اس وقت سوشل میڈیاپرسعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والے ایک فیشن شوکے چرچے ہیں سعودی حکومت اس فیشن شوکے کامیاب انعقادپرخوشی کے شادیانے بجارہی ہے جبکہ مغرب حیران وپریشان ہے کہ
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی!
جبکہ مسلمان انگشت بدنداں ہیں کہ سرزمین وحی کے حکمران کس طرف چل پڑے ہیں مگرہمارے ملک میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ جواس ننگے ناچ کی حمایت کرتے نظرآتے ہیں ۔اورسوشل میڈیاپردھڑادھڑمحمدبن سلمان کی حمایت میںپوسٹیں کررہے ہیں ان کے لیے یہی کہاجاسکتاہے کہ
کوئی دین نا ایمان کون لوگ ہو تم
کبھی کسی کی طرف ہو کبھی کسی کی طرف
سعودی حکومت ایک طرف فحاشی پرمبنی الات اورپروگرامات کوآسان اورسستاکررہی ہے جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کے لیے حج وعمرہ جیسی عبادت کودن بدن مشکل بنارہی ہے جوعمرہ چندسال پہلے ساٹھ سترہزارپاکستانی روپوں میں ہوتاتھا اب وہ تین لاکھ سے اوپرچلاگیاہے جبکہ حج توعام آدمی کے لیے نہایت مشکل بنادیاگیاہے پھرحرمین شریفین میں ایسی پابندیاں عائدکررہی ہے کہ عام مسلمان کے لیے وہاں عبادت مشکل بنادی ہے ۔ پوری دنیا کی فلمی صنعت زبوں حالی کا شکار ہے مگر سرزمین ِ وحی اور حجاز مقدس میں اسے دن بدن عروج حاصل ہورہاہے ۔اس کامیابی پرہمیں محمدبن سلمان کوخراج تحسین پیش کرناچاہیے جو اتنی محنت اورجدوجہدسے سعودی عرب کانظریاتی تشخص ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقد ہونے والے اس فیشن شو میں عالمی شہرت یافتہ گلوکاروں نے شرکت کی اس کے علاوہ جہاں لبنانی ڈیزائنر کے تخلیق کردہ 300 سے زائد دیدہ زیب ملبوسات پیش کیے گئے۔اختتامی تقریب میں ماڈلز نے ریمپ پر اپنے منفرد انداز میں واک کی اوراسلامی تعلیمات کاخوب مذاق اڑایا، سوشل میڈیا پر اس گرینڈ فیشن شو کی ویڈیوز وائرل ہیںاورایسی ویڈیوزوتصاویرہیں کہ الامان والحفیظ ۔سعودی حکمرانوں نے توتمام حدودپھلانگ دی ہیں ،یہ فیشن شوکم اورفحاشی شوزیادہ تھا ۔
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ریڈ سی فیشن ویک سعودی عرب کے وژن 2030 کا حصہ ہے۔سبق ویب سائٹ کے مطابق ریاض سیزن کے تحت منعقد ہونے والے عالمی فیشن شو کا عنوان 1001Seasons رکھا گیا تھا۔واضح رہے کہ فیشن شو کو ایم بی سی میں براہ راست دکھایا گیا جبکہ سوشل میڈیا اکانٹ پر بھی لاکھوں افراد نے دیکھا ہے۔سعودی عرب نے فحاشی پھیلانے کے لیے باقاعدہ اتھارٹی بنارکھی ہے جس کانام انٹرٹینمنٹ اتھارٹی رکھا گیاہے اوراس کے سربراہ ترکی آل الشیخ ہیں۔ یہ اتھارٹی بڑے فخرسے بتارہی ہے کہ ریاض سیزن میں وزٹروں کی تعداد 60 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جو کہ سیزن کی جانب سے پیش کی جانے والی مختلف سرگرمیوں کی زبردست مانگ کی عکاسی کرتی ہے۔ اتھارٹی کاکہناہے کہ ریاض سیزن مقامی اور بین الاقوامی سیاح کی توجہ حاصل کرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہوگیا ہے۔
اس سے قبل اس سال سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار سوئمنگ سوٹ فیشن شو منعقد کیا گیا، جس میں خواتین ماڈلز نے نیم عریاں ملبوسات زیب تن کرکے کیٹ واک کی تھی ۔دوسری جانب محمدبن سلمان کی روشن خیالی اورتبدیلی نے 2022 میں سعودی عرب کی فیشن انڈسٹری نے 12 اعشاریہ 5 بلین ڈالرز کا ریوینیو کیا تھا، یعنی ملک کی جی ڈی پی میں 1 اعشاریہ 4 فیصد حصہ ڈالا تھا۔ جبکہ اس انڈسٹری میں 2 لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد جڑے ہوئے ہیں سعودی حکومت کی کوشش ہے کہ پورے ملک کوکنجرخانے میں تبدیل کردیاجائے ۔
ریاض فحاشی شو میں اس وقت ایک تنازع سوشل میڈیاپرچل رہاہے جس میں مختلف حلقوں کی جانب سے دعوی کیا گیافحاشی شومیں خانہ کعبہ کے ماڈل کے سامنے ننگاڈانس کیاگیا اوروہاں موجود شیشے کی مکعب نما سکرینزکی خانہ کعبہ سے مماثلت تھی۔ اس پر عرب میڈیا سمیت پوری دنیا میں ہی سوشل میڈیا پر کافی ردعمل دیکھا گیا ہے۔سعودی میڈیا کی سرکاری نشریات کے دوران یہ الزام عائد کیا گیا کہ ریاض سیزن پر تنقید کے پیچھے اخوان المسلمین جیسے سخت گیر گروہ ہیں جو سعودی عرب اور اس کے اصلاحات کے منصوبے کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔سعودی عرب کی اینٹی ریومر اتھارٹی نے اس بات کی واضح تردید کی ہے کہ شو کے دوران خانہ کعبہ کی تصویر استعمال کی گئی۔اتھارٹی کا کہنا تھا کہ یہ صرف شیشے کی کیوب کی شکل کا ڈھانچہ تھا، جس کا خانہ کعبہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
سعودی حکومت ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ایسی ویڈیوزبنواتی اورپھیلاتی ہے کہ عام مسلمان کے دل سے مقدس مقامات کااحترام ختم کیاجائے تاکہ انہیں کھل کھیلنے کاموقع مل سکے ۔ اس کی کئی مثالیں موجودہیں ۔اب سعودی حکومت اس متنازع اقدام کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ اس نے جوفحاشی وعریانی پرمبنی جوبے ہودگی پھیلائی وہ پس منظرمیں چلی جائے اورخانہ کعبہ کی اس ویڈیوکے ذریعے مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کی جاسکے اوراصل معاملے کوپس پشت ڈالاجاسکے ۔یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہورہاہے جو اسلامی تاریخ اور مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے معروف ہے۔اورایسے وقت میں ہورہاہے جب غزہ میں فلسطینیوں کاقتل عام جاری ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کہاں ہیں وہ اہلِ توحید جوبات بات پر کفر و شرک کے فتوے لگاتے تھے؟ کہاں ہیں وہ منہجِ سلف کے پیروکار جو اصلاح کا دعوی کرتے نہیں تھکتے تھے؟ خادم الحرمین الشریفین کی سرپرستی میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ مسلمانوں کی مقدس سرزمین پر اگر یہ برائیاں عام ہوں گی توباقی مسلم ممالک کاکیاحال ہوگا ۔ ایسے میں لازم ہے کہ شون الدعو ہ والارشاد اپنے دائرہ کار کو حج و عمرہ تک محدود رکھنے کے بجائے حکمرانوں اور صاحبِ اقتدار افراد کو بھی دعوت و نصیحت کرے، مگران میں ایسی جرات رندانہ کہاں ؟وہاں توحق بات کہنے پرامام حرم کوگرفتارکرلیاجاتاہے ۔
ریاض کے میلے میں جو کچھ ہو ا جیسے فحاشی، عریانی اور تفریح کے نام پر کعبہ کی شکل کا مجسمہ تیار کرنا، اس کے گرد بے حیا خواتین کا طواف کرنا، اور وہ تلواریں جو کبھی دین کے دفاع کے لیے بلند کی جاتی تھیں، انہیں رقاصائوں کی کمر پر سجانا، یہ سب وہ شیطانی عمل ہے جونائن الیون کے بعدامریکہ اورعالمی استعماری طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں کی تہذیب وثقافت ختم کرنے کے لیے شروع کیاگیا تھا ۔
مغربی ممالک میں بھی فحاشی کرنے والے ایسی حرکات کی جرات نہیں کرتے، جیسی جرات حرم کے نام نہادپاسبانوں کی ہے یہ میلے ،یہ فحاشی کے شوکوئی اتفاقیہ سرگرمیاں نہیں، بلکہ مسلم نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور ان کے اخلاق و کردار کو بگاڑنے کی منظم سازش ہیں۔ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ معیشت کی ترقی اور سیاحت کے فروغ کے لیے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال ہیں۔ کیونکہ اللہ کے فضل کو اس کی نافرمانی کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔وہ علما جو سعودی بادشاہوں کی حمایت کے نام پر فتنہ پھیلا رہے ہیں اور حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے حق کو چھپارہے ہیں۔وہ اس فساد کو فروغ دینے میں شریک ہیں۔
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
سعودی عرب دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے مقدس ترین سرزمین کی حیثیت رکھتی ہے۔ سعودی عرب سے ہمارااسلامی ،روحانی اورنظریاتی رشتہ ہے خصوصا حجاز مقدس کے خطے میں بیت اللہ اور مسجدِ نبوی واقع ہے۔ اس کے علاوہ بھی تاریخ اسلام سے جڑے سینکڑوں مقدس مقامات بھی ہیںکیایہ حرکات اوراقدامات اس مقدس سرزمین اورمقدس مقامات کی توہین نہیں ؟
سعودی بادشاہ سعودی ویژن 2030 کے مطابق 2030 تک سعودی عرب کو روشن خیالی کے تقاضوں سے لیس کررہے ہیںجس کے لیے غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے کلب، شراب خانے، موسیقی، تھیٹر، سینما، وغیرہ جیسی تمام سہولیات کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا معیشت کے لیے اخلاقیات کو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے؟ کیا اکانومی کی خاطر اپنی روایات سے بغاوت کی جا سکتی ہے؟
اس سے پہلے عرب ممالک میں پہلے بلند عمارتیں بنانے پر مقابلہ ہوا اس حوالے سے انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، وہاں ایسی بلند ترین عمارتیں دیکھنے کو ملتی ہیں جنہیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے، اب فحاشی میں بھی عرب ممالک ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ اوریہاں بھی محمدبن سلمان نے مغرب ویورپ کوپیچھے چھوڑدیاہے ۔اسی لیے کہاجاسکتاہے کہ خادم الحرمین الشریفین اب خادم فحاشی وعریانی بن چکے ہیں ۔