Home تازہ ترین نگران حکومت کراچی میں سسٹم مافیا کو توڑنے میں یکسر ناکام کیوں...

نگران حکومت کراچی میں سسٹم مافیا کو توڑنے میں یکسر ناکام کیوں ؟

0
73

کراچی (رپورٹ: اسلم شاہ) نگران حکومت کراچی سسٹم توڑنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ نگران حکومت پیپلز پارٹی کی حکومت کا تسلسل ہے۔ کرپٹ سسٹم بورڈ آف ریونیو اور دیگر محکموں میں اپنا گھناونا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے۔ کینیڈا اور امریکہ سے کراچی سسٹم چلانے والا سرغنہ یونس سیٹھ عرف یونس میمن جن کا سپریم کورٹ میں بھی بڑا چرچا رہا وہ اور ان کے کارندے بیرون ملک سے کراچی پہنچ گئے ہیں اور اب کراچی میں بیٹھ کر کلفٹن کے بڑے گھر کی نگرانی میں آزادی سے یہ سسٹم چلا رہے ہیں کیونکہ نگران حکومت ان کے آگے بے بس ہے۔

سسٹم کا اہم رکن منظور کاکا جو پہلے ہی کراچی میں اپنے اوپر قائم مقدمات میں ضمانت پر ہیں , اس کے باوجود کرپشن کے اس سسٹم کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کی نگرانی میں گلشن اقبال، صدر، پی ای سی ایچ ایس (طارق روڈ) اور ڈی ایچ اے میں غیر قانونی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں ۔ اس حوالے سے نئی ملاقاتوں کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے ۔ منظور کاکا نے لکی اسٹار کے قریب ایک رابطہ سینٹر قائم کیا ہے جو اب غیر قانونی کاموں کا مرکز بن گیا ہے۔

ایک ماہ سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود نہ کوئی کاروائی ہوئی، نہ مقدمہ قائم ہوا، نہ غیر قانونی سرگرمیاں روکی گئیں بلکہ اس حوالے سے نگران حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ہے کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا تسلسل ہے ۔ اس لیئے ان کے کسی بھی قسم کے کاموں کو روکنا نگران حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق کراچی سسٹم کا اہم رکن حماد چاچڑ حراست میں ہے ۔ جنہوں نے پی ای سی ایچ ایس میں ان کے گھر پر چھاپہ مار کر اربوں روپے برآمد کیئے لیکن اب کوئی بھی ادارہ اس رقم کو نہ اون کر رہا ہے اور نہ ہی اصل رقم بتا رہا ہے۔

خفیہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گرفتاری کے بعد اربوں روپے کی بندر بانٹ ہو چکی ہے جس میں مختلف اداروں  سمیت اعلی افسران ملوث ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ بورڈ آف ریونیو کا گریڈ 14 کا ایک ملازم یار محمد بوزدار جسے زرداری کے فرنٹ مین اے جی مجید نے ایس او لگوایا تھا ۔ وہ بہت سے غیر قانونی کاموں میں ملوث ہے لیکن وہ اداروں کا نام بھی استعمال کر رہا ہے اور وہ نگران حکومت کی نظروں سے اب تک اوجھل کیوں ہے یہ ایک سوالیہ نشان نگران حکومت پر ہے۔

بوزدار کی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ وہ 8 ماہ بغیر پوسٹنگ کے ڈی ایس کے کمرے پر قبضہ کئے بیٹھا رہا اور جب نئے سینئر ممبر نے اسے عہدے سے ہٹایا تو وہ سندھ ہائی کورٹ سے فورا” اسٹے آرڈر لے آیا، اس پر وہ کہتا تھا کہ وہاں بھی چمک نے کام دکھا دیا۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں جس کمرے میں بیٹھتا تھا اس کے صرف واش روم پر 12 لاکھ روپے خرچ کئے ہیں ۔ اس لیئے یہ کمرہ نہیں چھوڑے گا ۔ زاہد عباسی نے جب پولیس بلا لی تب معافی تلافی کر کے کمرہ غضنفر عباسی کے حوالے کر کے سامان اٹھایا۔ اب پیسوں کی لین دین کرنے والی پارٹیاں بوزدار کو ڈھونڈتی پھر رہی ہیں جن کے صحیح و غلط کاموں کے لئے بوزدار نے اسی کمرے میں بیٹھ کر بغیر پوسٹنگ کے کروڑوں روپے وصول کیئے۔

ریونیو بورڈ کی طرح سندھ کے دیگر محکموں میں اب بھی سسٹم کا راج ہے ۔ اسی لیئے کسی کے خلاف تادیبی کاروائی نہ ہو سکی ۔ الٹا شکایت کرنے والے ہی زیر عتاب آ چکے ہیں۔ کراچی سسٹم کی جڑیں وقت کے ساتھ گہری ہورہی ہیں۔توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ کراچی سسٹم کے یونس میمن،منظور کاکا اور دیگر کارندے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ براہ راست سیاست میں اہم کردار ادا کریں گے اور لوٹی ہوئی رقم ان الیکشن میں لگائیں گے۔

مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ یونس میمن کے بھائی اقبال میمن اب بھی بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کا ایک اور بھائی جبار میمن نے کراچی میں سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ وہ لینڈ گریببر کے کاموں کی وجہ سے اڈیالہ جیل میں قید رہے تھے۔ یونس میمن اور دیگر کارندے بیرون ملک سے براہ اسلام آباد چند ماہ قبل آئے تھے اور وہیں قیام کیا۔ بعد میں جب طاقتور حلقوں سے معاملات طے ہو گئے تو ان کی یقین دہانی کے بعد وہ اکتوبر کے مہینے میں کراچی پہنچے تھے ۔

تمام حلقوں میں یونس میمن اور ان کے ساتھیوں کی آمد کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا تاہم اب یونس میمن نے کراچی میں مختلف علاقوں میں سرگرمیاں اور ملاقاتوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنا نیا وٹس اپ گروپ بنا لیا ہے۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ یونس میمن کے کراچی سسٹم سے جڑے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک میں مقیم تمام کارندوں کو الیکشن سے قبل کراچی پہنچنے کی ہدایت جاری کی ہے ۔ اسی وجہ سے پیپلز پارٹی بہت مطمئن ہے کہ وہ سندھ میں باآسانی الیکشن جیت جائیں گے ۔

دلچسپ امریہ ہے کہ کراچی سسٹم کو یونس میمن بیرون ملک سے چلا رہے تھے جس کے تحت کراچی میں زمینوں پر قبضہ، اس کی خرید و فروخت، سرکاری اراضی کی لوٹ مار کے ساتھ بلدیاتی، شہری اداروں کے علاوہ ضلعی انتظامیہ کے افسران کے تبادلے و تقرری بشمول ڈپٹی کمشنر، اسٹنٹ کمشنر، مختیار کار، ایس ایچ او، ڈی ایس پی، ایس پی،ایس ایس پی، ڈی آئی جی پولیس تک کے افسران شامل ہیں۔

کراچی سسٹم کے تحت ہونے والی آمدنی منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی جاتی تھے۔ کراچی سسٹم کا منی لانڈرنگ کا اہم ذریعہ تیمور ڈومکی اس کے والد ایف آئی اے میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر رحمت اللہ ڈومکی اور کئی ایف آئی اے کے افسران کو ان کاموں میں ملوث بتایا جاتا ہے ۔ رحمت اللہ ڈومکی ایف آئی اے کے حلقوں میں منفی اور گری ہوئی شہرت کے حامل ہیں اور کئی دہائیوں تک ترقی سے محروم رہے۔

جعلی اکاونٹس کیس میں گرفتاریوں کے بعد نیب کی کاروائی کے دوران زرداری سسٹم کا منی لانڈرنگ کا نظام ٹوٹ گیا تھا لیکن اب اپنے والد کے ایف آئی اے میں اثر و رسوخ کو استعمال کر کے تیمور ڈومکی نے منی لانڈرنگ کا نیا نظام وضع کر لیا ہے۔ وہ زمینوں پر قبضہ میں ملوث ہے۔ کراچی سسٹم کے کارندوں میں شامل افراد کے نام اسٹاپ لسٹ میں موجود ہے، ان میں اے جی مجید، سابق وفاقی وزیر ، سابق رکن اسمبلی طارق آرائیں ، کراچی سسٹم کے اہم ترین رکن لینڈ گریبر علی حسن بروہی ، علی حسن زرداری، سمیت دیگر 60 سے زائد افراد کراچی سسٹم کو کنٹرول کر رہے تھے ۔

نیب کراچی اور دیگر تحقیقاتی ادارے چمک کی وجہ سے کراچی سسٹم کے کارندوں کے خلاف نہ تو کاروائی کرتے ہیں، نہ مقدمہ بناتے ہیں، نہ تفتش اور نہ گرفتاری کی جا رہی ہے جبکہ نگرانوں کی آمد سے قبل بڑے بلند بانگ دعوی کیئے جا رہے تھے۔

اب معلوم ہوا ہے کہ نگرانوں نے بھی کرپشن کی غضب کہانیوں کے پیش نظر ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب پرانی فہرست کو اپ گریڈ کر دیا گیا ہے، نئی فہرست بھی تیار کر رہے ہیں امید کی جا رہی ہے کہ جلد بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جائیگا۔

اس سلسلے میں وفاقی نگران حکومت کے ایک اعلی سطحی تحقیقاتی ادارے نے 60 سے زائد افراد کو لینڈ گریبنگ میں ملوث قرار دیتے ہوئے ان کے نام اسٹاپ لسٹ میں ڈال دیئے ہیں اور ملک بھر کے ائیرپورٹس کو مراسلے جاری کر دیئے ہیں۔