بدھ, اکتوبر 16, 2024

محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم

یوں تو کائنات کی ہر ذات اپنے محدود ذرائع کے مطابق ارد گرد لوگوں کیلیے آسانیاں بانٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے،چنانچہ یہ عنصر کسی میں کم اور کسی میں زیادہ پایا جاتا ہے،لیکن اگر تاریخ کے اوراق کی چھان بین کی جاۓ تو یہ بات ہر خاص و عام پہ عیاں ہوتی ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات ہر فرد کے حقوق کی ضامن ہیں،اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات نے جہاں حضرت انسان کیلیے آسانیاں مہیا کیں ہیں وہیں جانوروں کو بھی جو آسانیاں اور حقوق فراہم کئیے ہیں آج تک دنیا اور دیگر مذاہب کے علمبردار اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں،کیونکہ اسلام سے قبل انسانی معاشرے میں ایک طرف تو مشرکین مکہ تھے،جو کعبۃ اللہ کی خدمات کو سر انجام دے کر خود کو دیگر عبادات سے سبکدوش گردانتے ہوۓ اس قدر بدترین زبوں حالی کا شکار تھے کہ ان کے معاشرے میں ہر طرف ظلم و جور کی سیاہ گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں،جبر و تشدد،زنا،شراب اور جوا ان بندگان خدا کی طبیعت ثانیہ بن کر ان کی حیات فانی کا جزو لا ینفک بن چکا تھا،شرم و حیا کا تو گویا وجود ہی کالعدم ہوچکا تھا ،سود کے ایسے جال بچھاۓ جا چکے تھے جن سے بچنا مشکل بلکہ نا ممکن تھا (جیسا کہ آیت قرآنی میں اس کا تذکرہ ملتا ہے- سورۃ النساء
آیت نمبر 161

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَّاَخۡذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدۡ نُهُوۡا عَنۡهُ وَاَكۡلِـهِمۡ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ‌ ؕ وَاَعۡتَدۡنَـا لِلۡـكٰفِرِيۡنَ مِنۡهُمۡ عَذَابًا اَ (لِيۡمًا ۞
چھوٹی چھوٹی باتوں مثلا "زمین میں لگے شہد کے چھتے سے شہد چرانے یا پھر گھڑ دوڑ میں مقابل شہسوار کے گھوڑے کو فقط تمانچہ مار دینے پہ تلواریں نیام سے نکال لی جاتی،(چنانچہ اس طرح کے واقعات کا ہمیں تذکرہ دیوان حماسہ اور سبع معلقات نامی شعری مجموعوں میں جابجا ملتا ہے)

مال غیر کو ذاتی مال سمجھا کرتے تھے،انسانوں کو غلام بنا کر ان کے حقوق کو خاک پا بنانا باعث فخر سمجھا جاتا تھا،جنسی خواہشات کی خاطر ماں،بہن،بیٹی کا امتیاز مفقود تھا،بنت حوا کو باعث عار گردانتے ہوۓ اسے ژندہ درگور کرنے سے دریغ نہ کیا جاتا ،بت پرستی کا مرض اس قدر طبیعتوں میں راسخ ہوچکا تھا کہ ہر ایک نے اپنے معبود تراش کر عبادت و حصول خوشنودی کے من چاہے طریقے گھڑ رکھے تھے،تو دوسری طرف یہود و نصاری تھے ،جنہوں نے پیغمبران خدا کی محبت و اتباع کے دعویدار ہونے کے باوجود تورات ،زبور و انجیل میں تحریفات کرکے اہل ثروت و وڈیروں کی مرضی کے فتوے دیتے ہوۓ رب کے نازل کردہ دین و کتب کو کھلونا بنا رکھا تھا ،گویا یوں کہیے کہ "چھٹی صدی عیسوی میں دنیا کے بڑے مذاہب ،قدیم مذہبی صحیفے اور ان کے احکام و قوانین (جنہوں نے مذہب،اخلاق اور علم کے میدان میں مختلف موقعوں پر اپنا مخصوص کردار ادا کیا تھا )بازیچۂ اطفال بن چکے تھے،اور تحریف کے علمبردار منافقوں ،ناخدا ترس و بے ضمیر مذہبی راہنماؤں کی ذاتی اغراض کا نشانہ اور حوادثات زمانہ کا اس طرح شکار ہوچکے تھے کہ ان کی شکل و صورت پہچاننا مشکل بلکہ ناممکن تھا،اگر ان مذاہب کے اولین بانی،علمبردار اور انبیاء کرام دوبارہ واپس آکر اس حالت کو دیکھتے تو ان مذاہب کو خود نہ پہچان سکتے اور ان اک انتساب اپنی طرف کرنے کو ہرگز تیار نہ ہوتے”

یہ تو تھی ان مذاہب کی روداد جو ابراہیم خلیل اللہ اور موسی و عیسی علیہ السلام کی اتباع کے دعویدار تھے ،جبکہ دیگر مذاہب بھی کچھ ایسی ہی برائیوں کا مجموعہ بن چکے تھے ،ایسے میں اللہ رب العزت نے عرصۂ فترت کو ختم کرنے کیلیے 40 سال کی عمر میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصطفی فرما کر آپ علیہ السلام کو معاشرے کے ہر فرد کی ظاہری و باطنی خباثتوں کو پاک کرنے کی ذمہ داری سونپنے کے ساتھ ساتھ محسن جن و انس بنا کر بھیجا (سورۃ آل عمران
آیت نمبر 164

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ  ۚ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞)
جسے سراپا رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے کما حقہ ادا کیا ،چنانچہ معاشرے میں پھیلی خامیوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خامیوں کے سدباب کرنے کی روداد جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نجاشی کے دربار ان الفاظ میں بیان فرمائی”أیھا الملک "ا بادشاہ”

ہم جاہل تھے ،بتوں کو پوجتے تھے،مردار کھاتے تھے ،قسم قسم کی بے حیائیوں میں مبتلا تھے،قرابتوں کو قطع کرتے ،پڑوسیوں سے بدسلوکی کرتے،ہم میں جو زبردست ہوتا وہ چاہتا کہ کمزور کو کھا جاۓ،اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم پہ اپنا فضل فرمایا،ہم میں سے ایک پیغمبر بنا کر بھیجا،جس کے حسب ،نسب، صدق و امانت اور پاکدامنی و عفت کو ہم خوب پہچانتے ہیں،اس نے ہم کو اللہ کی طرف بلایا کہ ہم اس کو ایک مانیں اور ایک جانیں اور ایک سمجھیں،اور اس کی عبادت و بندگی کریں،اور جن بتوں اور پتھروں کی ہم اور ہمارے آباؤ اجداد پرستش کرتے چلے آۓ ہیں ان سب کو یکلخت چھوڑدیں،سچائ ،امانت،صلہ رحمی ،پڑوسیوں سے حسن سلوک،کرنے کا حکم دیا ،خونریزی و حرام باتوں سے بچنے کی تلقین فرمائی ،اور تمام بے حیائیوں سے اور باطل اور ناحق کہنے سے اور یتیم کا مال کھانے سے اور کسی پاکدامن پہ تہمت لگانے سے ہم کو منع کیا ،اور یہ حکم دیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں،نماز پڑھیں اور روزہ رکھیں اور اس کی راہ میں جان مال دینے سے دریغ نہ کریں "

چنانچہ اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ چشم فلک نے شراب کے دلدادہ افراد کو خود مدینہ کی گلیوں میں شراب بہاتے اور مٹکے توڑتے دیکھا ،عورت جسے وہ باعث عار سمجھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراہم کردہ قوانین پہ عمل پیرا ہونے کے بعد وہ گھر کی ملکہ بنی نظر آئی،آزاد و غلام جو ہر وقت ضیاع نفس کے خوف سے دو چار تھے انہیں قصاص کی صورت رائج کرکے مطمئن کیا،غلاموں کو ایسے حقوق فراہم کئیے کہ اسیران بدر ہی کو دیکھ لیجیے جنہیں "فاتحین”نے اعلی و عمدہ کھانا کھلایا اور خود بھوکے رہے،فتح مکہ کے موقع پہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاتم طائی کی بیٹی کے سر پہ دوپٹہ رکھ کر اسے قرۃ العین دکھلاتے نظر آۓ ،والدین کو ایسے حقوق دلواۓ کہ کافر والدین سے بھی برا سلوک کرنے سے منع فرمادیا،جو ایک دوسرے کے جان لیوا دشمن تھے ان کے دلوں کا ایسا تذکیہ فرمایا کہ وہ ہر ایک کو اپنے مال میں شریک ٹھہرالیا، "عابدین بتاں” کو توحید سے ایسے روشناس کرایا کہ وہ خداے واحد کی خاطر صحراؤں میں جبر و تشدد سہتے رہے،” ألا کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیته”
فرماکر حاکم وقت کو رعایا کے حقوق کا پروانہ تھمادیا،انسان تو انسان جانوروں کو بھی تکلیف دینے سے منع فرمایا ،غرض انسانی معاشرے کے ہر فرد کو حقوق دلا کر ایسا احسان فرمادیا کہ جسے سنتے ہی موجودہ دور کے اغیار بھی بادل ناخواستہ تسلیم کرنے پہ مجبور ہیں،لیکن ستم ظریفی یہ ہیکہ اغیار تو فرامین نبوی صلی علیہ وآلہ وسلم کو اپنی زندگی کے شعبوں میں رائج کررہے ہیں لیکن حبداری نبوی کے دعویداران آج ان تمام تر تعلیمات کو ترقی کی راہ حائل رکاوٹ سمجھ کر ان پہ علم پیرا ہونے سے اپنا دامن جھٹکے ہوۓ ہیں….!!!!

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں