آزادی ایک ایسی نعمت ہے۔ جو کسی قوم کی اپنی ایک الگ پہچان و حثیت اور خود مختاری کی علامت ہے۔ معروف برٹانیکا انسائیکلوپیڈیا کے مطابق، ” آزادی بغیر کسی رکاوٹ یا روک ٹوک کے عمل کرنے، بولنے یا سوچنے کی طاقت یا حق، مزید جابرانہ پابندیوں یا زبردستی کنٹرول کے تابع ہونے کی عدم موجودگی کا نام ہے۔”
مزید برآں برٹانیکا انسائیکلوپیڈیا آزادی کے لئے چار اہم عناصر یعنی عمل کی آزادی ، سفر یا حرکت پذیری کی آزادی، مذہبی آزادی اور تعلیمی آزادی کو لازم قرار دیتا ہے۔
وطن ِعزیز کی آزادی کی جدوجہد بھی انہی آزادی کے بنیادی عناصر کے حصول کے مطالبہ سے شروع ہوئی۔ جب جنگ ِ آزادی 1857ء کے بعد مسلمانوں کے الگ تشخص کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ 1867ء میں علی گڑھ مکتب ء فکر کے بانی سر سید احمد خان کی جانب سے مسلمانوں کے لئیے یہی بنیادی آزادی کا مطالبہ دو قومی نظریہ کی بنیاد و اساس بنا۔ اِسی کی بنیاد پہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ معرض ء وجود میں آئی۔ مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے 1930ء کے مسلم لیگ کے اجلاس میں فرمایا: "انڈیا ایک برصغیر ہے ملک نہیں۔ یہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔ مسلم قوم اپنی جدا گانہ مذہبی اور ثقافتی پہچان رکھتی ہے۔”
اِسی نظریہ کو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور موجودہ اقبال پارک میں فرمایا: "قومیت کی جو بھی تعریف کی جائے مسلمان اس تعریف کی رو سے ایک الگ قوم ہیں۔ لہذا اس بات کا حق رکھتے ہیں۔ کہ اُن کی اپنی الگ مملکت ہو جہاں وہ اپنے عقائد کے مطابق معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی بسر کر سکیں۔”
مارچ1944 میں طلباء کے ایک وفد سے خطاب میں فرمایا: ” ہمارا رہنما اسلام ہے۔ اور یہی ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے۔ ہمیں کسی سرخ یا پیلے پرچم کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہمیں سوشلزم کمیونزم یا کسی اور ازم کی ضرورت ہے۔”
بابائے قومؒ نے اپنے قریبا 114 خطابات میں پاکستان کو اسلامی آئین کے تابع ریاست قرار دیا۔ اکتوبر 1947ء کو آپ نے نے فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک مملکت کی تخلیق کریں۔جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں۔ جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پوری طرح پنپنے کا موقع مل سکے۔”
آپ نے واشگاف الفاظ میں فرمایا : ” حاکمیت اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ پاکستان میں عوام اسے قرآن و سنت کے مطابق استعمال کریں گے۔”
بابائے قومؒ نے اسلام اور قرآن کریم کو پاکستان کے عوام کی یکجہتی و واحدت کی بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا: ” وہ کون سا رشتہ ہے۔ جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسمِ واحد کی مانند ہیں۔؟ وہ کونسی چٹان ہے۔ جس پر اس امت کی عمارت استوار ہے۔؟ وہ کونسا لنگر ہے۔ جس سے امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی۔؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن مجید ہے۔ ”
21 مارچ 1948 میں عوام سے خطاب میں فرمایا: ” میں چاہتا ہوں ۔ ہم پنجابی، بلوچی ، سندھی، پٹھان اور بنگالی بن کے بات نہ کریں۔ آخر کیا فائدہ ہے۔ کہ ہم پنجابی ، سندھی یا پٹھان ہیں۔ ہم تو بس مسلمان ہیں۔”
قائداعظم نے پاکستان کو اقلیتوں کے لئیے بھی ایک آزاد اور محفوظ ملک قرار دیتے ہوئے فرمایا: ” پاکستان میں اقلیتوں کیساتھ منصفانہ اور برادرانہ سلوک کیا جائے گا۔ اسلام نے ہمیں یہی درس دیا ہے ۔ اور ہماری تاریخ اس امر کی گواہ ہے۔”
یہ ہے میرا وطن میرا پاکستان جو فکر ِ اقبالؒ ہے، جو حاصل ِجدوجہد ء قائدؒ ، جو دعاِ ہر مسلم اور کئی لازوال و انمول قربانیوں کا ثمر ہے۔
آزادی بلاشبہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ انسان کی نیت میں پاکیزگی اور عمل میں مخلصی ہو۔ تو رب کریم انسان کو منزل عطا فرماتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کی ایک طویل جدوجہد اور اَن گنت قربانیوں کا ثمر 27 رمضان المبارک کی بابرکت شب بمطابق 14 ،15اگست 1947ء کی درمیانی شب آزادی عطا فرمائی۔ اور یوں ایک حسین خواب کی ایک حسین تعبیر حاصل ہوئی۔ دنیا کے نقشے میں ایک معجزاتی تبدیلی رونما ہوئی۔ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت اس آزادی کے لئیے 1947 ء میں ہوئی۔ جس میں قریباً دس ملین لوگ گھر سے بے گھر ہونے پہ مجبور ہوئے۔
ہر سال 14 اگست بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ پورا دن باجے بجائے جاتے ہیں۔ چہروں پہ "فلیگز” بنائے جاتے ہیں۔ سڑکوں پہ ون ویلنگ بھی کی جاتی ہے۔ تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں ۔ جن میں جھنڈا کشائی بھی ہوتی ہے۔ اور شرکاء کیمروں کے سامنے بڑے مہذب انداز میں وطن ِعزیز سے محبت کا خوب درس بھی دیتے ہیں۔ جی ہاں وقتی طور پہ قوی لباس بھی پہنا جاتا ہے۔ اور سبز و سفید رنگ میں کہ ہمیں جھنڈے کا رنگ یاد ہے۔ جھنڈیاں بھی لگائی جاتی ہیں جو شام میں ہوا کے ساتھ گر رہی ہوتی ہیں۔ اور کسی کا دل نہیں دُکھتا۔ کہ پرچم کی بے حُرمتی ہو رہی ہے۔ اور ایسے بے ہنگم شور و غل میں صبح سے شام ہو جاتی ہے۔ اس سب میں 14 اگست تو "منایا” جاتا ہے۔ مگر وہ خواب جو جہاں دیدہ نظروں نے دیکھا، وہ سوچ جو دور اندیش اذہان میں ابھری ، وہ قربانیاں جو ایک پوری نسل نے اگلی نسل کے لئیے دیں، وہ خون جس نے بہہ کر اس خواب کی آبیاری کی ، اسے کوئی یاد نہیں کرتا۔ واہ واہ کے نعرے تو لگتے ہیں ۔ مگر کوئی ” پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ ” کی تشریح نہیں کرتا۔۔۔
یہ آزادی کئی لازوال قربانیوں کا صلہ ہے۔ اس وطن کی بنیادوں میں اَن گنت شہیدوں کا خون ہے۔ ایک نسل کی اگلی نسلوں کے بہترین و آزاد مستقبل کے لئیے ایثار و قربانی کا حاصل ہے ۔ اللہ رب العزت میرے وطن کے تمام شہداء کے درجات بلند فرمائیں ۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
(آمین )