بدھ, اکتوبر 16, 2024

بیٹی کی رخصتی کے وقت قرآن کا سایہ کرنا

ہمارے معاشرے میں ہونے والی شادیوں میں عجیب قسم کے رسم و رواج ہوتے ہیں، جن کو ہر نسل ناجانے کب سے کرتی آ رہی ھے، مگر کسی نے بھی یہ تکلیف نہیں کی کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہی دیکھ لیں کہ شادیوں میں جو رسومات کر رہے ہیں آیا کہ اسلامی رسم ھے بھی یا کسی اور مذہب کے عقیدے سے منسلک ھے۔ انہی رسومات میں سے ایک ھے جسے پاکستان میں 90 فیصد گھروں میں آزمایا جاتا ھے اور وہ ھے:

* رخصتی کے وقت دلہن کا بھائی یا والد قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹ کر اس کے سر پر سائے کے طور پر رکھتے ہیں اس نیت سے کہ اس کی شادی کے بعد کی نئی زندگی میں قرآن کی برکت کی وجہ سے خوشحالی ہوگی۔ (یعنی الله ﷻ کی رحمت ہو گی)۔

یہ ایک غلط سوچ ھے

اَصل:-

شادی کی 90 فیصد رسومات برِصغیر کے ہندوؤں سے آئی ہیں، کچھ اسی شکل میں چلتی آ رہی اور کچھ کی شکل اسلامی بنا دی گئی جیسے؛ گھوڑا چڑھائی، دودھ پلائی، مہندی و مائیوں بیٹھنا، سہرا بندی و سہرا پڑھنا اور بھگوت گیتا کی جگہ قرآن کو رکھ دیا۔
یہ رواج ہم میں ہندوؤں سے آیا ھے، وہ دلہن کے کندھے یا سر کے پاس "بھگوت گیتا” رکھا کرتے تھے اور برِصغیر میں رہنے کی وجہ سے کم عقل مسلمانوں نے بھی اسے اپنا لیا، اور قرآن رکھ کر اس ہندوانہ رسم کو اسلامی رسم بنا دیا۔ اب وقت گزرتا گیا اور رسم کی اصل تو فراموش ہو گئی مگر آنے والی نسل اسے شادی کا لازمی جزو سمجھنے لگے اور ثواب کی نیت سے کرنے لگ گئے۔

اِضافی:-

عاجز کے علم میں آیا کہ کچھ لوگوں کا عقیدہ تو یہ ھے کہ رسولِ پاک ﷺ نے حصرت فاطمہ رضی الله تعالیٰ عنما کے سر پر قرآن کا سایہ کیا تھا اسی لیے ہم بھی کر رہے ہیں۔ (نعوذبالله تعالیٰ) یہ سراسر جھوٹ ھے!
قرآن کو پکڑ کر اسے دلہن کے سر پر چھتری کی طرح تان کر اس کا سایہ کیا جاتا ھے۔ گویا قدم قدم پر ہر کام میں الله ﷻ کی نافرمانی اور قرآنی تعلیمات کی مٹی پلید کرنے کے باوجود ہم قرآن سے اس جذباتی تعلق کا اظہار کرکے الله ﷻ سے کہتے ہیں: یا الله ﷻ! دیکھ لے اس سب خودفراموشی اور خدافراموشی کے بعد بھی بطور تبرک تیرے قرآن کریم کو ہی استعمال کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔یہ قرآن کریم کے ساتھ کتنا بھونڈا مذاق ھے۔ اعاذ نا الله منه
کیا روزِ محشر الله ﷻ ہم مسلمانوں سے نہیں پوچھے گا کہ کیا قرآن کریم میں نے صرف اسی لیے نازل کیا تھا کہ تم اس کو حریر و ریشم کے غلافوں میں لپیٹ کر گل و ستہ طاق نسیاں بنا کر رکھ دینا اور اپنے کاروبار میں، معاملات زندگی میں اور اپنی معاشرتی تقریبات (شادی بیاہ وغیرہ) میں اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نا دیکھنا، تاہم اس کو کبھی کبھی تبرک کے طور پر دلہن کے سر پر یا مردے بخشوانے اور کھانے پر فاتحہ پڑھنے کے لیے استعمال کر لیا کرنا۔

زندگی میں خوشی:

زندگی بہتر گزارنی ہے تو بیٹی کو قرآن کے سایے میں رخصت کرنے کے بجائے قرآن کی تعلیمات دے کر اگلے گھر بھیجا جائے، تب تو یقینی برکت و رحمت پڑے گی۔ مگر افسوس کہ آج کل قرآن سر پر لہراتے ہوئے اُس کی بے ادبی کرتے ہوئے اور شادی میں الله ﷻ کے احکامات کی بڑے جوش و خروش سے خلاف ورزی کرتے ہوئے دُلہن صاحبہ رخصت کی جاتی ھے اور پھر لوگ کہتے ہیں گھروں میں خوشیاں نہیں ، سکون نہیں.

حاصلِ کلام:-

آج کل ہونے والی رخصتی کی رسم بھی ہندوؤں سے آئی ھے اور قرآن سر پر رکھنے کی رسم بھی کم عقل مسلمانوں نے ایجاد کر لی۔ جبکہ اس رسم کا تعلق دینِ اسلام سے نہیں اور نا ہی یہ باعث ثواب و برکت عمل ھے، بلکہ عورت بغیر پردے کے فقط نام کے دوپٹے میں نامحرموں کی نظروں اور کیمرے کی آنکھوں میں سے گزرتے ہوئے رخصت کی جاتی ھے اور اوپر قرآن کو سر پر رکھ کر الله تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھنا باعث گناہ بھی ھے اور یہ عمل شرعی طور پر بدعت ھے۔ اس رسم کو معاشرے سے ختم کر دینا چاہیے۔ خود بھی بچیں اور خوسروں کو بھی اخلاق سے سمجھائیں۔ اللّٰه ﷻ ہمیں سیدھے راستے پر چلا دیں۔ ۔ ۔آمین!

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں