پاکستان میں کتاب پڑھنے کا کلچر ہمیشہ سے مختلف رنگ رکھتا ہے۔ اگر آپ کتاب میلوں میں جائیں، خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہر میں، تو سب سے زیادہ رش مذہبی کتابوں کے اسٹالز پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ لوگ مذہبی کتابیں بڑی تعداد میں خرید رہے ہوتے ہیں، لیکن عمومی موضوعات، تاریخ، فلسفہ، سائنسی کتب اور انگریزی زبان کی کتابوں پر نہ ہونے کے برابر توجہ دی جاتی ہے۔ یہ رجحان صرف کتاب میلوں تک محدود نہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر کتابوں سے متعلق گروپس میں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ مذہبی کتابوں پر بات تو ہوتی ہے، لیکن جیسے ہی ترقی پسند یا متبادل خیالات پر بات چھیڑی جائے، گفتگو ختم ہوجاتی ہے۔
اب اگر پنجاب کی بات کی جائے تع پنجاب میں ہمیشہ سے قارئین کی تعداد زیادہ رہی ہے، خاص طور پر لاہور کو کتابوں کے شوقین افراد کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کا مطالعہ زیادہ تر روایتی اور عمومی موضوعات تک محدود رہتا ہے۔ ترقی پسند خیالات، فلسفہ یا مختلف نظریات پر مبنی کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد اب بھی کم ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہاں کے کچھ نوجوان اس سمت میں بڑھ رہے ہیں، اور آہستہ آہستہ سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے، لیکن یہ سفر ابھی طویل ہے۔
بلوچستان ایک امید کی کرن اور بدلتی سوچ
اس کے برعکس بلوچستان کے نوجوان ایک منفرد اور خوشگوار مثال پیش کر رہے ہیں۔ وہاں کے نوجوان ترقی پسند خیالات، تاریخ، فلسفے، سیاسی نظریات اور دنیا کو سمجھنے والے مختلف زاویوں پر کتابیں پڑھ رہے ہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے، ان کے سوالات گہرے ہیں، اور سب سے بڑھ کر وہ ایک کھلی سوچ کے ساتھ دنیا کو دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہاں قوم پرستی کا رجحان موجود ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ کتابوں کے ذریعے اپنی سوچ کو مسلسل پروان چڑھا رہے ہیں۔ یہ رجحان ہمارے باقی معاشروں کے لیے ایک سبق ہے کہ کس طرح کتابیں ذہنوں کو وسیع کر سکتی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں ہوتی ایک چھوٹی مگر مثبت تبدیلی
خیبر پختونخوا میں بھی آہستہ آہستہ تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ وہاں کے کچھ نوجوان اب کتابوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور مختلف موضوعات پر مطالعہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت قدم ہے جو آنے والے وقت میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
سندھ اور کراچی: مایوس کن صورتحال
سندھ، خاص طور پر کراچی، جو ملک کا سب سے بڑا اور متنوع شہر ہے، وہاں صورت حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ کراچی جیسے تعلیمی اور تجارتی مرکز میں بھی کتاب پڑھنے کا رجحان محدود ہوچکا ہے۔ یہاں ترقی پسند خیالات، تنقیدی سوچ، فلسفہ یا مختلف نظریات پر کتابیں پڑھنے والے کم نظر آتے ہیں۔ نوجوانوں میں عمومی مطالعے کی کمی کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات کو کھوجنے کی جستجو بھی نہیں ہے۔ کراچی کو باقی شہروں کے لیے مثال بننا چاہیے تھا، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں سوچ کے دروازے تنگ پڑ چکے ہیں۔
ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مذہبی کتابیں ہمارے ایمان اور روحانیت کو مضبوط کرتی ہیں، اور ان کی اپنی جگہ اور اہمیت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی سوچ کو صرف ایک ہی زاویے تک محدود رکھ کر ترقی کر سکتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم تاریخ، فلسفے، سائنس، ادب اور مختلف نظریات کو نظر انداز کر کے باشعور معاشرہ تشکیل دے سکیں؟
کتابیں دنیا کو سمجھنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ ہمیں سکھاتی ہیں کہ اختلافِ رائے کو قبول کیسے کرنا ہے، سوال کیسے اٹھانا ہے، اور مختلف زاویوں سے دنیا کو کیسے دیکھنا ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے وہی ہوتے ہیں جہاں ہر طرح کی سوچ کو جگہ دی جاتی ہے، جہاں سوال کرنا جرم نہیں بلکہ علم کے دروازے کھولنے کا پہلا قدم سمجھا جاتا ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے نوجوان جو اس سمت میں قدم بڑھا رہے ہیں، وہ ہمارے لیے روشنی کی کرن ہیں۔ ہمیں ان کی تقلید کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں کتابوں کا کلچر فروغ دینا ہوگا۔ ہمیں اپنے مطالعے کے دائرے کو وسیع کرنا ہوگا، تاکہ ہم ایک ایسے باشعور معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں جو صرف ایک زاویے پر نہیں بلکہ ہر زاویے سے علم کو قبول کرے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے علم اور سوچ کے راستے کو کھولیں، نئی کتابوں کو پڑھیں، اور ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں۔ کتابیں صرف مذہب تک محدود نہیں، بلکہ یہ زندگی کے ہر پہلو کو سمجھنے کا ذریعہ ہیں۔ اگر ہم واقعی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں علم کے ہر دروازے کو کھولنا ہوگا۔
نوٹ:یہ سب میری ذاتی رائے ہے جو میرے محدود علم اور مشاہدے کی بنیاد پر مبنی ہے. آپ اس سے اختلاف کرسکتے ہیں اور
میں غلط بھی ہوسکتا ہوں.
نوٹ: الرٹ نیوز نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔