Home ادب کراچی EOBI میں عملے کی شدید قلت، کام کا بوجھ بڑھ گیا

کراچی EOBI میں عملے کی شدید قلت، کام کا بوجھ بڑھ گیا

0
112

بزرگ ریٹائرڈ ملازمین، معذور اور بیوگان کو پنشن کے حصول میں سخت مشکلات کا سامنا!

تین ڈائریکٹر جنرلز، سیکریٹری بورڈ سمیت افسران اور اسٹاف کی سینکڑوں آسامیاں برسوں سے خالی!

قائم مقام اور جونیئر افسران ادارہ کا نظام چلانے لگے، نظم و نسق تباہ

نجی شعبہ کے رجسٹرڈ ملازمین کو ریٹائرمنٹ، معذوری اور ان کی وفات کی صورت ان کی بیوگان کو تاحیات پنشن فراہم کرنے والے قومی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کو سخت انتظامی بحران کا سامنا ہے ۔

واضح رہے کہ ای او بی آئی وفاقی وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان کی زیر نگرانی خدمات انجام دیتا ہے اور وزارت کے سیکریٹری بربنائے عہدہ ای او بی آئی کے سہ فریقی بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ہوتے ہیں اس وقت ذوالفقار حیدر خان بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے EOBI میں تیزی سے ملازمین کی ریٹائرمنٹ اور گزشتہ 9 برسوں سے خالی اسامیوں پر نئی بھرتیاں نہ کئے جانے کے باعث ادارہ کو افرادی قوت کی شدید قلت کا سامنا ہے

جس کے باعث ادارہ کے ملازمین پر کام کا بوجھ بیحد بڑھ گیا ہے اور اس صورت حال کے نتیجہ میں ایک ایک ملازم کو تین تین چار چار کام انجام دینے پڑ رہے ہیں اور ادارہ کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے

ای او بی آئی کے امور پر گہری نظر رکھنے والے سابق افسر تعلقات عامہ اور ڈائریکٹر سوشل سیفٹی نیٹ پاکستان اسرار ایوبی کے مطابق EOBI میں منظور شدہ اسامیوں کی کل تعداد 1476 ہے جس میں 751 افسران اور 725 اسٹاف ملازمین شامل ہیں جبکہ اس تعداد کے برعکس اس وقت صرف 620 افسران اور اسٹاف ملازمین پر مشتمل مختصر ترین عملہ اس وفاقی ادارہ کا نظم و نسق چلانے پر مجبور ہے جس کا دائرہ کار گوادر سے گلگت تک پھیلا ہوا ہے

No description available.

واضح رہے کہ ملک بھر میں نجی شعبہ کے ہزاروں اداروں کے لاکھوں ملازمین کی لازمی سماجی بیمہ کے تحت رجسٹریشن ، رجسٹرڈ آجران سے ماہانہ کنٹری بیوشن کی وصولیابی اور لاکھوں پنشنرز کو ماہانہ پنشن کی فراہمی کا ایک بڑا نیٹ ورک قائم ہے اس وقت ملک بھر کے ایک لاکھ سے زائد آجران اور نجی ادارے اور ان کے ایک کروڑ سے زائد ملازمین EOBI کے پنشن منصوبہ میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ ای او بی آئی چار لاکھ سے زائد بزرگ پنشنرز کو ماہانہ 5 ارب روپے مالیت کی تاحیات پنشن ادا کر رہا ہے

ای او بی آئی کا ہیڈ آفس کراچی میں قائم ہے جبکہ اس کے بینی فٹس اینڈ کنٹری بیوشن کے آفس کراچی، لاہور اور اسلام آباد ، آجران اور بیمہ دار افراد کی شکایات کے ازالہ کے لئے تین ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں قائم ہیں اور ملک بھر میں ادارہ کے 39 ریجنل آفس اور 40 فیلڈ آفس بھی خدمات انجام دے رہے ہیں

اسرار ایوبی نے بتایا کہ مقررہ طریقہ کار کے مطابق وفاقی حکومت EOBI کے چیئرمین (گریڈ 21) اور فنانشل ایڈوائزر (گریڈ 20) کی تقرری تین برس کی مدت کے لئے ڈیپوٹیشن پر کرتی ہے ۔ اس وقت گریڈ 22 کی افسر ناہید شاہ درانی ای او بی آئی کی چیئرپرسن اور ناصرہ پروین خان فنانشل ایڈوائزر کے عہدہ پر فائز ہیں

ای او بی آئی میں بورڈ آف ٹرسٹیز کی جانب سے منظور شدہ دیگر اسامیوں میں سیکریٹری بورڈ آف ٹرسٹیز، ایک سینئر میڈیکل افسر، جبکہ آپریشنز کیڈر میں تین ڈائریکٹر جنرل ، سات ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ، 23 ڈائریکٹر اور 63 ڈپٹی ڈائریکٹر ، آفس کیڈر میں چھ ڈائریکٹر ، دس ڈپٹی ڈائریکٹر، 26 اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور سات ایگزیکٹیو افسر، فنانس کیڈر میں تین ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ، 8 ڈائریکٹر ،15 ڈپٹی ڈائریکٹر اور 76 اسسٹنٹ ڈائریکٹر، انوسٹمنٹ کیڈر میں ایک ڈائریکٹر جنرل ،ایک ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ، دو ڈائریکٹر اور چار ڈپٹی ڈائریکٹر، آئی ٹی کیڈر میں ایک ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹر چار، 8 ڈپٹی ڈائریکٹر ، 27 اسسٹنٹ ڈائریکٹر (آئی ٹی) اور لاء کیڈر میں ایک ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، 4 ڈائریکٹر ،چھ ڈپٹی ڈائریکٹر اور 11 اسسٹنٹ ڈائریکٹران شامل ہیں

جبکہ اسٹاف ملازمین میں 21 پرائیویٹ سیکریٹری ، 69 سپرنٹنڈنٹ ، 63 پرسنل اسسٹنٹ ،دو ٹیلی فون آپریٹرز ، 170 سینئر اسسٹنٹ ، ایک الیکٹریشن ،دو کی پنچ آپریٹرز ، 134 اسسٹنٹ/ ٹائپسٹ ،66 ڈرائیور ، 23 قاصد، تین دفتری ، دو لفٹ آپریٹر اور 166 نائب قاصد اور تین ڈسپیچ رائیڈر شامل ہیں

ادارہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا آپریشنز ڈپارٹمنٹ انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے جہاں ایک طویل عرصہ سے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز ساؤتھ، برائے سندھ و بلوچستان اور ڈائریکٹر جنرل آپریشنز نارتھ، برائے پنجاب ، خیبر پختونخوا اور گلگت و بلتستان اور ڈائریکٹر جنرل انوسٹمنٹ جیسی اہم ترین آسامیاں بھی خالی پڑی ہوئی ہیں

جس کے باعث ای او بی آئی کے قیام کے بنیادی فرائض ملک بھر میں آجران اور ان کے ملازمین کی رجسٹریشن، رجسٹرڈ آجران سے ماہانہ کنٹری بیوشن کی وصولیابی اور پنشن فنڈ کی آمدنی میں اضافہ کے لئے محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری کے امور بری طرح متاثر ہورہے ہیں اور پنشن فنڈ تیزی سے زوال پذیر ہے سینئر افسران کی عدم موجودگی میں قائم مقام اور جونیئر افسران انتہائی کلیدی عہدوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں

کراچی تا گلگت قائم 39 ریجنل آفسوں اور 40 فیلڈ آفسوں میں مطلوبہ تعداد میں عملہ دستیاب نہ ہونے کے باعث ریٹائر ہونے والے ہزاروں بزرگ، معذور ملازمین اور متوفی ملازمین کی بے سہارا اور پردہ نشین بیوگان کو مقررہ 45 یوم کے بجائے اپنی پنشن کے حصول میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے

اسرار ایوبی نے مزید بتایا کہ ای او بی آئی میں آخری بار بھرتیاں 2014ء میں کی گئی تھیں اور اس کے چار برس بعد اسٹبلشمنٹ ڈویژن حکومت پاکستان نے 21 اپریل 2017ء کو ای او بی آئی میں سینکڑوں خالی اسامیوں پر بھرتی کے لئے وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل کے ذریعہ ای او بی آئی کو بھرتیوں کے لئے ایک این او سی جاری کیا تھا جس پر 18 جون 2017ء کو ای او بی آئی کی جانب سے مختلف عہدوں کی 293 خالی اسامیوں کے لئے قومی اخبارات میں اشتہار شائع کرائے گئے تھے
جس کے جواب میں 31 ہزار امیدواروں کی درخواستیں موصول ہوئی تھیں اور بھرتیوں کے لئے NTS کے زیر اہتمام 18 تا 20 اگست 2017ء کو ملک کے مختلف شہروں میں امیدواروں کے تحریری ٹیسٹ بھی منعقد کئے گئے تھے

بعد ازاں NTS نے امیدواروں کے مطلوبہ کوائف کی جانچ پڑتال کے بعد 1100 امیدواروں کی فہرست کو حتمی شکل دی تھی سلیکشن کمیٹی کو ان اہل امیدواروں کے انٹرویو کرنے تھے اور بھرتی کے عمل کو 60 دن میں مکمل کیا جانا تھا لیکن مختلف انتظامی وجوہات کی بناء پر اسٹبلشمنٹ ڈویژن حکومت پاکستان کی جانب سے مقررہ وقت 60 دن میں منظور شدہ 293 خالی اسامیوں کی بھرتیوں کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی تھی اور اسی دوران ایک امیدوار کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھرتیوں کے متعلق رٹ پٹیشن دائر کئے جانے کے باعث ای او بی آئی میں 293 خالی اسامیوں پر بھرتیوں کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے ۔

واضح رہے کہ ماضی میں مختلف ادوار میں ای او بی آئی میں بڑے پیمانے پر سیاسی بنیادوں پر غیر قانونی بھرتیوں نے بھی ادارہ کو اس ناگفتہ بہ صورت حال تک پہنچایا ہے جبکہ ایک وفاقی اور خود مختار ادارہ کی حیثیت سے ای او بی آئی میں ہر چھوٹی بڑی اسامی پر بھرتیوں کے لئے مقررہ وفاقی کوٹہ کے تحت میرٹ پر عملدرآمد لازمی ہے۔ اس تشویشناک صورت حال کے باعث پنشن کے قومی فلاحی ادارہ کو اپنے بنیادی فرائض Benefits کی فراہمی میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے