ہمارے معاشرے میں رمضان کے آخری عشرے کے اعتکاف کے اختتام پر معتکف کے ساتھ ایک دلہے جیسا رویہ اختیار کیا جاتا ھے، کچھ باتیں درج ذیل ملاحظہ ہوں:
* معتکف کو مبارکباد دینا سنت ﷺ سمجھنا
* معتکف کو اٹھانے کے ٹولی کی شکل میں بہت سارے لوگوں کا جانا
* معتکف کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالنا
* اٹھانے کے لیے گئے ہر شخص کا معتکف سے باری باری معانقہ کرنا
* معتکف کو تمام رشتہ داروں، دوستوں اور محلہ والوں کا التزام سے مبارکباد دینا
* معتکف کو مبارکباد کے ساتھ مٹھائی کھلانا
* معتکف کے گلے میں نوٹوں کا ہار ڈالنا
۔ ۔ ۔وغیرہ
– لوگوں کا کہنا یہ ھے کہ یہ تمام خوشیاں منانے کی وجہ یہ ھے کہ معتکف گناہوں سے پاک ہو کر آیا ھے اور اس کے سر کوئی گناہ بای نہیں رہا تو یہ بلاشبہ ایک مبارک لمحہ ھے جس کو منانا چاہیے۔
یہ تمام ایک غلط سوچ ہیں
اَصل:-
دینِ اسلام سے جاہل عام مسلمانوں کو شریعت پر چلنے کی تو کوئی فکر ہوتی نہیں ھے، بلکہ شریعت پر چلنے کو تو "دین کی سختی” کہہ کر اس سے دور ہو جاتے ہیں مگر ایسے مسلمان دنیاوی رنگ اور عیش و تفریح کے لمحوں کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ کسی بھی دینی معاملے کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ایک رسم بنا کر قبیلے کا رواج بنا ڈالتے ہیں۔ انہیں اس بات سے سروکار نہیں ہوتا کہ جس معاملے کو ہم ایک نئی شکل دے رہے ہیں کیا وہ دینی معاملہ ھے یا دنیاوی۔ بس جس چیز میں ان کو مزہ آتا ھے اسے اسی انداز سے کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر کسی کے اشکال پر اسے مذہبی رنگ دے دیتے ہیں۔ اس کے بارے میں طرح طرح کے جواز دیتے ہیں اور اگر تب بھی بات نا بنے تو کہہ دیتے ہیں کہ:
"اس میں حرج ہی کیا ھے، ایک خوشی کا لمحہ ہی تو ھے، حرام تو نہیں”۔
☆ اسی طرح اعتکاف سے اٹھنے پر معتکف کے اٹھانے کو بھی ایک رسم بنا دی گئی ھے:
اعتکاف سے فراغت کے بعد معتکف کو اعتکاف گاہ سے بڑے انداز کے ساتھ نکالا جاتا ھے، اس کے گلے میں ہار پہنائے جاتے ہیں اور جلوس کی شکل میں اسے گھر پہنچایا جاتا ھے، شنید ھے کہ بعض مقامات پر معتکف حضرات کی یادگار تصاویر بھی بنائی جاتی ہیں۔
دیہاتی نوجوانوں کی اکثریت ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اعتکاف بیٹھتی ھے میں نے گزشتہ کئی سالوں سے مشاہدہ کیا ھے کہ یہ لڑکے دن رات ایک دوسرے کے خیموں میں ٹولیاں بنا کر دنیاوی باتوں میں مصروف رہتے ہیں بلکہ کئی دفعہ باہر لڑکے آکر ان کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور گپ شپ جاری رہتی ھے۔ موبائل فون ان کے پاس موجود ہوتے ہیں اور ادھر ادھر پیغامات بازیاں کررہے ہوتے ہیں۔ ان کے خیموں سے فون کی گھنٹی کی آواز اکثر سنائی دیتی ھے۔ مسجد اور پھر معتکف ہوکر بھی روزانہ نئی شیو بنائی جارہی ھے۔ میک اپ کا پورا سامان خیمہ میں جمع کررکھا ھے۔ معمر افراد جو اب کام کاج سے معذور ہوچکے اعتکاف بیٹھ گئے ایسی مہتم بالشان عبادت کو بھی ہم نے نمودو نمائش بنادیا ھے۔ یہ تو وقت کی قربانی اور عیش و آرام کو چھوڑ کر اللّٰه تعالیٰ کے در پر پڑا رہنے کانام ھے اور جب چاند نظر آئے گا تو پھر ان معتکف حضرات کو دولہا کی طرح نوٹوں اور پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ مساجد میں فوٹو گرافی ہوتی ھے اور جلوس کی شکل گھر لے جایا جاتا ھے۔ کیا ہمارا دین اس نمودونمائش کی اجازت دیتا ھے؟ ہمیں چاہیئے کہ اس عظیم عبادت کو اس کی حقیقی روح کے مطابق انجام دیں تاکہ ہم رمضان کی برکتوں سے مالامال ہوسکیں۔
(ملاحظہ ہو: تحفہ رمضان – از: حضرت مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری)
حاصلِ کلام:-
اعتکاف کے اختتام پر معتکف کو اٹھانے کے لیے جلوس کا جانا، پھر پھولوں کے ہار، مٹھائیاں وغیرہ کھلانا یہ سب ایک رسم کی شکل ھے اور قابلِ ترک ھے۔ معتکف کا اعتکاف قبول ہوا ھے یا نہیں، وہ اپنے گناہ بخشوا کر آ رہا ھے یا گناہوں میں اضافہ کر کے، اس کا اعتکاف ہوا بھی ھے یا اپنا اعتکاف توڑ بیٹھا ھے اس سب کا علم اللّٰه ﷻ کے سوال کسی کو نہیں۔ اگر وہ واقعتاً اللّٰه ﷻ کی رضا کی خاطر گیا تھا تو اس کا دل دنیاوی دھول دھمال سے بے رغبتی کا اظہار کرے گا اور وہ ان تمام رسومات سے دور بھاگے گا۔ خدارا ایسے مبارک دینی معاملات کو دنیاوی رسم کا حصہ مت بنائیں اور معتکف کو چاہیئے کہ وہ خاموشی سے خود گھر آ جائے یا پھر کوئی جائے اور جا کر کے لے آئے۔ یہ مبارکبادیں وغیرہ دینا بھی بلاوجہ ھے کیونکہ اگر وہ گناہ بخشوا کے نہیں بڑھا کر آیا ہوا تو اس مبارکباد کا کوئی فائدہ نہیں، جبکہ بلاشبہ معتکف خود بھی جانتا ھے کہ اس نے اپنا وقت کن کاموں میں گزارا، نیک اعمال کیے یا وقت برباد کر آیا۔