جمعہ, نومبر 22, 2024

جامعہ کراچی : سنڈیکیٹ اجلاس اور سلیکشن بورڈز کی صورت حال

تحریر : ڈاکٹر ریاض احمد 
رکن سنڈیکیٹ، کراچی یونیورسٹی

ہر سنڈیکیٹ رکن اور خاص کر منتخب رکن کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سلیکشن بورڈ روداد کی منظوری سے پہلے میرٹ اور انصاف کے تقاضے پورے کرے. ترقی ہر ساتھی استاد کا حق ہے اور کیونکہ اقرباء پروری اور اثر رسوخ نے میرٹ کا جنازہ نکالا ہوا تھا اسی لیے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح پاکستان میں 1972 یونیورسٹی ایکٹ میں اساتذہ کو سنڈیکیٹ میں نمائندگی دی گئی تا کہ وہ سلیکشن بورڈ و یونیورسٹی کے انتظامی معاملات کی نگران یعنی سنڈیکیٹ میں وائس چانسلر کی سرپرستی میں انتطامی، علمی، تقرری اور مالیاتی فیصلوں کی جانچ پڑتال کر کے من مانیوں اور قوانیں کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کریں ۔

یہی ہر منتخب ادارے کا کام ہے اور ووٹ کا تقدس اسی جانچ اور نشاندہی سے بنتا اور بگڑتا ہے. ہم انتخابات میں ووٹ اس لیے نہیں لیتے کے اپنی یا اپنے قریبی یا انتظامی عہدوں پر فائز افراد کو فیور دیں بلکہ ہماری اپنی کارکردگی لوگ یوں جانچتے ہیں کہ ہمارا کردار ان اسٹیٹوری اداروں میں انصاف کے زریعہ اقرباء پروری اور قانون پر عملدرآمد کروا کر بدانتظامی کا سدباب کریں. سنڈیکیٹ کا نمائندہ کٹس کے نمائندے کی طرح ٹریڈ یونین رہنما نہیں ہوتا بلکہ اس کا کردار قانونی فریضہ یعنی انتظامیہ کا سپرویژن ہے ۔

اب آتے ہیں یہ سپرویژن کیسے ممکن ہے. مثلا قریب 42 اساتذہ نے اب تک 2019 کے اشتہار پر اعتراض ہمیں اور سنڈیکیٹ کو خطوط لکھ کر کیا ہے. اکثر نے سی ویز اور پرچوں کا موازنہ کر کے بتایا ہے کہ وہ کیسے اہل ہیں اور بعض جگہ جن کا ہوا کیسے ان سے بھی اہل ہیں. ہر شعبہ میں تعیناتی پر اعتراض بھی نہیں ہوتا. جیسے 5 اپریل کی سنڈیکیٹ میں ہیلوفائٹ میں پروفیسر اور ایسوسی ایٹ کے لیے دو دو امیدوار تھے، چاروں انٹرنل تھے چاروں کا تقرر ہوا. ایسے ہی سیاسیات میں ایک پروفیسر کے امیدوار کا ہی تقرر ہوا. لیکن اس سنڈیکیٹ میں پیش 7 شعبوں میں سے 4 پر اعتراض ان امیدواروں نے کیا جو ان سروس بھی تھے اور جن کے مطابق ان کے ساتھ زیادتی ہوئی. ماس کوم، مائیکرو اور فزکس میں تمام انٹرنل امیدوار صرف پوسٹوں کی کمی کی وجہ سے ترقی نہ پا سکے. اکثریت 2015 سے کوالیفائی کرتی ہے یعنی 9 سال بعد محروم کر دیے گئے ۔

دو شعبوں فوڈ سائنس اور کیمسٹری (انالیٹیکل) میں پروفیسر اور ایسوسی ایٹ کے لیے ایک ایک ریفری کی رپورٹوں کو ہی سلیکشن بورڈ نے خاطر میں ہی نہ لایا اور یوں کئی امیدوار صرف دو ریفری رپورٹس کی بنیاد پر، چاہے ان میں سے ایک یا دو بھی مثبت ہی کیوں نہ تھیں، محروم کر دیے گئے. جن کا ہوا ان کا بھی دو رپورٹوں پر ہوا. یوں جن کا نہ ہوا انہیں انصاف کا تقاضہ اور طریقہ کے مطابق تین میں سے دو رپورٹوں کو سلیکشن بورڈ کے زیر نظر لانے کا موقع ہی نہ دیا گیا. یہ سراسر ناانصافی تھی اور ہم نے اس پر شدید اعتراض اٹھائے جن کا نہ وی سی نہ سلیکشن بورڈ میں سنڈیکیٹ سے تین اراکین کے پاس کوئی جواب تھا ۔

ماس کوم اور مائیکرو میں تینوں مثبت رپورٹوں والے انٹرنل امیدواروں میں سے کئی ایک کو صرف پوسٹ نہ ہونے کے نام پر ترقی کی سفارش نہ ہوئی. ہم کہتے رہے کہ یونیورسٹی میں 996 پوسٹوں میں سے 700 اساتذہ اس وقت تعینات ہیں اور یوں 290 اسامیاں خالی ہیں اور انٹرنل امیدوار کی تو پہلے ہی آسامی موجود ہے پھر انہیں تعینات کر دیا جائے. مگر افسوس ہماری ایک نہ سنی گئی ۔

شعبہ فزکس میں ایک انٹرنل امیدوار کے ساتھ ایسا ہی ہوا جبکہ ایک ایکسٹرنل امیدوار جو 1998-2003 تک فزکس میں کوآپریٹو رہے تھے اور جن کے فزیکل ریویو جیسے مایہ ناز جریدے (جس میں آئنسٹان کے پرچے چھپے تھے) میں 8 پرچے اور 115 امپیکٹ فیکٹر ہے ان کے بارے میں ہوشرباء انکشاف کیا گیا کہ انکی رپورٹیں نیگیٹو ہیں. انصاف کا تقاضہ یہی تھا کہ اس ناانصافی اور مبینہ دھاندلی کی نشاندہی کر کے سنڈیکیٹ کو آگاہ کیا جاتا اور یہی کیا. ہمارے نکتہ اعتراض اس جانب مزید تفصیل سے بعد ازاں سنڈیکیٹ منٹس کے لیے روانہ بھی کیے جائیں گے ۔

اعتراض کرنا، اقرباء پروری کی نشاندہی میرٹ کو پامال کرنے کی نشاندہی کے زریعہ کرنا، وائس چانسلر کی من مانیوں کی نشاندہی کرنا دراصل سنڈیکیٹ کا قانونی فریضہ ہے. سنڈیکیٹ کوئی بادشاہ سلامت کا دربار نہیں، سلیکشن بورڈ کوئی فرشتوں کی آماجگاہ نہیں جنہیں خداوند تعلّی نے غلطیوں سے ہی مبرا کر رکھا ہے ۔

تکنیکی امور سے اکثر نان اکیڈمک اراکین سلیکشن بورڈ کو کافی عرصہ بعد واقفیت ہو پاتی ہے. وہ تو یہ بھی دیر میں سمجھ پاتے ہیں کہ ریفری رپورٹ میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ فزکس کا ریفری روس میں کسی ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ میں تو تعینات نہیں تا کہ نشاندہی کریں کہ ریفری ہی غلط ہے. انہیں یہ بھی دیر سے سمجھ اتا ہے کہ ای میل پر منگائی ریفری رپورٹ کے ساتھ ہارڈ کاپی بند لفافے کی رپورٹ کو ہی سلیکشن بورڈ میں سب کے سامنے ان سیل کرنے کا کام وی سی کا ہے. کیونکہ یہ امور اور ان میں اقرباء پروری یا کوتاہی کے اسباب سے منتخب نمائندے بخوبی واقف ہوتے ہیں اس لیے یہ ہمارا کام بطور رکن سنڈیکیٹ ہے کہ سلیکشن میں مسائل کی نشاندہی کر کے ریفر بیک یعنی سنڈیکیٹ سے سلیکشن بورڈ کو واپس بھیجا جائے۔

جو منتخب نمائندے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سی بادشاہ ہے تنقید اور کوتاہی یا اقرباء پروری کی نشاندہی سے ناراض ہو جائے گا تو وہ دراصل نمائندگی کے پہلووں سے واقف نہیں. آج بھی اور کل بھی طاقت کے آگے سچائی کو آشکار کرنا نمائندے کا کام ہے اور یہی جاری رہے گا ۔

عظمت خان
عظمت خانhttps://www.azmatnama.com/
عظمت خان ، کراچی بیسڈ صحافی ہیں ، 2 کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ میں ایم فل کے طالب علم ہیں ۔ گزشتہ 12 برس سے رپورٹنگ کر رہے ہیں ۔ ان کی رپورٹنگ فیلڈ میں تعلیم و صحت ، لیبر ، انسانی حقوق ، اسلامی جماعتوں سمیت RTI سے معلومات تک رسائی جیسی اہم ذمہ داریاں شامل ہیں ۔ 10 برس تک روزنامہ امت میں رپورٹنگ کرنے کے بعد اب ڈیجیٹیل سے جرنلزم کر رہے ہیں
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں