پیر, نومبر 4, 2024

مقبوضہ کشمیر میں انتخابات، مودی کا بیانیہ ہار گیا

اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعدمقبوضہ کشمیر میں پہلی مرتبہ الیکشن ہوئے ہیں۔اِن انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے رہنما پہلی مرتبہ ہندو چیف منسٹر بنانے اور جموں کشمیر میں اقتدار حاصل کرنے کے مسلسل دعوے کر رہے تھے۔پچھلے کئی سال سے نریندر مودی یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ جموں کشمیر میں باپ بیٹے اور باپ بیٹی کی سرکار نہیں بنے گی۔ ان کا اشارہ فاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمرعبداللہ اور مفتی سعید اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کی طرف تھا۔

حالیہ الیکشن میں مودی نے سرینگر اور جموں میں کئی ریلیوں سے خطاب کے دوران کہا کہ خاندانی راج ختم ہو رہا ہے اور دفعہ 370 کو واپس لانے کی باتیں کرنے والے درحقیقت لوگوں کو بہکا رہے ہیں۔انھوں نے کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے اتحاد پر پاکستان کے ایجنڈے پر کام کرنے کا الزام تک لگا دیا۔مودی اور بی جے پی کا بیانیہ یہ تھا کہ دفعہ 370 کے خاتمے سے لوگ خوش ہیں اور وہ اس بار خاندانی پارٹیوں کو شکست دے کر اس فیصلے کی توثیق کریں گے۔

دوسری جانب نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے لوگوں سے شناخت اور آئینی حقوق کی بحالی کے لیے ووٹ مانگا تھا۔دہائیوں بعد پہلی بار کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے دوران بجلی، پانی ، سڑک اور روزگار کا مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔نیشنل کانفرنس کے منشور میں آرٹیکل 370 کی بحالی، انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بحالی، قیدیوں کی رہائی اور اظہار رائے کی آزادی کو بحال کرنے جیسے وعدے کیے تھے۔

تین مرحلوں میں ہونے والے اِن انتخابات میں فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے راہل گاندھی کی انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا تھا۔اس طرح 90 سیٹوں پر مشتمل جموں کشمیر اسمبلی میںنیشنل کانفرنس نے 42 سیٹیں جیتیں جبکہ اس کی اتحادی جماعت کانگریس نے چھ سیٹوں پرکامیابی حاصل کی ،نیشنل کانفرنس کو پچھلے انتخابات میں 28 یا اس سے کم سیٹیں ملی تھیں، جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندووں کی اکثریت والے علاقوں میں 29 سیٹیں جیتیں۔

یاد رہے کہ سنہ 2014 میں محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بی جے پی نے اتحاد قائم کر کے جموں کشمیر میں مخلوط حکومت بنائی تھی جو چند سال ہی چل پائی تھی۔ 2018میں بی جے پی اس اتحاد سے علیحدہ ہوئی تو حکومت کا خاتمہ ہو گیا جس کے بعد کشمیر میں صدارتی راج نافذ کیا گیا تھا۔ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے 2019 میں کشمیر کے معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کی جزوی خود مختاری ختم کر دی۔ اچانک ہونے والے اس فیصلے کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور ایک ماہ تک مواصلاتی بلیک آٹ رہا۔مودی حکومت نے سابقہ ریاست کو دہلی کے زیر انتظام علاقوں، لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس اقدام کے بعد ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا، شہری آزادیوں کو سلب کیا گیا اور ذرائع ابلاغ پر قدغنیں لگائی گئیں۔

آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعدمودی اوراس کے حواری یہ سمجھتے تھے کہ کشمیری عوام نے ان کے فیصلے کوقبول کرلیاہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ بی جے پی اب جموں کے بعد کشمیر میں بھی سیاسی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔اس سلسلے میں کافی کچھ ہوا بھی۔ کشمیر میں سینکڑوں لوگوں کو بی جے پی میں شمولیت بھی اختیارکروائی گئی لیکن انتخابات میں وادی کی 47نشستوں پربی جے پی کوصرف 19امیدوارمل پائے اوران میں سے بھی کوئی کامیاب نہ ہوسکا،یوں بے جے پی دھونس دھاندلی اوردبائوکے باوجود کشمیر ویلی میں اپنا سیاسی کھاتہ تک نہیں کھول پائی۔
جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں بھلے سے بی جے پی کو 29 سیٹیں ملی ہوں، لیکن جموں کے سماجی اور سیاسی حلقوں میں بی جے پی کی حکمت عملی سے متعلق کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔اگرچہ بی جے پی نیشنل کانفرنس کے بعد دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھری ہے۔اور 2014 کے الیکشن میں جموں سے 25 سیٹیں حاصل کرنے والی بے جے پی اس بار چار کا اضافہ کرپائی ہے مگر دیکھا جائے تو الیکشن کے نتائج مودی اور بی جے پی کے کشمیر سے متعلق بیانیے کے خلاف واضح ریفرینڈم ہیں۔

مودی کے بیانیہ کی کشمیر میں ہار ہوئی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے انتخابی نتائج نے مودی کے مذموم عزائم خاک میں ملادیئے ہیں ۔عوام نے ووٹ کے ذریعے باور کرایا کہ جموں و کشمیر میں صرف وہی پارٹی جیت سکتی ہے جو ان کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہو اور ان کو جاگیر سمجھ کر ان پر دھونس دباو نہ جمائے۔اس بار لوگوں نے جمہوری طریقہ اختیار کرکے نہ صرف بی جے پی کی ہندوتوا پالیسی کو شکست دی بلکہ ایک ریفرنڈم سمجھ کر پانچ اگست 2019 کی اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف ایک زبان میں اس پرانی پارٹی کو جتوایا جس کو بی جے پی نے سیاسی جماعتوں کی فہرست سے نابود کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کو دہائیوں بعد صوبائی اسمبلی میں ملنے والی برتری کو خطہ کشمیر سے متعلق انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے سیاسی بیانیے کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

کشمیری عوام کی بے جی پی سے نفرت کایہ عالم تھا ووٹروں نے ایسی جماعتوں اور امیدواروں کو بھی سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیا جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ بی جے پی کی اے ٹیم یا بی ٹیم ہیں۔محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی، الطاف بخاری کی اپنی پارٹی، انجینئررشید کی عوامی اتحاد پارٹی اور سجاد لون کی پیپلز کانفرنس کے لیے یہ انتخابات خفت کا باعث بنے۔ حالاں کہ انتخابی مہم کے آخری مراحل میں انہوں نے آرٹیکل 370 کو بحال کرنے کا نعرہ بھی لگا دیا تھا۔جس انجینئر رشید نے چند ماہ پہلے جیل میں بیٹھ کرپارلیمانی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی ان کو اسمبلی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوگئے کیوں کہ ان کی اچانک رہائی اور پھر جذباتی بیانات مشکوک تصور کیے جانے لگے اور ان کے اسمبلی انتخابات میں نمودار ہونے کو بی جے پی کی کارستانی سے تعبیر کیا جانے لگا تھا۔

کشمیری عوام نے یہی نہیں کیا بلکہ جماعت اسلامی کے بعض رہنما( افضل گورو جنہیں پارلیمان پر حملے میں مبینہ طور ملوث قرار دے کر پھانسی دی گئی اور تہاڑ جیل میں دفن کردیا گیاتھا)کے بھائی اعجاز احمد گورو اور حریت کے بعض امیدواروں کو ووٹروں نے یکسر مسترد کر دیا۔ان کے بارے میں یہ زبان زدعام تھا کہ ان سب کو دبائو اور حالت مجبوری میں انتخابات لڑنے کے لیے تیار کیا گیا ہے جس کا مقصد دنیا کو باور کرانا تھا کہ آزادی پسند فورسز مین سٹریم میں داخل ہوکر اپنی تحریک کو خود دفن کر چکی ہیں۔ عوام کے بڑے طبقے نے انہیں مسترد کر کے یہ جتانے کی کوشش کی کہ مجبوری ہی کیوں نہ ہو مگر نظریات بدلنا اس موقف سے غداری ہے جس پر ایک لاکھ سے زائد کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ بعض ووٹروں نے ان سے معافی مانگنے کی تلقین کی مگر جواب میں انہوں نے بدلتے حالات کا حوالہ دیا اور عوام سے ووٹ مانگتے رہے۔

جموں کے بیشتر لوگوں نے ایک بیانیہ چلانے کی کوشش کی کہ اس بار جموں وکشمیر کا ہندو وزیراعلی اور بی جے پی کی حکومت لازمی ہے کیوں کہ ماضی میں کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے جموں کو نظر انداز کیا ہے۔حالاں کہ جموں کے لوگوں نے سلطنت کشمیر پر ہندو مہاراجوں کی تقریبا 100 سال تک حکومت کے دوران کشمیری مسلمانوں کو نظر انداز کرنے پر کبھی منہ نہیں کھولا۔بہرحال ہندوتوا عناصر نے جموں اور کشمیر کے بیچ میں خلیج پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،لیکن عوام نے بغیر مذہب و ملت کے ہندوتوا کو سرے سے دھتکار دیا۔

مودی کوایک جھٹکااس وقت لگاجب وزیراعلی کے امیدواراوربی جے پی کشمیرکے صدر رویندر رینا کو نیشنل کانفرنس کے امیدوار نے شکست دے کر مودی کے عزائم کوخاک میں ملادیا۔نوشہرہ سیٹ پر بھاجپا صدر رویندر رینا کو مضبوط امیدوار تصور کیا جاتا تھا مگررویندر رینا کو 27ہزار 250جبکہ نیشنل کانفرنس کے امیدوار سریندر چودھری نے 35ہزار 69ووٹ حاصل کرکے بھاجپا جموں وکشمیر یونٹ صدر کو شکست سے دوچارکرکے مودی کے منصوبے کاستیاناس کردیا۔

انڈین حکام نے بغیر کوئی وجہ بتائے مقامی میڈیا سمیت بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے وابستہ صحافیوں کو انتخابات کی کوریج کی اجازت نہیں دی تاکہ وہ اپنے مذموم پلان کوکامیاب بناسکیں مگرکشمیریوں کے موڈکودیکھتے ہوئے مودی اپنے منصوبے پرمکمل عمل نہیں کرسکا ۔مودی کاخیال تھا کہ دھونس اوردھاندلی کے ذریعے کامیابی حاصل کی جائے گی اورجوکمی رہے جائے گی وہ گورنرکے ذریعے پوری کی جائے گی ۔جس کے تحت مودی حکومت نے گورنر کو پانچ ممبران اسمبلی نامزد کرنے کا اختیاردے رکھا ہے۔ یہ نامزد ممبران پاکستان کے ہندو مہاجرین اور کشمیری پنڈتوں پر مشتمل ہوں گے مگرایسانہ ہوسکاالبتہ اب یہ نامزدپانچ ممبران اسمبلی اگر بی جے پی کودے دیئے جائیں تو اسمبلی میں بی جے پی کی عددی قوت 34 تک پہنچ جائے گی اور اگر بعض آزاد امیدواروں نے بھی بی جے پی کی حمایت کی تو حکومت کو ایک نہایت طاقتور اپوزیشن کا سامنا ہو گا، جو حکومت کا جینا حرام کر سکتی ہے۔

مودی نے پہلے ہی یہ انتظام کرلیاتھا کہ کشمیریوں کوبااختیارحکومت نہیں دی جائے گی اسی وجہ سے ایسی قانون سازی کی کہ الیکشن کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ایک اسمبلی اور مقامی حکومت توہوگی تاہم یہ محدود پیمانے پر کام کرسکے گی کیونکہ یہ ایک یونین ٹیریئٹری ہی رہے گی جس پر راج نئی دہلی کا ہو گا۔اس دوران لیفٹنٹ گورنر کے اختیارات میں توسیع کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے جموں کشمیر کی نئی حکومت ایک میونسپلٹی جیسی ہو گی جہاں وزیراعلی کو صرف اسی فائل پر دستخط کرنا ہوں گے جسے گورنر ہائوس سے گرین سگنل ملے گا۔

لیفٹیننٹ گورنر کو امن و قانون، مالیات، اور دوسرے اہم معاملوں میں بااختیار بنایا گیا ہے۔کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈا دو دن پہلے گورنر ہاوس بھیجنا ہو گا۔ اسی طرح پولیس محکمے کی کمان براہ راست نئی دلی کے پاس رہے گی، حکومت کسی منصوبے پر رقم مخصوص کرنے کے لیے بھی لیفٹیننٹ گورنر کی محتاج ہو گی۔اس کے علاوہ اہم فیصلے نئی دہلی کے ہاتھ میں رہیں گے، جن میں سکیورٹی اور کشمیر کے گورنر کی تقرری بھی شامل ہے۔نئی دہلی کے پاس 90 رکنی اسمبلی کے ذریعے منظور کردہ قانون کو منسوخ کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔

نیشنل کانفرنس نے عمرعبداللہ کوکشمیرکے وزیراعلی بنانے کافیصلہ کیاہے اتحادیوں سے باضابطہ مشاورت کے بعداس کااعلان کردیاجائے گا تقسیم ہند سے پہلے بننے والی جموں کشمیر کی اولین سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ عبداللہ نے جموں کشمیر میں مسلم اکثریت ہونے کے باوجود انھوں نے اس وقت کے انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کا ساتھ دے کر انڈیا کے ساتھ الحاق کو تسلیم کر لیا، لیکن اس الحاق کی بنیادی شرط یہ تھی کہ انڈیا کے پاس کرنسی، خارجہ امور اور مواصلات کے اختیارات ہوں گے جبکہ باقی تمام امور میں جموں کشمیر خودمختار ہو گا۔

یہ سب انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ممکن بنایا گیا تھا تاہم بعد میں یہ اختیارات رفتہ رفتہ کم کیے گئے، یہاں تک کہ سنہ 2019 میں مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے کشمیر کو ایک یونین ٹیریٹری بنا کر یہاں سینکڑوں نئے قوانین نافذ کیے، جن میں کسی بھی انڈین شہری کو کشمیر میں زمین خریدنے، نوکری حاصل کرنے اور ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔نیشنل کانفرنس اور اس کی ہم خیال جماعتوں نے ان سبھی فیصلوں کو چیلنج کیا جس کی وجہ سے اس جماعت کو الیکشن میں عوامی حمایت حاصل ہوئی۔اب یہ ان کاامتحان ہوگا کہ کیسے وہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اورمودی کے چنگل سے کشمیرکوآزادکرواتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں