اردو کی ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کا آبائی تعلق ہندوستان کے مرکزِ علم و ادب لکھنئو سے تھا۔ جہاں وہ 17جنوری 1929ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ان کے والد ڈاکٹر تہور احمد خان برطانوی فوج میں ڈاکٹرتھے۔ ہاجرہ مسرور کی پیدائش کے کچھ برس بعد دل کے دورے سے ان کے والد انتقال کرگئے اور خاندان کی ذمہ داری اْن کی والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔والد کے انتقال کے بعد ان کا گھرانا نامساعد حالات کا شکار ہوا اور انہوں نے سخت حالات میں پرورش پائی۔ہاجرہ کی والدہ کٹھن وقت میں نہایت باہمت خاتون ثابت ہوئیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش نہایت اچھے اندازمیں کی۔ ہاجرہ مسرور کی بہنیں خدیجہ مستور اور اختر جمال بھی اْردو کی معروف ادیب تھیں۔ ان کے ایک بھائی توصیف احمد صحافت سے وابستہ رہے جبکہ ایک اور بھائی خالد احمد کا شمار اپنی نسل کے ممتاز شاعروں میں ہوتا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد ہاجرہ مسروراپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان آگئیں اورلاہورمیں سکونت اختیار کرلی۔ اْس زمانے میں لاہورپاکستان کی ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اورخود ہاجرہ بطورکہانی و افسانہ نگاراپنا عہد شروع کرچکی تھیں۔ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں ابتدا سے ہی بہت پذیرائی حاصل رہی تھی۔ انیس سو اڑتالیس میں انہوں نے معروف ادیب احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ ’’نقوش‘‘ شائع کرنا شروع کیا۔ ہاجرہ مسرورکے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے کم ازکم سات مجموعے شائع ہوئے، ان میںچاند کے دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اْجالے، چوری چھپے، ہائے اللہ، چرکے اوروہ لوگ شامل ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ 1991ء میں لاہور کے ایک ناشر نے ’’میرے سب افسانے‘‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔افسانوں اور مختصر کہانیوں کے علاوہ انہوں نے ڈرامے بھی لکھے تھے۔چند سال قبل آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے بچوں کے لیے لکھی گئی اْن کی کئی کہانیاں کتابی شکل میں شائع کی تھیں۔
ہاجرہ مسرور کو اْن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے ادب کے شعبے میں ان کی نمایاں خدمات پر 14 اگست 1995ء کو انھیں صدارتی تمغہ برائے حْسنِ کارکردگی عطا کیا تھا ۔ 2005ء میں انہیں عالمی فروغِ اْردو ادب ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
ہاجرہ مسرور نے پاکستانی فلمی صنعت کے اچھے دنوں میں کئی فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے۔ ان کے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز ’’نگار ایوارڈ‘‘ بھی دیا گیا۔انہوں نے 1965ء میں بننے والی پاکستانی فلم ’’آخری اسٹیشن‘‘ کی کہانی بھی لکھی تھی۔ یہ فلم معروف شاعر سرور بارہ بنکوی نے بنائی تھی۔
ہاجرہ مسرور کی شادی معروف صحافی احمد علی خان سے ہوئی تھی۔ جو روزنامہ پاکستان ٹائمز اور روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر رہے تھے۔ ہاجرہ مسرور کا انتقال 15 ستمبر 2012 ء کو کراچی میں ہوا اور وہ ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں۔