منگل, نومبر 5, 2024

انطاکیہ کی تسخیر: معرکہ جسر الحدید میں خلافتِ راشدہ کی فتح

آج کے دن (30 اکتوبر 637ء {1/2 شوال 16ھ}) کو انطاکیہ شہر نے معرکہ جسر الحدید کے بعد خلافتِ راشدہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ یہ جنگ خلافتِ راشدہ اور بازنطینی سلطنت کے درمیان آخری جنگوں میں سے ایک تھی۔

یہ جنگ ایک قریبی نو محرابی پتھر کے پل "جسر الحدید” کے نام سے موسوم ہوئی، جو ندی اورنتیس پر قائم تھا اور جس کے دروازوں پر لوہے کے تیز دھار بلیڈ لگے ہوئے تھے۔

معرکہ جسر:
مسلمانوں کو معرکہ جسر میں جو نقصان اٹھانا پڑا اس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔ ہوا یہ کہ جب ایرانی معرکہ سقاطیہ میں عبرت ناک شکست سے دوچار ہونے کے بعد واپس لوٹے تو رستم نے دریافت کیا کہ پورے ایران میں عربوں کے خلاف نبردآزما ہونے سخت جان کون ہوسکتا ہے؟
سب نے بیک زبان کہا، بہمن جاذویہ۔۔ اور اسے بھوؤں والی سرکار بھی کہا جاتا تھا۔ اس لئے کہ یہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں کبر و نخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکثر و بیشتر اپنی بھوؤں کو آنکھوں سے اوپر کی جانب چڑھائے رکھتا تھا، تاکہ اسے دیکھنے والا پہلی نظر میں خوف زدہ ہوجائے۔ ایرانی فوج کے جرنیل رستم نے بہمن جاذویہ کو لشکر دے کر مدائن بھیجا اور خطرناک ہاتھی بھی اسے دئیے تاکہ میدان میں جم کر مقابلہ کیا جاسکے اور ایرانی جھنڈا بھی اسےتھما دیا گیا تاکہ اس کی لاج رکھنے کے لئے سر توڑ کوشش کی جائے۔
اس معرکے میں لشکر اسلام کے سالار اعظم ابو عبید بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ تھے اور ان کے ہمراہ مثنٰی بن حارثہ شیبانی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے جواں مرد، نڈر اور تجربہ کار جرنیل بھی تھے۔ دریائے فرات کے کنارے لشکر اسلام خیمہ زن ہوگیا اور دوسرے کنارے ایرانی جرنیل بہمن جاذویہ نے اپنی فوج اتار لی اور یہ پیغام لشکر اسلام کے سالار کی طرف بھیجا۔
ہماری طرف سے آپ کو یہ دعوت دی جاتی ہے کہ دریائے فرات عبور کرکے ہمارے مقابلے کے لئے آئیں، یا آپ ہمیں دعوت دیں کہ ہم دریا عبور کرکے آپکے مقابلے کے لئے آئیں۔ جو بھی صورت منظور ہو اس سے آگاہ کریں، لشکر اسلام سے یہ آواز بلند ہوئی کہ ہمیں ہرگز دریا عبور نہیں کرنا چاہیئے اس سے ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ سلیط بن قیس اور دیگر کند مجاہدین نے اپنے جرنیل ابو عبید بن مسعود سے کہا کہ دشمن پر حملہ کرتے وقت اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئیے کہ بوقت ضرورت بھاگ جانے کا راستہ کون سا ہے، یہ ایرانی سخت جان قوم ہے، اس سے مقابلے کے لئے بڑے اہتمام کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دریا عبور کرکے ان کی طرف گئے تو یہ ہمارے لئے مفید نہ ہوگا۔
اسلامی لشکر کے ابو عبید بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے دینی غیرت و جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے کہا دریا ہم ہی عبور کریں گے۔ ہم موت سے نہیں ڈرتے۔ یہ دریا کی موجیں ہم سے آشنا ہیں۔ سلیط مجھے معلوم نہ تھا کہ تم اتنے بزدل ہوگئے ہو۔
سلیط بن قیس نے کہا بخدا میں بزدل نہیں اور نہ ہی جہاد سے پہلو تہی اختیار کررہا ہوں۔ ہم نے تو آپ کی خدمت میں اپنے تجربے کی بنیاد پر مشورہ پیش کیا تھا تاکہ لشکر اسلام کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، ابو عبید بن مسعود نے لشکر اسلام کو دریاۓ فرات عبور کرنے کا حکم دے دیا۔
حکم ملتے ہی سب سے پہلے سلیط بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا گھوڑا دریا میں اتارا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ میں نے مشورہ بزدلی کی وجہ سے نہیں دیا تھا۔ سب سے پہلے اسی جوان مرد مجاہد نے دریا کو عبور کیا۔
ڈاکٹر ہیکل اپنی کتاب "عمر فاروق” میں لکھتا ہے کہ اس معرکہ میں مسلمانوں کی تعداد دس ہزار سے کچھ کم تھی، لیکن اس کے باوجود انہیں میدان میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ دریا کے کنارے پر ہی دشمن فوج بالکل تیار کھڑی تھی، لشکر اسلام کے لئے اتنی گنجائش ہی نہ تھی کہ وہ صف بندی کرکے دشمن پر حملہ آور ہو، ایرانی فوج کے جرنیل نے پیش قدمی کیلئے ہاتھیوں کو گھنگھرو پہنا رکھے تھے۔ ان کی چھنکار کو سن کر مجاہدین کے گھوڑے خوفزدہ ہو کر پیچھے پلٹے جس سے لشکر اسلام کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔
مجاہدین گھوڑوں سے اترے، دست بدست لڑائی شروع ہوئی، ایرانی فوج کے ہاتھی مسلم پیادہ فوج پر پل پڑے، اسلامی لشکر کے جرنیل حضرت ابو عبید بن مسعود نے مجاہدین کو حکم دیا کہ ہاتھیوں کی طنابیں کاٹ دو، ان کے ہودج الٹ دو، ان کے سواروں کو نیچے گرانے کی کوشش کرو۔ اب یہی میدان میں کامیابی کی صورت ہے۔
مجاہدین نے اپنے قائد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہاتھیوں کے سواروں کو نیچے گرانے کی سر توڑ کوشش کی۔ ابو عبید نے خود آگے بڑھ کر سفید ہاتھی کی سونڈ پر تلوار کا وار کیا لیکن ہاتھی نے غضب ناک ہوکر ان پر حملہ کردیا جس سے وہ نیچے گر گئے ہاتھی نے اپنا پاؤں ان کے سینے پر رکھ دیا جس سے ان کی روح پرواز کرگئی اور جام شہادت نوش کر گئے،
مجاہدین یہ خوفناک صورتحال دیکھ کر پریشان تو ہوئے لیکن پیچھے ہٹنے کی بجائے وہ آگے بڑھے۔
ہاتھی پر زوردار حملہ کیا اور اسے قتل کردیا۔ وہ یوں گرا جیسے کوئی پہاڑ کا تودہ زمین بوس ہوتا ہے، ایک جوان مرد مجاہد نے آگے بڑھ کر جام شہادت نوش کرنے والے امیر لشکر کے ہاتھ سے گرا ہوا جھنڈا تھام لیا اور اسے لہراتا ہوا آگے بڑھا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد یہ بھی شہید ہوگیا اس طرح یکے بعد دیگرے سات مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا۔
اس کے بعد حضرت مثنٰی بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ غم کی تصویر بنے ہوئے اور لشکر اسلام کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان پر کف افسوس ملتے ہوئے آگے بڑھے۔ جھنڈا ہاتھ میں لیا اور باقی ماندہ لشکر اسلام کو بچانے کی تدبیر کو بروئے کار لاتے ہوئے مجاہدین کو پل کے راستے سے دریا کو واپس عبور کرنے کا حکم دیا کیونکہ دانشمندی کا تقاضا یہی تھا کہ لشکر کو اور زیادہ نقصان نہ پہنچایا جائے۔ کامیاب جرنیل کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ فوج کو مختلف پنتیرے تبدیل کرنے کی تلقین کرتا رہتا ہے۔ اگر آگے بڑھنا مفید ہو تو آگے بڑھنے کا حکم دیتا ہے اور اگر پیچھے ہٹنے میں فائدہ ہو تو پیچھے ہٹنے کا حکم دینے میں اسے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔
بہرحال دریائے فرات کا پل خراب کردیا گیا تھا اسے مرمت کرنے کے بعد باقی ماندہ مجاہدین کو سلامتی سے دریا کے پار لیجانے میں کامیاب ہوگئے اور سب کے بعد امیر لشکر حضرت مثنٰی بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ پل کے راستے دریا کے پار آئے، ایسی حالت میں کہ وہ زخمی تھے۔
محفوظ مقام پر پہنچ کر عروہ بن زید کو مدینہ طیبہ بھیجا تاکہ امیرالمومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو اس شکست سے آگاہ کیا جائے۔ جب یہ خبر مدینہ منورہ پہنچی تو وہاں کہرام مچ گیا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ یہ خبر سنتے ہی آبدیدہ ہوگئے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے تسلی دی اور کہا:
گھبراؤ نہیں میدان جنگ میں ایسے مواقع آیا ہی کرتے ہیں۔ جہاں فتح کی امید کا تمہیں انتظار ہوتا ہے وہاں شکست کی غم ناک خبر سننے کا حوصلہ بھی پیدا کیجیے۔
عربی زبان میں جسر پل، نہر دریا کو کہتے ہیں۔ دریائے فرات کے اس پل کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی جس کے ذریعے شکست خوردہ لشکر اسلام واپس آنے میں کامیاب ہوا۔ اسی لیے یہ معرکہ جنگ جسر کے نام سے مشہور ہوا۔
اس جنگ میں سپہ سالار ابو عبید بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے لشکر اسلام کو بے بہا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ جنگی حکمت عملی کا تقاضا یہ تھا کہ دشمن کو دریا عبور کرکے لشکر اسلام پر پیش قدمی کا موقع دیا جاتا اس طرح اسلامی لشکر کا پلہ بھاری ہوتا اور آسانی سے ایرانی لشکر کو تہ تیغ کیا جاسکتا تھا۔ لیکن امیر لشکر کی طبعی صلابت اور تیزی و طراری کی وجہ سے یہ موقع ہاتھ سے گنوا دیا گیا تھا جس کا خمیازہ پورے لشکر کو بھگتنا پڑا۔
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں