Home صحت و تعلیم سرسید یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام ”چھاتی کے کینسر سے آگاہی“ پر پروگرام...

سرسید یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام ”چھاتی کے کینسر سے آگاہی“ پر پروگرام کا انعقاد

18
کراچی: پِنک ربن کیمپین کے تحت سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ بائیو میڈیکل انجینئرنگ کے زیرِ اہتمام دارلصحت کے تعاون سے چھاتی کے کینسر سے آگاہی کے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیاجس میں دارلصحت کی ماہرین طِب ڈاکٹر یابندہ سحرش اور ڈاکٹر یسریٰ افضل نے فکر انگیز معلومات فراہم کیں۔۔آگاہی سیمینار کی مہمانِ خصوصی داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی وائس چانسلر محترمہ سمرین حسین تھیں۔پروگرام کے شرکاء میں پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف، ثانیہ تنویر، کنزا علی، ربیعہ اسد، دانیال حسین، امل فاطمہ سمیت خواتین کی کثیر تعداد شامل تھے۔اس موقع پراُن خواتین نے اپنے تجربات شیئر کئے جو زندگی میں کبھی اس موزی بیماری کا شکار ہوچکی تھیں۔سید یاسر عباس عابدی نے ٹیکنکل سیشن کے دوران چھاتی کے سرطان کی تشخیص اور علاج کے لیے استعمال ہونے والے آلات اور مشینوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کیں۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین نے کہ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے، مگر یہ نہیں جانتے کہ اس فرق کو کیسے ختم کیاجاسکتاہے۔انجینئر تنقیدی سوچ رکھنے والے تجزیہ کار ہوتے ہیں جو اس فرق کو ختم کرنے کا طریقہ جانتے ہیں اور اسے آسانی سے ختم کرسکتے ہیں۔اگر آپ کو اپنے جسم میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نظر آتی ہے تو کم ازکم اپنے قریبی فیملی ممبر سے ضرور اس بارے میں بات کریں۔معاشرتی خوف کو ختم کریں۔۔میری نظر میں یہ آگاہی سیشن ایسے علاقوں میں ہونا چاہئے جہاں کی عورتیں اپنے حقوق کے بارے میں ہی لاعلم ہیں۔آپ کو معاشرے میں حقیقی تبدیلی اس وقت نظر آئے گی جب لوگ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اسے پورا کریں۔
  اس موقع پر بات کرتے ہوئے سرسید یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر منورحسین نے کہا کہ چھاتی کا کینسر ایسا مرض ہے جس کی جلد تشخیص کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کی علامات بیرونی جسم پر ظاہر ہوتی ہیں۔بریسٹ کینسر کی جلد تشخیص سے مریض کی جان بچنے کے امکانات90 فیصدتک بڑھ جاتے ہیں۔بروقت علاج اور تشخیص سے ہزاروں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔پاکستان میں اس مرض کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ آگاہی کا فقدان ہے جو چھاتی کے کینسر کا پتہ لگانے میں تاخیرکا سبب بنتا ہے اور بیشتر خواتین مرض کے آخری مرحلے پر ڈاکٹروں سے رجوع کرتی ہیں۔
اس موقع پرجنرل سرجن ڈاکٹر یابندہ سحرش نے کہا کہ یہ بیماری کسی بھی عمر اور کسی بھی جنس میں ہوسکتی ہے۔خواتین کے ساتھ ساتھ مرد بھی اس بیماری کا حصہ بن رہے ہیں۔پاکستان میں اس کا بہترین علاج موجود ہے۔آگاہی کی ضرورت ہے۔ نو(9) میں سے ایک خاتون کسی بھی وقت چھاتی کے کینسر کا شکار بن سکتی ہے۔جلد تشخیص بہترین علاج کا باعث بن سکتی ہے۔
پلاسٹک سرجن ڈاکٹر یسریٰ افضل نے کہا کہ خواتین کو شرم اور سماجی خوف سے خاموش نہیں رہنا چاہئے بلکہ اپنے مرض کے علاج کے لیے ڈاکٹر سے فوراََ رجوع کرنا چاہئے کیونکہ ابتدائی مرحلے پر اس کا علاج ممکن ہے۔چھاتی کے کینسر سے ڈرنا نہیں، لڑنا چاہئے۔ایک عورت ایک خاندان کی پرورش کرتی ہے۔۔اور ایک صحتمند عورت ہی صحتمند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔
قبل ازیں پنک ربن کی فوکل پرسن اورشعبہ بائیومیڈیکل انجینئرنگ کی چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر سدرہ عابد سید نے خیرمقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا عزم ہے کہ چھاتی کے کینسر کی روک تھام اور علاج کے لیے وسیع پیمانے پر آگاہی کی تحریکوں کو فروغ دیں اور ایسے مریضوں کی علاج تک رسائی میں سہولتیں فراہم کریں تاکہ مرض کا پیشگی، بروقت پتہ لگایا جا سکے اور اسے مطلوبہ طبی امداد مل سکے۔
الیکٹریکل و کمپیوٹر انجینئرنگ کے ڈین، پروفیسر ڈاکٹر محمد عامر سیمینار کے اختتام پر مہمانوں کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔