گیارھویں خلیفہ راشد کے "ظہور” کے پس منظر میں کسی نے پوچھا
"ہر فتنہ پنجاب سے ہی کیوں اٹھتا ہے ؟”
عرض کیا
"زرخیز زمین پر صرف مفید میوؤں اور فصلوں کی ہی پیداوار زیادہ نہیں ہوتی بلکہ خس و خشاک بھی زیادہ اگتا ہے”
یہ ایک سچائی ہے کہ پنجاب کی صرف آبادی ہی زیادہ نہیں ہے بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا کام بھی زیادہ ہے۔ آپ قاری، خطیب، علماء، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکیل، خطاط، مصور، نعت خواں، گلوکار، اداکار، ڈانسر، شاعر، ادیب، اور دانشوروں سمیت زندگی کے جس شعبے کے نمایاں افراد پر نظر ڈالیں گے آپ کو پنجاب ہی اس میں مسلسل فعال نظر آئے گا۔ آپ صرف گلوکاری کا شعبہ ہی دیکھ لیں تو کلاسیکل موسیقی کے پنجابی تنہاء وارث ہیں۔ سیمی کلاسیکل، غزل اور نغمے کے حوالے سے دیکھیں گے تو ستر اور اسی کی دہائی میں جو گلوکار گا رہے تھے ان کے جانے سے پنجاب میں کوئی خلاء پیدا نہیں ہوا۔ عالم لوہار کی جگہ عارف لوہار لے چکا، نصرت فتح علی خان کی جگہ راحت فتح علی گا رہا ہے، استاد امانت علی خاں کی جگہ شفقت امانت علی سنبھال چکا۔
لیکن اس شعبے میں چھوٹے صوبوں کا حال دیکھیں تو جب سے میں پیدا ہوا ہوں بلوچ گلوکاری کے حوالے سے وہ ایک سفید پگڑی والے حضرت ہیں جو ہر 14 اگست پر نمودار ہوکر "دانا پہ دانا داننا” کرکے چلے جاتے ہیں۔ خدا ہی جانے اس دانے کو وہ اور کتنا چھیلیں گے اور کب اس کی جان چھوڑ کر کچھ اور ایسا گائیں گے جو قومی سطح کی توجہ کھینچ سکے۔ میں پیدا ہوکر باپ ہی نہیں بلکہ دادا بھی بن گیا اور بلوچ گائیکی دانا پہ دانا داننا سے آگے بڑھنے کا نام نہیں لے رہی۔ سندھ میں الن فقیر دنیا سے جا چکا اور شازیہ خشک کی آواز کے چشمے کو خشکی کا سامنا ہے۔ پیچھے ایک عابدہ پروین رہ گئی ہے، اس کے جاتے ہی سندھی گائیکی کی قومی سطح کی نمائندگی ختم ہو کر رہ جائے گی۔ تیسری طرف پختون ہیں تو ان کی ساری گلوکاری غنی خان کے کلام اور سردار علی ٹکر کی گائیکی پر منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔ ہارون باچا اور گلزار عالم نے کچھ زور لگایا مگر قومی سطح پر پہنچنے کے لئے خیرآباد پل یہ تینوں ہی عبور نہ کر پائے۔
بات یہ نہیں ہے کہ چھوٹے صوبوں کے تخلیق کاروں کا راستہ کسی نے روک رکھا ہے۔ اچھا گانا سننے کا ذوق تو ہر کوئی رکھتا ہے۔ عطاء اللہ عیسی خیلوی کی سرائیکی گائیکی جن دو غیر سرائیکی شہروں میں بھی سب سے زیادہ شوق سے سنی جاتی ہے ان میں کراچی اور سرینگر شامل ہیں۔ سمجھ کسی کو نہیں آتی مگر آواز کا جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ عطاء اللہ قمیض تیری کالی پر رکا ؟ نہیں رکا، بلکہ آگے بڑھتا چلا گیا نتیجہ یہ کہ اس کے سپر ہٹس کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ عارف لوہار بھی جگنی پر رکا نہیں بلکہ آگے بڑھتا چلا گیا۔ چھوٹے صوبوں کے تخلیق کاروں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ کوئی شخص ساری زندگی دانا پہ دانا داننا نہیں سن سکتا۔ کچھ اور بھی گاؤ یار ! مازغو ہوں رالہ شنو کڑو !