بدھ, اکتوبر 16, 2024

دین میں داڑھی ھے داڑھی میں دین نہیں

لوگوں سے ایک جملہ سننے کو ملتا ھے کہ:

دین میں تو داڑھی ھے مگر داڑھی میں دین نہیں

یہ ایک غلط سوچ ھے

اَصل:-

ایک بات ذہن نشین کر لیجئے کہ اسلام دشمن لوگ ایسی ایسی چالیں چلتے ہیں جو کہ ایک عام فہم مسلمان کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں اور وہ اس سازش کا شکار ہو جاتے ہیں۔

علم یہ نہیں ہوتا کہ آپ انجینئر بن جائیں یا ڈاکٹر، بلکہ علم وہ ھے جس میں بصیرت ہو اور گہری فکر و سوچ ہو، جس سے انسان کا ذہن "گھڑے کا مینڈک” نا بنے بلکہ وسیع العقل ہو جائے۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ آپ ایک عالمِ دین بن جائیں اور دشمنانان اسلام کی ہر سازش کو جان جائیں مگر دین کا علم انسان کی سوچ کو وسیع ضرور کرتا ھے اس کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ھے کہ آخر مقصد کیا ھے ہمارا اس دنیا میں، ہم کہاں جا رہے ہیں اور ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ھے۔ پھر وہی باتیں جو عام مسلمانوں کی یا فقط عصری تعلیم یافتہ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں جو ایک دین دار یعنی مومن بننے کے متلاشی کو سمجھ آ جاتی ہیں۔

یہ دین میں داڑھی والی بات بھی ویسی ہی ھے، ایک فلم سے اس جملہ کی شروعات ہوئی اور پھر ہمارے ماڈرن طبقے نے اس جملہ کو کسی اور نظریہ سے پھیلانا اور بولنا شروع کیا جس کا مقصد تھا کہ:

داڑھی رکھنا نا فرض ھے نا واجب نا قرآن میں ھے تو ہم کیوں رکھیں اور جو رکھتے ہیں و شدت پسند "مولوی و ملا” ہیں۔ اس فلم میں موسیقی کی حرمت کو ختم کر دیا اور اپنی عصری سوچ کی کسوٹی پر پَرکھ کر دلیل دیتے ہوئے موسیقی کو حلال قرار دے دیا۔
واضح رہے بتانے والے بھی بیوقوف نہیں وہ ایسے مٹھاس اور گھما پھرا کر بات کو بتلاتے ہیں کہ لوگ غلط بات کو بھی درست مان لیتے ہیں اور آخر کیا ہوا کہ عالم (طنز و حقارت میں جسے پاکستان میں ملا و مولوی کہتے ہیں) کو اس شکل میں پیش کیا کہ اس نے تمام سختیاں خود ساختہ ڈالی ہوئی ہیں اور دین کی غلط تصویر لوگوں کے سامنے رکھی ھے۔

• ایک بات

یہ بات غلط نہیں کہ غلط لوگ بھی معاشرے میں موجود ہیں جو دین کا ظاہری لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو دین کی غلط تشریح کر کے بتلاتے ہیں، مگر یہ آپ کا فرض ھے کہ غلط کو چھوڑ کر صحیح کے پاس جائیں۔ یاد رکھیں دین میں سختیاں ضرور ہیں اور وہ الله ﷻ کی طرف سے عائد ہیں اور یہ مولوی کی عائد کردہ نہیں۔ اب کوئی آپ کو دین کی غلط تشریح کر کے حرام کو حلال کر کے بتلا دے تو پھر آپ کا قصور ھے کہ آپ نے نفس کی پیروی کی کیونکہ نفس کو تو آسانی چاہیے اور دین سے دوری۔ یاد رکھیں مومن کے لیے یہ دنیا "قید خانہ” ہی بتلایا گیا ھے ورنہ ادھر بھی عیش و نفس کی خواہش کے مطابق زندگی اور آخرت میں بھی جنت تو پھر کافروں میں اور مسلمان میں کیا فرق رہا کیونکہ کافر کے لیے اس دنیا کو "جنت” بتلایا گیا ھے اور آخرت کی ہر خوشی سے محرومی۔ نفس کی خواہش کو دبانا ہی سخت لگتا ھے انسان کو اور یہی اس کا اس دنیا میں امتحان ھے۔

اِضافی:-

انگریز نے آ کر ایسے حربے استعمال کیے جسے شیطان اپنی اصطلاح میں "شیطان کے اسلامی حربے” کہتا ھے۔ نفس کو آسانی چاہیے اور مولوی نے قرآن میں موجود احکامات بتلا دیے جو کہ آپ کے نفس کو سخت لگے اور گوارا نہیں۔ جیسے:-

☆ عورتوں کے لیے:
نامحرم سے پردہ
ستر کو چھپانا
چہرے و کلائیوں کو چھپانا
نامحرم مرد کو بلاضرورت نا دیکھنا

☆ مردو کے لیے:
نامحرم عورت کو نا دیکھنا
داڑھی رکھنا
ٹخنوں سے اوپر پائنچے کرنا

☆سب کے لیے:
موسیقی نا سننا
فحش کلامی سے بچنا
نامحرموں سے فضول گپیں و یاریاں نا لگانا
وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اب انگریز نے مسلمانوں کو ان کاموں کو حلال کر کے پیش کیا وہ ایسے ہی کہ اپنے کارندوں کو دین کا ظاہری لبادہ اوڑھا کر اور دین کا ایسا سبق دیا جس میں صحیح علم کو رد کرنے کے لیے قرآن و حدیث کی غلط تشریح کر کے پھر اسی غلط تشریح کے دلائل دے کر لوگوں کو "صحیح علم و صحیح علماء (مولوی و ملا)”سے دور رکھنے کی سازش کی جو کہ برِصغیر میں کامیاب ہوئی اور پھر پاکستان میں آئی اور وہ کارندے تو نہیں رہے مگر ان کی نسلیں آج تک اسی کام میں مصروف ہیں۔ جن کے پیغامات آج کل فلموں ڈراموں کے ذریعے لوگوں تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ گھر کے گھر بے دین بن رہے ہیں کیونکہ ان کے بڑے غلط راستے پر چل رہے ہیں۔دین کو مزاق اور اس دنیاوی زندگی کو "عمر جاوداں” سمجھ رکھا ھے۔

حاصلِ کلام:-

اگر ایسی ہی بات ھے تو پھر یہ بھی کہا جا سکتا کہ:

دین میں نماز (صلوۃ) ہے، نماز میں دین نہیں
دین میں تو کلمہ ہے مگر کلمہ میں دین نہیں
دین میں قرآن ہے، قرآن میں دین نہیں
دین میں حج ھے، حج میں دین نہیں

خوب ذہن نشین کر لیا جائے کہ نماز کی ادائیگی بھی الله ﷻ کا حُکم ھے اور بالکل اسی طرح داڑھی کا سنت ﷺ کے مطابق رکھنا بھی حکمِ الله عزوجل ھے،
اگر کوئی غلط ھے اور فقط اچھائی کا دینی لبادہ اڑھے رکھا ھے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی اس کو دلیل بنا کر ساری زندگی یہی کہتے پھریں کہ پہلے اندر سے ٹھیک ہو جاؤ پھر باہر کا حلیہ بنانا دیکھو فلاں ایسا ھے فلاں ایسا۔ آپ نے اپنی ذاتی قبر میں جانا ھے اپنی فکر کریں اور مسلمان تو ہیں ہی اب مومن بھی بن جائیں۔ تاکہ تاقیامت آپ کا نام الله ﷻ اچھے لوگوں کی زبانوں پر زندہ رکھیں جیسے آج تک اولیاء الله ﷻ کا ہم میں زندہ ھے۔

داڑھی کو فقط "سنت” کہہ کر کہ یہ فرض تو نہیں، چھوڑ دینا عاشقِ رسول ﷺ نہیں بناتی اور بیشک سنتِ رسول ﷺ پر عمل درِحقیقت الله ﷻ کے حکم پر عمل کرنا ھے۔ تو اس غلط سوچ سے خود بھی نکلیں اور جو کہتے ہیں ان کو بھی حکمت سے سمجھائیں۔ دین میں داڑھی ھے اور داڑھی بھی دین ہی کا ایک جز ھے!

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں