لوگوں کو کلائیوں اور بازؤں پر لال یا کالے رنگ کی ڈوریاں پہنے دیکھا، جسے پہننے کے پیچھے مختلف عقائد موجود ہیں، جیسے کہ:
* اگر کوئی بیماری یا تکلیف ہو تو اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے کلائیوں میں لال یا کالے رنگ کا دھاگہ یا ڈوری پہن لے تو ٹھیک ہو جائے گا
* کسی دربار و درگاہ پر منت مانگنے کے بعد اس منت کی یاد میں ڈوری پہننا
* نظر بد دور کرنے کے لیے
* کالے جادو کے توڑ کے لیے
* لوگوں کی بد دعاؤں سے بچنے کے لیے
بائیں کلائی پر سرخ دھاگہ باندھنے سے منفی اثرات دور رہتے ہیں
* فقط آن بان، سج دھج کی نیت سے پہننا
یہ ایک غلط سوچ ھے
اصل:-
یہ عقیدہ بھی ہمارے اندر ہندوؤں اور سکھوں سے آیا ھے۔ کاٹوکا نامی لال پیلے دھاگے کو ان کے ہاں بہت اہمیت حاصل ھے جسے وہ اپنی مختلف تقریبات، منت، نظر بد دوری کے لیے تعویزات بنانے اور شادی بیاہ کے موقعوں پر استعمال کرتے ہیں۔ اِن کے ہاں ان ڈوریوں کے مختلف نام ہیں:-
جنوبی بھارت میں ان کا نام:
* ماؤلی
* کلاوا
* موئی
* رکشاسُطرا
* پراتیسارا
(ملاحظہ ہو:- Richard H. Davis (2010). A Priest’s Guide for the Great Festival: Aghoraśivācārya Mahotsavavidhi)
شمالی بھارت میں ان کا نام:
* رکشائی
* چرادھو
* کاپو
* کائیرو
(ملاحظہ ہو:- Jan Gonda (1980). Handbuch Der Orientalistik: Vedic Rituals)
(ملاحظہ ہو:- Colleen M. Yim (2008). Veiled Gurus: A Hindu Mother’s Experiential Involvement in Religious Knowledge Transmission)
(ملاحظہ ہو:- شمالی ہندوستانی ویوا – از: یوکوو نیشیمورا ۱۹۹۶ء)
○ وہ مندر وغیرہ پر جا کر اپنے پادریوں سے ایسے دھاگے لے کر اسی نیت سے کلائیوں میں پہنتے تھے اور برِصغیر کے مسلمانوں نے ان کی دیکھا دیکھی یہ فعل اختیار کر لیا۔ ہندوؤں کی دھرمی کتب سے کچھ عقائد دیکھنے کو ملے، ملاحظہ ہوں:
بد اثرات سے بچنے کے لئے یہ دھاگہ خالص اونی ہونا چاہیے اور اسے باندھنے والے کی نیت مثبت اور اچھی ہونی چاہیے ۔ یہ دھاگہ کوئی ایسا شخص آپ کی کلائی پر باندھے جو آپ کے بہت قریب اور آپ سے مخلص ہو۔ دھاگہ باندھتے ہوئے سات گرہیں لگانا بہتر ہوتا ھے اور ہر گرہ کے ساتھ ایک اچھی نیت اور دعا منسلک ہونی چاہیے۔ اگر یہ ٹوٹ جائے تو پریشانی کی بات نہیں کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہوتی ھے کہ اس نے تمام منفی باتیں اور توانائیاں جذب کرلی ہیں۔
(ملاحظہ ہو:- Jan Gonda (1980). Handbuch Der Orientalistik: Vedic Rituals)
◯ مختلف رنگ کے دھاگوں کے مختلف اثرات:-
☆ لال دھاگہ:
لال دھاگے کو کلائی یا بازو پر پہن لینے سے وہ شخص شیطانی اثرات اور لوگوں کی بد نظروں سے بچ جاتا ھے نیز شخصیاتی اور مزاج میں بدلاؤ کے منفی اثرات سے بچا رہتا ھے۔
☆ سفید دھاگہ:
یہ دھاگہ "یاجنوپاویتا، جینیو یا پونل” جیسی تقریبات میں استعمال ہوتا ھے اور سفید رنگ کے دھاگے کو بہت پاک اور خاص سمجھا جاتا ھے۔
☆ کالا دھاگہ:
کالے دھاگے کو کلائی پر پہن لینے سے "گندھاروا کالی” کے وسوسے اور بد نظر سے بچا جا سکتا ھے۔
اس کے علاوہ ہندو دھرم میں پیلے، نارنجی اور گلابی رنگ کے دھاگے بھی پہنے جاتے ہیں۔
(ملاحظہ ہو:- منترا ۲۷.۲۰۶-۲۰۷ – از: اجیتگاما)
(ملاحظہ ہو:- Anna Aleksandra Ślączka (2007). Temple Consecration Rituals in Ancient India)
اِضافی:-
ہمارے معاشرے میں جاہل لوگوں کے عقائد تو عین وہی ہیں جو برسوں سے ہندوؤں سے لیے گئے۔ مگر نوجوان نسل نے ان دھاگوں کو سج دھج (فیشن) کے طور پر پہننا شروع کر دیا ھے حالانکہ دیکھا جائے تو ہندوؤں اور سکھوں نے بھی ایسے ہی لال کالے دھاگے کلائیوں اور گردنوں میں تقریباً ہر وقت پہن رکھے ہوتے ہیں اور مسلمان نوجوان لڑکے یا لڑکیاں اس حقیقت کو سمجھے بغیر کے ایک تو غیر مسلم کی تشبیہ اختیار کرنے کا گناہ ملتا ھے دوسرا اس ڈوری دھاگے کے پہننے کے رواج کی حقیقت کیا ھے (جو کہ درج بالا بیان کے جا چکے ہیں)۔ اب تو مختلف شادی بیاہ کے موقعوں پر دلہن کو ایسے سجایا جاتا ھے کہ اسے بھی لال کالے دھاگے پہنائے جاتے ہیں تا کہ اسے نظر بد نہ لگے۔
¤ شرک کی شروعات:-
ہمارے معاشرے میں جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔ یہ وہ امور ہیں جن کو وقتی روکا نہ گیا تو عام جاہل مسلمانوں میں یہ شرک کی حد تک پہنچ جائے گا بلکہ اب تو پڑھا لکھا طبقہ بھی ایسے دھاگے پہنے نظر آتا ھے کیونکہ دیکھنے میں آیا ھے لوگ مزاروں، درگاہوں پر جا کر منتیں مانتے ہیں، کاروبار کے نفع، اپنی صحت اور بچوں کی پیدائش کے لیے دعائیں مانگ کر دھاگے پہن لیتے ہیں یا مزار پر دھاگے باندھ دیتے ہیں (جو خالص ہندوانہ عقائد پر مبنی ھے) اور جب اللّٰه ﷻ ان کی دعا پوری کر دیتے ہیں تو ان کا اعتقاد اس دھاگے اور مُردہ پیر بابا پر بڑھ جاتا ھے اور اس طرح وہ اپنی اگلی نسلوں کو بھی ایسے دھاگے پہننے و منتیں مانگنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ حالانکہ ہندوؤں کے مشرکانہ عقائد ہونے کے باوجود اللّٰه ﷻ ان کی دعائیں سنتے ہیں، رزق اور صحت عطا کرتے ہیں مگر ان کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں۔ مگر کچھ مسلمان بھی غلط راہ پر جا رہے ہیں جن میں اس کالے، لال دھاگے کا بہت عمل دخل ھے اور آخر کسی حد تک شرک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ھے۔
¤ رتیمہ:-
بعض فقہاء نے تو اسے افعالِ کفر میں شمار کیا ھے، زمانہ جاہلیت میں لوگ گردن میں یا ہاتھ میں اپنے عقیدہ کے مطابق خود کو مصیبت سے بچانے کے لیے دھاگے باندھا کرتے تھے، ان دھاگوں کو ”رتیمہ” کہا جاتا ھے، فقہاء نے لکھا ہے کہ: یہ ممنوع ھے، اور بعض فقہاء نے تو اسے کفریہ کاموں میں شمار کیا ھے۔
حاصلِ کلام:-
ایسے افعال کا یا عقیدے کا دینِ اسلام سے کچھ تعلق نہیں ھے یہ خالص ہندوؤں کے عقائد ہیں۔ ان کے مندروں اور پنڈتوں سے کلائیوں میں دھاگے پہننے کا رواج شروع ہوا ھے جسے برِصغیر میں رہنے والے جاہل مسلمانوں نے اپنا لیا جو آج تک چل رہا ھے۔ ہمیں لوگوں کو اس کی اصلیت کا بتانا چاہئے اور اخلاق سے ان کاموں سے روکنا چاہیے۔ یہ دھاگے وغیرہ پہننا اور ان سے درج بالا اعتقادات رکھنا بالکل غلط اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ھے۔ دل سے نمازیں ادا کریں اور ہر چیز اللّٰه ﷻ سے براہ راست خود مانگیں۔ اللّٰه ﷻ ہم سب کو سیدھے راستے پر ثابت قدم کر دیں۔ ۔ ۔آمین!