بدھ, اکتوبر 16, 2024

مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ، تاریخی کردار اور خدمات

مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کا وجود ملت اسلامیہ کے لیے ایک عظیم عطیہ تھا۔ آپ کو اللہ نے بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا جنہیں آپ نے ہمیشہ خدمتِ اسلام کے لیے وقف کیا۔ آپ کی تمام تر زندگی دینی خدمات اور اسلامی عقائد کے دفاع میں گزری، جن میں سب سے نمایاں کردار 1953ء اور 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ کا قائدانہ کردار ہے۔

1953ء کی تحریک ختم نبوت

مولانا مفتی محمودؒ نے 1953ء میں تحریک ختم نبوت کے دوران ملتان سے گرفتار ہو کر عظیم قربانی دی۔ یہ تحریک قادیانیوں کے خلاف تھی، جو ختم نبوت کے عقیدے پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ مفتی محمودؒ نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور گرفتاری کے باوجود اپنے عزم میں کمی نہ آنے دی۔

1974ء کی تحریک ختم نبوت: اسمبلی میں قائدانہ کردار

1974ء میں ایک اور تحریک ختم نبوت کے دوران مولانا مفتی محمود نے قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے خلاف ایک تاریخی اور اہم کردار ادا کیا۔ اس تحریک کا مقصد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانا تھا۔ اس وقت قومی اسمبلی کے اندر مفتی محمودؒ نے علمی دلائل اور جرح سے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد پر ایسے سوالات کیے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اسمبلی کے باہر تحریک کی قیادت جلیل القدر علماء اور شیخ الاسلام مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کر رہے تھے۔

"ملت اسلامیہ کا موقف” اور محضر نامہ

اس اہم موقع پر مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے مرزا ناصر قادیانی اور صدرالدین لاہوری مرزائیوں کے جوابات میں ایک محضر نامہ تیار کیا گیا، جسے "ملت اسلامیہ کا موقف” کہا گیا۔ اس محضر نامے کو اردو، عربی، اور انگریزی میں شائع کیا گیا، اور اسے اسمبلی میں پڑھنے کا شرف مولانا مفتی محمودؒ کو حاصل ہوا۔ آپ نے اسمبلی میں ملت اسلامیہ کی متفقہ آواز بن کر قادیانیوں کے خلاف دلائل دیے اور پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کی۔

قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی جدوجہد

7 ستمبر 1974ء وہ تاریخی دن تھا جب قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ مولانا مفتی محمودؒ کا اس کامیابی میں کلیدی کردار تھا۔ آپ نے آئین کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کے اضافے کے لیے بھرپور جدوجہد کی، جس میں واضح کیا گیا کہ جو شخص حضرت محمد ﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتا اور کسی اور کو نبی تسلیم کرتا ہے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔

اس کامیابی کے بعد دفعہ 106 میں بھی ترمیم کی گئی، جس کے تحت قادیانیوں کو دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی صف میں شامل کیا گیا، جیسے عیسائی، ہندو، سکھ، اور بدھ مت۔ اس ترمیم میں قادیانیوں کو "قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں” کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

مفتی محمودؒ کی جرات مندانہ جرح

اسمبلی میں وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کے ساتھ بحث کے دوران مفتی محمودؒ نے قادیانیوں کے معاملے پر انتہائی جرات مندانہ موقف اختیار کیا۔ پیرزادہ نے قادیانیوں کا نام آئینی دستاویز میں شامل کرنے سے گریز کیا، لیکن مفتی صاحب نے بھرپور دلائل سے اس کی مخالفت کی۔ جب پیرزادہ نے مرزا قادیانی کا نام دستور میں شامل کرنے پر اعتراض کیا تو مفتی محمودؒ نے جواب دیا کہ "شیطان، ابلیس، اور خنزیر کے نام قرآن مجید میں موجود ہیں، اس سے قرآن کی صداقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔” یہ دلائل پیرزادہ کو لاجواب کر گئے، اور بالآخر قادیانیوں کو آئین میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا۔

7 ستمبر 1974ء: ایک یادگار دن

7 ستمبر 1974ء کو مولانا مفتی محمودؒ اور دیگر علماء کی انتھک محنت اور قربانیوں کے نتیجے میں قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دیا گیا۔ یہ دن ملت اسلامیہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، کیونکہ اس دن آئین میں ایسی ترامیم کی گئیں جو عقیدہ ختم نبوت کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اس فیصلے نے 1953ء اور 1974ء کے شہیدان ختم نبوت کے خون کو رنگ لایا۔

مولانا مفتی محمودؒ کا ورثہ

مولانا مفتی محمودؒ کا کردار صرف ختم نبوت کی تحریک تک محدود نہیں تھا، بلکہ آپ کی زندگی کا ہر پہلو ملت اسلامیہ کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ کی دینی خدمات، علمی جرات، اور قائدانہ صلاحیتیں آج بھی عالم اسلام کے لیے مشعل راہ ہیں۔

مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کا یہ تاریخی کردار ہمیشہ یاد رہے گا، اور ان کی جرات و بصیرت کی روشنی میں آئندہ نسلیں بھی اپنے عقائد کی حفاظت کے لیے کھڑی ہوں گی۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں