رپورٹ : عزت اللہ خان
کراچی کے ساحل سے 230 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع انڈس جی بلاک میں کھودے جانے والے کنویں کو’’کیکڑا۔ون‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس مقام سے گیس کا بڑا ذخیرہ بازیافت ہونے کا امکان ہے ،جس سے گیس کی مقدار اور بہاؤ کے درست اعدادوشمار کا اندازہ اپریل 2019 تک لگایا جاسکے گا۔ سمندر میں توانائی کے ذخائر کی تلاش کے لیے 1300 میٹر گہرائی میں کھدائی کی جائیگی جس کے لیے اطالوی آپریٹر ENI نے مشہور زمانہ سمندر میں تیل کے کنویں کھودنے والے جہاز Saipem 12000 کی خدمات حاصل کی ہیں، جو کھدائی کے مقام پر پہنچ چکا ہے۔

اس مشترکہ منصوبہ میں اطالوی کمپنی ای این آئی، امریکی کمپنی ایگزون موبل، پاکستانی کمپنیاں او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل حصہ دار ہیں۔ امریکی کمپنی کی تین دہائیوں بعد پاکستان میں کسی پہلے منصوبہ میں شراکت داری ہے۔کراچی کے ساحل سے نزدیک اس بلاک میں کھدائی کا تخمینہ 7سے 8کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے۔
بحر عرب کے گہرے پانیوں میں تیل و گیس کی تلاش کیلئے کیکڑا 1 نامی کنویں کی کھدائی کا کام شروع ہوگیا ہے۔ اسکے بارے میں میڈیا پر جس انداز میں خبریں شایع ہورہی ہیں ان میں اکثر مبالغہ آرائی سے مزین بلکہ بڑی حد تک مضحکہ خیز ہیں۔ افسوس کی بات کہ وفاقی وزرا سمیت انتہائی ذمہ دار حضرات کی جانب سے جو ٹویٹ جاری ہو رہے ہیں ، ان میں سے اکثر حقیقت سے بعید ہیں۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر جہاز رانی جناب علی زیدی کا ایک چیختا چنگھاڑتا پیغام سوشل میڈیا پر شائع ہوا ،جسکے مطابق ملک کی تاریخ میں پہلی سمندر میں تیل کی تلاش کیلئے کھدائی کا آغاز ہوا ہے اور یہ کام امر یکی تیل کمپنی ExxonMobil انجام دے رہی ہے۔ آج کی تحریر میں ہم اس منصوبے یا پروجیکٹ کا ایک اجمالی خاکہ پیش کرینگے جو شائد احباب کو پسند آئے ۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ بحر عرب میں قسمت آزمائی آزادی کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھی اور پہلا کنواں 1963 میں کھودا گیا۔ اور اب تک ڈیڑھ درجن کے قریب کنویں کھودے جاچکے ہیں۔گہرے پانی میں بھی یہ پہلی کوشش نہیں۔ فرانسیسی کمپنی ٹوٹل کئی سال پہلے اسی بلاک سے متصل ایک کنواں کھود چکی ہے۔

یہ کوئی مافوق الفطرت یا انوکھا کام نہیں ، بلکہ پاکستانی انجنیرز یہ کام برس ہا برس سے کررہے ہیں اور مہارت کے اعتبار سے ہم نہ صرف خود کفیل ہیں بلکہ ساری دنیا میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کھدائی کیلئے حاصل کئے جانیوالے رگ بردار جہاز Sipem 12000 پر پاکستانی ماہرین اس سے پہلے مراکش اور موزنبیق میں کام کرچکے ہیں۔ تیل وگیس کی صنعت میں پاکستان کا شمار دنیا کے انتہائی تجربہ کار ممالک میں ہوتا ہے یا یوں کہئے کہ ساری دنیا تیل و گیس کے میدان میں ہماری سیادت و قیادت کو تسلیم کرتی ہے اور یہ کنواں پاکستانی ماہرین کیلئے معمول کی ایک کی مشق ہے .
دوسری غلط فہمی ExxonMobil ہے۔ اس امریکی کمپنی کا ایسا ہوا کھڑا کیا گیا ہے کہ گویا سارا کام ایگزان کر رہی ہے۔ حالانکہ ایگزان کا رول یا رولا صرف اتنا سا ہے کہ Eni کی قیادت میں کام کرنے والے سہہ رکنی مشارکے (Consortium) میں ایگزان نے 25 فیصد حصص خریدے ہیں۔ بنیادی طور پرمشارکے میں Eni کا حصہ 33.34 فیصد جبکہ پی پی ایل (PPL) اور او جی ڈی سی (OGDC) میں ہرایک کا حصہ 33.33 فیصد تھا۔ 2017 میں ایگزان نے اس منصوبے میں دلچسپی ظاہر کی۔ ایگزون کو اس پروجیکٹ پر راغب کرنے میں جہاں شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیرمملکت برائے پیٹرولیم اور موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا ہاتھ ہے وہاں اصل کارنامہ پی پی ایل اور او جی ڈی سی کے ماہرین کا ہے ، جنھوں نے سخت محنت سے مساحت ارضی اور دوسری آزمائشوں کے اعداد وشمار کو منطقی وخوبصورت انداز میں پیش کرکے اس Prospect کو ایگزان کیلئے پرکشش بنایا۔ 28 مئی 2018 میں ایک معاہدے کے ذریعے ای این آئی نے 8.34 فیصد اور پی پی ایل اور او جی ڈی سی نے اپنے 8.33 فیصد حصص ایگزان کو فروخت کردیئے اور اب یہ مشارکہ چار رکنی ہوگیا جہاں ہر ایک کا حصہ 25 فیصد تھا۔کچھ دن بعد ضابطے کے تحت چاروں کمپنیوں نے اپنے 1.25 فیصد حصص گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹیڈ (GHPL) کے حوالے کردیئے۔ اب ان چاروں کمپنیاں کا اس مشارکے میں 23.75 فیصد ہے جبکہ بر بنائے ضابطہ 5 فیصد حصے کی مالک GHPL ہے۔

کچھ اخبارات سے یہ تاثر ملا کہ کھدائی کے لئے آنیوالا یہ رگ بردار جہاز Exxon کا ہے تو یہ بات بھی درست نہیں۔ یہ رگ اطالوی کمپنی SIPEM کی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک Sipem ای این آئی کا ذیلی ادراہ تھی لیکن اب غالبا Sipem میں ای این آئی کی ملکیت 30 فیصد رہ گئی ہے۔ سفید جلد، نیلے پاسپورٹ اور سبز ڈالر سے مرعوبیت اپنی جگہ لیکن حقیقت میں تجربے کی اعتبار سے ایگزون کا پی پی ایل اور او جی ڈی سی سے کوئی مقابلہ نہیں بلکہ بحر عرب کی ارضیات کے باب میں ایگزان کے لوگ PPL اور او جی ڈی سی کے ماہرین کے آگے طفل مکتب ہیں اور اس بات کا خود ایگزان کو بھی احساس ہے ۔
تیل و گیس کی تلاش و پیداوار ایک قیمتی مشغلہ ہے اور اس صنعت میں زیادہ تر کام نقد ہوتا ہے۔ بحر عرب کے اس منصوبے پر یہ کمپنیاں اربوں کی توقع پرکروڑوں ڈالر خرچ کررہی ہیں۔ ہمیں اصل اعدادوشمار کا تو علم نہیں لیکن قیاس ہے کہ کنویں کی کھدائی کا یومیہ خرچ spread cost) 5) لاکھ ٖڈالر یا 7 کروڑ روپے ہے ۔ یہ تو صرف کھدائی کا خرچ ہے اس سے پہلے تحقیق و جستجو میں کروڑوں ڈالر صرف ہوچکے ہیں۔ اس قدر بھاری خرچ کی بنا پر اپنے تجارتی مفادات کی حفاظت فطری امر ہے۔
ان کمپنیوں کی خواہش ہوگی کہ کامیابی کی صورت میں وہ متصل بلاکس کیلئے درخواست دیکر اپنے حقوق محفوظ کرلیں جبکہ مایوس کن نتائج کی صورت میں ان اثاثوں کی اچھی قیمت پر فروخت ان کا ہدف ہوگا۔ دونوں صورتوں میں رزاداری ضروری ہے اسی بنا پر کنویں کے تجزئے اور نتائج سے متعلق معلومات پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے ، جسےصنعتی اصطلاح میں Tight Hole پروٹوکول کہتے ہیں ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کنویں سے متعلق تمام معلومات ای این آئی کے چند ماہرین تک محدود ہیں ، حتیٰ کہ حصہ داروں سے بھی اسے خفیہ رکھا جا رہا ہے۔
اس وضاحت کا مقصد احباب کو یہ بتانا تھا کہ اخبارات اور سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی خبریں محض قیاس اور تکا ہیں جن پر اعتماد کرلینا مناسب نہیں ہوگا۔اس قسم کے کنووں پر کامیابی کی امید 10 سے سے 12 فیصد ہوتی ہے اور کیکڑا1 کی کامیابی کا امکان بھی 12 فیصد سے زیادہ نہیں۔ ایک اور بات جو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ بسا اوقات آزمائشی کنووں کے نتایح مبہم اور غیر تسلی بخش ہوتے ہیں اور تخمینوں کی تصدیق کیلئے مزید کھدائی درکار ہوتی ہے۔ ایسا کم ہی ہوا کہ پہلے ہی کنویں سے اتنی صاف و شفاف اور حتمی معلومات حاصل ہوگئی کہ ترقی و پیداوار کا منصوبہ بنالیا گیا۔ یہاں دیدہ ور کی ولادت کیلئے بیچاری نرگس کو اپنی بے نوری کا برسوں ماتم کرنا پڑتا ہے۔
کچھ احباب یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ گیس کا ذخیرہ تلاش ہوتے ہی ڈالروں کی بارش شروع ہوجائے گی ، تو صاحبو ایسا نہیں ہے۔ اگر کیکڑا 1 انتہائی کامیاب بھی ثابت ہوا تو پیداوار 2024 سے پہلے ممکن ہے ۔