تحریر : عبداللہ محمد اقبال
ادارہ علوم اسلامی ،اسلام آباد میں پیش آنے والا تنازع اور ہمارا موق
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
اس پیغام کے ذریعے میں ادارے کے جملہ متوسلین، معاونین ، فضلاء کرام، مدرسین، طلبہ کرام اور ان تمام احباب سے مخاطب ہوں جنھیں ملک کے اس عظیم تعلیمی ادارے میں پیش آنے والی صورتِ حال پر تشویش ہے اور وہ بار بار رابطے کرکے فکر مندی کا اظہار بھی کررہے ہیں اور اس متعلق ہماری رائے جاننے کے خواہاں بھی ہیں۔
سب سے پہلے میں اس بات کی وضاحت کردوں کہ ادارے کی انتظامیہ خاص طور پر جناب قاری محبوب الہیٰ صاحب ، مولانا سبقت منصور صاحب اور بندے یہ طے کررکھا ہے کہ ہم کسی فساد کو پھیلانے یا بڑھانے میں حصہ دار نہیں بنیں گے اس لیے ہم کسی قسم کے تشدد، مارکٹائی یا پولیس کے ذریعے ادارے میں فساد پھیلانے والے گروہ کو زبردستی نکالنے کی کوشش نہیں کررہے بلکہ اس معاملے کو بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں لیکن دوسری جانب سے مظلومیت کا تاثر فراہم کرنے کے بعد ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ خاندانی، سیاسی اور بعض مذہبی نوعیت کے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لہذا ضروری ہے کہ چند قانونی نکات کی جانب بھی اشارہ کردیا جائے ۔
(1) ادارے قانونی طورپر ٹرسٹ ہے ، اس کی زمین کسی فرد کے نام پر نہیں ، نہ ہی یہ خاندانی میراث کی حیثیت سے قانونی طورپر کسی کو منتقل کیا جا سکتاہے ۔
(2) ادارہ ایک دستور کے تحت چل رہاہے جس کے مطابق ادارے کے جملہ امور ایک صد ر اور ایک مجلسِ منتظمہ کے سپرد ہیں،دستوری حیثیت سے ادارے کے صدر مؤسس مولانا فیض الرحمان عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کا خاندان اس ادارے کا نہ تو وارث ہے اورنہ ہی اس کی کوئی قانونی حیثیت ہے ۔
(3) ادارے کے جملہ امور میں قانونی طورپر فیصلہ کن حیثیت رکھنے والی انتظامیہ کے تمام افراد حالیہ فساد میں اس بات پر متفق ہیں کہ ادارے کے صدر مؤسس کے اہلِ خانہ ،ان کی اہلیہ اور بیٹوں کی جانب سے غلط اقدام کیا گیاہے جس کی وجہ سے ادارے کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے کا اندیشہ ہے ۔
(4) ادارے کی انتظامیہ جو کہ قانونی طورپر ادارے کے جملہ معاملات کی مجاز ہے اس بات کو درست سمجھتی ہے کہ صدر ِ مؤسس مرحوم نے اپنی اولاد کے لیے ایسی کوئی وصیت نہیں چھوڑی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ادارہ قانونی طورپر ان کے بیٹوں ، دامادوں یا دیگر رشتہ داروں کو بطورِ وارث قبول کرنے کا ذمہ دار بھی ہو گا۔
اس تمہید کے بعد گزارش یہ ہے کہ اس وقت ادارے کے دفاتر پر صدرِ مؤسس مرحوم کی اہلیہ اور ان کے بیٹوں نے خاندانی اجارہ داری کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے قبضہ جما رکھا ہے ، اس قبضے کو پولیس کی وساطت سے چھڑوانا چند منٹوں کا کام ہے لیکن صدرِ موسس کے خاندان کا احترام ہمیں کسی بھی قسم کی قوت آزمائی سے روک رہاہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کے بلا جواز مطالبات کو بھی تسلیم کرلیں گے ۔
ہمارا موقف یہ ہے :
(1) جس فرد نے ادارے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سے شدید انحراف کیا اور ادارے کے قوانین ،ساکھ اور اعتماد کو پامال کیا، ادارے کے اساتذہ کی ایک کمیٹی معاملے کی مکمل چھان بین کے بعد اس پر متفق ہوئی کہ واقعی جرم کا ارتکاب کیا گیاہے ،ہم اسے ادارے میں بطورِ ملازم یا کسی بھی حیثیت سے رکھنے کے روادار نہیں ہیں اور چونکہ موجودہ قضیہ میں اسی مسئلے کو بنیاد بنایا گیا تو ہماراموقف واضح ہے کہ ہم اس مسئلے پر بات نہیں کریں گے کیوں کہ وہ ادارے کا ایک درست فیصلہ تھا جس پر دوبارہ بات چیت کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیے بغیر ہی وہ قدم اٹھا لیا تھا۔
(2) موجودہ فساد میں ادارے کے صدر موسس رحمۃ اللہ کے بیٹے سیف اللہ نے مرکز ی کردار ادا کیاہے ۔کسی بھی جرگے یا مذاکرات میں گفتگو کے آغاز سے قبل سیف اللہ کو یہ بات ثابت کرنا ہوگی کہ ادارے کے دفاتر پر قبضہ کرنےکےلیے اپنی والدہ اور بہنوں کا استعمال کرنے کا اس کے پا س کیا شرعی ، قانونی ،اخلاقی جواز تھا، اس معاملے پر جواز پیش کیے بغیر اگلی بات چیت بے سود ہو گی۔
(3) ہم سمجھتے ہیں کہ اس قسم کا فساد پیدا کرکے ادارے کی ساکھ کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، یہ ادارہ کسی ایک فرد کے نام پر نہیں بنا۔ اس ادارے کا تعلق اس کے سینکڑوں فضلا، اس کے جملہ معاونین، اس کے ہزاروں طلبہ اور ان کے والدین اور اس ادارے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردینے والے اساتذہ اور اس کے موجودہ منتظمین کی زندگیوں، ان کی استناد اور ان کی علمی و عملی کاوشوں کی معنویت سے جڑا ہوا ہے ، یہ کسی خاندان کی ملکیت نہیں ہے ، ادارے میں فساد برپا کرنے والے تمام افراد پہلے اس امر کی وضاحت پیش کریں کہ انھیں ان تمام لوگوں کو تکلیف پہنچانے ، انھیں کرب میں مبتلا کرنے اور ادارے کی ساکھ کو تباہ کرتے ہوئے ان سب لوگوں کا خیال کیوں نہیں رہا جبکہ انھیں بار بار یہ بات سمجھائی گئی کہ آپ غلط راستے کا انتخاب کررہے ہیں ۔
میری تمام محبین ، معاونین اور جملہ کرم فرماؤں سے التماس ہے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا موقف درست ہے تو اس سلسلے میں ہمیں آپ کی تائید درکار ہے تاکہ ہم اس فتنے اور فساد کو اصلاح میں تبدیل کرسکیں اور اگر آپ کے خیا ل میں ہم کسی نکتے پر غلط طرف ہیں تو براہ ِ کرم ہمیں اپنی تجاویز ارسا ل کیجیے تاکہ ہم اس مسئلے کے حل میں یکسو ہوسکیں یہ ادارہ ملی تقاضوں کے لیے قائم کیاگیاتھا، یہ ہمارا ذاتی معاملہ نہیں ہے ، ہمارے لیے بہت آسان ہے کہ ہم اس کی ذمہ داریوں سے خود کو مبرا کرلیں اور اپنے طور پر زندگی کی دیگر مصروفیات میں مشغول ہوجائیں ،آپ سے دعاؤں کی بھی درخواست ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ،ادارہ علومِ اسلامی ، اسلام آباد اور امت مسلمہ کے لیے کام کرنے والے تمام افراد کو اخلاص کی دولت سے نوازے اور جملہ شرور و فتن سے محفوظ فرمائے ۔ آمین۔