پیر, اکتوبر 7, 2024

نبوت کے دسویں سال

نبوت کے دسویں سال ماہِ ذوالقعدہ میں آپ ﷺ واپس مکہ پہنچ گئے، جہاں موسمِ حج کے آغازکے ساتھ ہی ٗ حج کی غرض سے دور دراز کے علاقوں سے آنے والے مختلف قبائل نیز متعدد شخصیات کو آپ ﷺ نے دینِ اسلام کی طرف دعوت دی، جس پر ان کی طرف سے ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا…!!

اسراء و معراج

نبوت کے بارہویں سال ماہِ رجب میں وہ انتہائی عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جو کہ ’’اسراء و معراج‘‘ کے نام سے معروف ہے، اور جو کہ درحقیقت خالقِ کائنات کی طرف سے اپنے حبیب ﷺ کیلئے ایک ایسا اعزاز اور شرف تھا کہ جو تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس و برگزیدہ ترین جماعت میں سے صرف آپ ﷺ ہی کو عطا کیا گیا… کسی اور نبی کے حصے میں یہ سعادت نہ آسکی۔

یہ واقعہ اپنی ابتداء سے انتہاء تک عجیب و غریب اور انتہائی محیر العقول قسم کی باتوں پرمشتمل ہے، جس کا مختصر تذکرہ کچھ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے حکم سے بیت المقدس اور پھر ملأاعلیٰ یعنی آسمانوں کی سیر کرائی گئی، جہاں آپ ﷺ نے بہت کچھ دیکھا، جنت اور وہاں کی نعمتوں کا ٗ نیز جہنم اور وہاں کے عذاب کا مشاہدہ کیا، مختلف آسمانوں پر مختلف انبیائے کرام علیہم السلام سے ملاقات بھی ہوئی، یہ تمامتر مسافت رات کے ایک مختصر سے حصے میں طے کرلی گئی اور آپ ﷺ راتوں رات واپس مکہ مکرمہ بھی پہنچ گئے… بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے…!!

یہ سفر دو حصوں پرمشتمل تھا، پہلا حصہ زمینی سفر، یعنی مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک کا سفر، جس کا تذکرہ سورۃ الاسراء /بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ہے۔ سفر کے اس حصے کو ’’اسراء‘‘ کہا جاتا ہے، یہ سفر ’’بُراق‘‘ نامی جانور پر سوار ہو کر طے کیا گیا، جس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جہاں نگاہ پہنچتی تھی وہاں اس کے قدم پہنچتے تھے۔

اس کے بعد آپ ﷺ کو جبریل امین کی معیت میں بیت المقدس سے آسمانوں تک لے جایا گیا، سفرکے اس حصے کو ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے، اس کاتذکرہ سورۃ النجم کی ابتدائی آیات میں ہے۔

اس موقع پر آپ ﷺ کو تمام آسمانوں سے گذارنے کے بعد آخر ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ تک ٗ اور پھر اس سے بھی آگے لے جا کر قربِ الٰہی اور شرفِ ہمکلامی سے نوازا گیا، اور تب اسی موقع پر نماز کا تحفہ دیا گیا، جس سے نماز کی فضیلت و اہمیت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ باقی تمام عبادات کی فرضیت تو زمین پر ہوئی ٗ جبکہ نمازکی فرضیت معراج کے موقع پرآسمانوں پر ہوئی ، نیز یہ کہ باقی تمام عبادات کی فرضیت بذریعۂ وحی فرشتے کے توسط سے ہوئی، جبکہ نماز کی فرضیت براہِ راست ہوئی۔

اس یادگار سفرِ معراج کے موقع پر آپ ﷺ نے جنت اور جہنم کے مختلف مناظر کا مشاہدہ بھی کیا، مثلاً:

٭… بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جو اپنے بہت موٹے پیٹ کی وجہ سے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرسکتے تھے، ان کی یہ حالت دیکھ کر آپ ﷺ نے جبریل امین سے دریافت فرمایا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل نے جواب دیا کہ یہ ’’سودخور‘‘ ہیں۔
٭… یتیموں کا مال کھانے والوں کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اپنے منہ میں آگ بھر رہے ہیں۔ (۱)
٭… زانیوں کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ پاکیزہ اور تازہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا متعفن اور بدبو دار گوشت کھا رہے ہیں۔
٭… غیبت اور چغلی کرنے والوں کو دیکھا کہ ان کے لمبے لمبے پیتل اور تانبے کے ناخن ہیں ٗ جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو مسلسل بری طرح نوچ رہے ہیں۔

[جاری ہے]

(۱) جیسا کہ قرآن کریم میں ارشادہے: ترجمہ: ’’وہ لوگ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں بیشک وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں، اور عنقریب وہ خود بھی آگ ہی میں جاپہنچیں گے۔‘‘ (النساء:۱۰) یعنی اس آیت کی عملی تفسیر کا رسول اللہ ﷺ کو مشاہدہ کرا دیا گیا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں