربنادیتے ہیں مگراسرائیل کے یہ میزائل جب ایران پرگرتے ہیں توکوئی نقصان نہیں کرتے۔یہ کیاعجب معاملہ ہے ۔

ہمارے بہت سے دانشوروں کاکہناہے کہ اسرائیل اپنے آئرن ڈوم سسٹم سے ایران کے میزائلوں کوناکام بناتاہے لیکن پھر سوال یہ ہے کہ ایران نے اسرائیل کے میزائلوں اورڈرونزکوکون سے سسٹم کے ذریعے ناکام بنایا؟اوراگرایران کے پاس اسرائیل کے میزائل یاڈرونزکوروکنے کاکوئی سسٹم موجودہے تواسمعیل ہنیہ کی شہادت کے وقت یہ سسٹم کہاں تھا ؟اس لیے میں سمجھتاہوں کہ ایران اوراسرائیل کے پاس ایسے سمجھدارمیزائل ہیں کہ جو ایک دوسرے کانقصان نہیں کرتے ۔

اس وجہ سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیااسرائیل ایران کی دشمنی حقیقی ہے یامصنوعی ،یااس جنگ کی آڑمیں دونوں ممالک کوئی اور گھنائوناکھیل کھیل رہے ہیں ۔کیوں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پردوستانہ حملے کررہے ہیں اورحملے بھی ایسے کہ جس میں دونوں کاکوئی خاص جانی ومالی نقصان نہیں ہوتا۔ان حملوں کے بعددونوںازخود ہی جنگ بندی کااعلان بھی کردیتے ہیں اوردونوں ممالک اپنے عوام کولولی پاپ دیتے ہیں کہ ہم نے فلا ں حملے کابدلہ لے لیاہے اوران کے عوام یہ تسلیم بھی کرلیتے ہیں ۔اوودونوں اپنی اپنی فتح کااعلان بھی کرتے ہیں مگریہ نہیں باتے کہ مخالف کاکتنانقصان کیاہے ؟یااب تک ایران اوراسرائیل نے ایک دوسرے کاکتنانقصان کیاہے ؟

ایران اور اسرائیل کے درمیان تقریبا 2152 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ ہے ان حملوں سے یہ توثابت ہوگیا کہ اسرائیل اورایران بآسانی ایک دوسرے کوہدف بناسکتے ہیں اوراوراگریہ چاہیں تودونوں ایک دوسرے کولمحوں میں تباہ کرسکتے ہیں مگریہ ایسا کریں گے نہیں ۔اس کیوں کاجواب گزشتہ روزکے ایران پراسرائیلی حملے میں موجود ہے

رواں سال اپریل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے کے بعد ایران نے اسرائیل کی جانب تین سوسے زائد ڈرونز اور میزائل داغے تھے۔مگراسرائیل کاکچھ نقصان نہیں ہواتھا ۔پھراکتیس جولائی کوتہران میں ایران نے تاریخی غداری کرتے ہوئے حماس کے سربراہ اسمعیل ہنیہ کواسرائیل کوطشتری میں رکھ کرپیش کیا بعدازاں اپنی خفت مٹانے کے لیے ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر 200 سے زائد بیلسٹک میزائل داغے ۔جن میںپھر اسرائیل کاکوئی جانی ومالی نقصان نہیں ہوا۔

ان حملوں کے بعدایران کے وزیرخارجہ عباس عراقچی نے ازخودہی عرب ممالک اورمشرق وسطی کے دورے کیئے اور عرب ممالک کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیااگراسرائیل پرحملے کے لیے انہوں نے زمین یاکسی قسم کی معاونت فراہم کی توایران ان کے خلاف کاروائی کرے گا گزشتہ روز ایران پرحملے کے لیے اسرائیلی جنگی جہازوں نے عراق میں واقع امریکی فوجی بیس سے پرواز یںبھریں۔اب دیکھتے ہیں کہ ایران عراق کے خلاف کیاکاروائی کرتاہے ۔

اسرائیل کاایران پردوستانہ حملہ اورایک طے شدہ منصوبے کاحصہ تھا یہی وجہ ہے کہ اس حملے چنددن قبل خفیہ دستاویزات لیک کی گئیںٹیلی گرام چینل نے مڈل ایسٹ سپیکٹیٹر کے ذریعے کچھ مبینہ خفیہ امریکی دستاویزات شائع کی تھیں جن میں امریکہ کی جانب سے ایران پر حملہ کرنے کے اسرائیلی منصوبے کا جائزہ لیا گیا تھا۔چینل نے دعوی کیا تھا کہ یہ دستاویزات امریکی انٹیلی جنس سے وابستہ ایک اہلکار نے انھیں فراہم کی ہیں۔امریکی سپیس انٹیلی جنس ایجنسی اور امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے تیار کردہ یہ دستاویزات فائیو آئیز یعنی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے پانچ ملکی انٹیلی جنس اتحاد کے ساتھ شیئر کی جانی تھیں۔

ان دستاویزات پر ٹاپ سیکرٹ لکھاتھا اور تاریخ 15اور16 اکتوبر درج تھی۔ مذکورہ ٹیلی گرام چینل تہران سے چلایا جاتا ہے اور یہ مزاحمت کے محور کی خبروں کو کور کرتا ہے۔ سیٹلائٹ امیجز کے ذریعے ایران پر حملہ کرنے کی اسرائیلی تیاریوں کے حوالے سے مرتب کردہ یہ جائزہ دستاویزات اس بات کی نشاندہی کررہی تھیں کہ اسرائیل اپنے فوجی ساز و سامان کو ایران پر حملے کے لیے نزدیکی اڈوں پر منتقل کر رہا ہے اور اس نے حال ہی میں ایک بڑی فوجی مشق بھی کی ہے۔ان خفیہ دستاویزات کے ذریعے یہ ماحول بنانے کی کوشش کی گئی ہے اسرائیل ایران پرخوفناک حملہ کرنے والاہے عرب ممالک بھی تیارہوجائیں اوراس جنگ میں شامل ہوجائیںمگرکسی ملک نے اس کوسنجیدہ نہیں لیا۔

دوسری طرف ایران کو یہ ڈر تھا کہ اسرائیل اس پر حملہ کرنے کا موقع ڈھونڈ رہا ہے اسی لیے تہران کی جانب سے متعدد بار یہ اشارہ دیا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ جنگ نہیں چاہتا۔اس کے لیے ایران نے جوہری دھماکے کی جعلی خبریں بھی چلوائیں مگریہ سب باتیں اپنے عوام کوبے وقوف بنانے اوراسلامی ممالک کی توجہ حاصل کرنے کی ناکام کوشش تھی ۔

اسرائیل کایہ حملہ اس وجہ سے بھی دوستانہ تھاکہ اس حملے سے قبل ایران اورعراق نے بین الاقومی پروازیں معطل کردی تھیں جودوستانہ حملے کے خاتمے کے ساتھ ہی دوبارہ شروع کر دی گئیں اسرائیل کومیدان بالکل صاف کرکے دیاگیا تاکہ غلطی سے بھی کوئی بین الاقوامی پروازٹارگٹ نہ بنے اوروہ آسانی سے طے شدہ اہداف کونشانہ بناسکے ۔

اس دوستانہ حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے دعوی کیا تھاکہ اس نے ہفتہ کو تہران، شیراز اور کرج پر فضائی حملہ کیا۔ ایران پرحملے میں 100 جنگی طیاروں نے حصہ لیا اور 20 ملٹری سائیٹس کو نشانہ بنایا گیاجبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے تہران،الم اورخوزستان میں ملٹری بیسزکونشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کچھ مقامات پرمعمولی نقصانات ہوئے ہیں البتہ ایران نے حملے کے بارہ گھنٹے بعدیہ تسلیم کیاکہ حملے میں چاررایرانی فوجی مارے گئے ہیں ، اسرائیلی حملے میں 100 جنگی طیاروں کے حصہ لینے کا دعوی جھوٹا ہے، اسرائیل نے اپنے کمزور حملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اسرائیلی طیارے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہی نہیں ہوسکے۔

امریکی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے پاسداران انقلاب کے کم از کم 3 میزائل اڈوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے تہران کے قریب خمینی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے ایس300 ڈیفنس کونشانہ بنایا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی ڈرونز نے تہران کے مضافات میں پارچن ملٹری بیس کوبھی نشانہ بنایا، تہران میں ڈرون فیکٹر ی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔دوسری جانب اسرائیلی میڈیا کا دعوی ہے کہ اسرائیل نے امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے دبا ئوپر ایران کی جوہری اور تیل تنصیبات کونشانہ نہیں بنایا ۔

بی بی سی فارسی کے نمائندے کلباسی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں کے بعد ایرانی ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران اب یہ معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ تاہم کلباسی کے مطابق اگر آگے چل کر ایران میں ہلاکتوں اور عسکری تنصیبات کو پہنچنے والے نقصانات کے ثبوت سامنے آ جاتے ہیں تو ایران کی یہ سٹریٹجی متاثر ہو سکتی ہے۔ایران اوراسرائیل نے ایک دوسرے کے خلاف جوجعلی بنایاہواہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں خاص کرمرگ براسرائیل کامصنوعی نعرہ اب ایران کے لیے وبال جان بناہواہے اب اگر ایران جوابی کارروائی(جس میں اسرائیل کانقصان نہ ہو) نہیں کرتا ہے تو اسے کمزرو نظر آنے کا خطرہ لاحق ہوگا اور اسے اس طور پر دیکھا جائے گا کہ وہ ایک ایسا ملک ہے جو امریکہ نواز اسرائیل کی عسکری طاقت اور سیاسی عزم کے سامنے گھبرا رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں