پنشن فنڈ کو کروڑوں روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والی بااثر بدعنوان خودسر خاتون افسرعاصمہ عزیز کا اپنے ادارہ کے خلاف 5 کروڑ روپے ہرجانہ کا مقدمہ ۔
نااہلی اور ناقص کارکردگی پر دو بار معطل، ڈی ڈی جی کی اسامی نہ ہونے کے باوجود غیر قانونی طور پر تنخواہیں اور مراعات سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے۔
خصوصی رپورٹ:
وزارت سمندر پار پاکستان و ترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان کے ماتحت غریب محنت کشوں کی پنشن کے ذیلی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) میں اختیارات کے غلط استعمال اور سنگین مالی بدعنوانیوں میں خواتین افسران بھی مرد افسران سے کسی طور کم نہیں ۔ غریب محنت کشوں کے پنشن ٹرسٹ میں انتہائی بااثر اوربدعنوان افسران سے کسی قسم کی جوابدہی اور جزا وسزا کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث متعدد مطلق العنان افسران جونکوں کی طرح غریب محنت کشوں کے امانتی پنشن فنڈ کاخون چوس رہے ہیں ۔
دستاویزی تفصیلات کے مطابق حال ہی میں ای او بی آئی پنشن فنڈ کو کروڑوں روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والی نااہل اور بدعنوان، خودسر خاتون افسر عاصمہ عزیز ڈائریکٹر Reconciliation ڈپارٹمنٹ نے اپنی نا اہلی، ناقص کارکردگی، بدعنوانیوں کی پردہ پوشی اور کسی متوقع تادیبی کارروائی سے بچنے کے لئے کراچی کی ایک سول عدالت میں اپنے ہی ادارہ ای او بی آئی کے خلاف 5 کروڑ روپے کے ہرجانہ کا مقدمہ دائر کردیا ہے ۔
باخبر ذرائع کے مطابق ای او بی آئی کی خاتون افسر عاصمہ عزیز (سابقہ عاصمہ عامر) ایمپلائی نمبر 923455 ڈائریکٹر Reconciliation ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی جو ماضی میں حیرت انگیز طور پر ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس کے عہدہ کے لئے تحریری ٹیسٹ میں فیل ہوجانے کے باوجودایک بھاری سفارش کے ذریعہ بغیر کسی تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو کے یکم دسمبر 2007 کو صوبہ پنجاب کے کوٹہ پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل فنانس اینڈ اکاؤنٹس کے کلیدی عہدہ پر بھرتی ہونے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ بعد ازاں 22 ستمبر 2008 کو ای او بی آئی کی وزارت کی جانب سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل کے 15 عہدے اچانک ختم کئے جانے کے بعد دیگر افسران کی طرح اسے بھی ڈائریکٹر کے عہدہ پر کھپادیا گیا تھا۔ وہ دن ہے آج کا دن عاصمہ عزیز ڈائریکٹر نے ای او بی آئی میں کبھی ایک دھیلے کا کام نہیں کیا بلکہ اپنی 17 برسوں کی ملازمت کے دوران سخت نااہلی، ناقص کارکردگی،قانون شکنی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے باعث غریب محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے ادارہ ای او بی آئی پر زبردست بوجھ بن گئی ہے ۔اپنی تعلیمی قابلیت اور تجربہ کے تمام تر دعووں کے باوجو اس خاتون افسرکی لیاقت کا یہ عالم ہے کہ فنانس اینڈ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس میں انتہائی کلیدی عہدہ فائز ہوجانے کے باوجود وہ ناصرف دفتری امور سے قطعی طور پر نابلد ہے بلکہ انگریزی میں ایک پیرا گراف تک لکھنے سے بھی قاصر ہے اور اس کے تمام دفتری امور فنانس ڈپارٹمنٹ میں اس کے ہمدرد افسران بلال عظمت خان ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل وغیرہ انجام دیتے ہیں۔عاصمہ عامر اپنی نالائقی کا پول کھلنے کے خدشہ کے پیش نظر ای او بی آئی کی جانب سے دو بار نامزدگی کے باوجود اگلے گریڈ میں ترقی کے لئے لازمی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ(NIM) کے سینئر منیجمنٹ کورس میں شرکت سے انکار کرچکی ہے جس پر اس کو تنبیہ بھی کی گئی تھی لیکن اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
ذرائع کے مطابق عاصمہ عزیز ڈائریکٹر Reconciliation ڈپارٹمنٹ خود کو قانون سے بالا ترسمجھتی ہے جس کے نتیجہ میں اسے بدعملی کی بناء پر 5 اکتوبر 2012 کو ملازمت سے معطل کردیا گیا تھا۔لیکن اس کے باوجود اس کی جانب سے سرکاری احکامات نافرمانیوں اور بد عملیوں کا سلسلہ جاری رہا اور اس نے 2012 میں ای او بی آئی پنشن فنڈ ٹرسٹ کے صدر کی حیثیت سے جان بوجھ کر ای او بی آئی ریجنل آفس کوٹری کے ایک غریب نائب قاصد ڈوڈو خان کو اس کے حق کے باوجود اور اس کی پنشن جاری کرنے کے لئے وفاقی محتسب اعلیٰ، سپریم کورٹ آف پاکستان کی واضح ہدایات اور چیئرمین ای او بی آئی کے احکامات کے باوجود اسے ریٹائرمنٹ کے بعدپنشن جاری کرنے سے صاف انکار کردیا تھا ۔جس پر اسے وفاقی محتسب اعلیٰ،سپریم کورٹ آف پاکستان اور انتظامیہ کے احکامات کی مسلسل نافرمانی کے سنگین الزام میں31 جنوری 2017 کو ملازمت سے معطل کردیا گیا تھا اور 31 مارچ 2017 کو۔چارج شیٹ بھی جاری کی گئی تھی۔ جبکہ عاصمہ عزیز ڈائریکٹر Reconciliation ڈپارٹمنٹ کو 16 جنوری 2024 کو ای او بی آئی بینکنگ سروسز کے عمل کے دوران غیر پیشہ ورانہ برتاؤ اور سینئر افسران کو بدنام کرنے کے الزامات کے تحت نہ صرف اسے ملازمت سے معطل کیا گیا تھا بلکہ اس کے عہدہ کی تنزلی بھی کردی گئی تھی۔لیکن وہ اپنے زبردست اثر و رسوخ کے باعث اپنے خلاف ہونے والی انکوائریوں سے ہمیشہ محفوظ رہی اور معطلی کے دوران مال مفت دل بے رحم کی طرح آرام سے گھر بیٹھے بھاری تنخواہوں اور پرکشش مراعات سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق ای او بی آئی کی جانب سے متعلقہ بینک کو ہر ماہ ملک بھر میں پانچ لاکھ پنشنرز میں پنشن کی تقسیم کے لئے اوسطا پانچ ارب روپے کے پنشن فنڈز منتقل کئے جاتے ہیں ۔ بینک کی جانب سے ہر ماہ پنشن کی تقسیم کے بعد بچ جانے والی بقیہ رقم کے تصفیہ(Reconciliation) کے لئے فنانس اینڈ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی میں عاصمہ عزیز ڈائریکٹر فنانس کی سربراہی میں ایک Reconciliation ڈپارٹمنٹ قائم ہے۔ لیکن عاصمہ عزیز کی اپنے فرائض سے عدم دلچسپی اور ناقص کارکردگی کے باعث طویل عرصہ سے ان بھاری رقوم کی Reconciliation نہیں کی گئی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عاصمہ عزیز ڈائریکٹر کی جانب سے سنگین غفلت اور مجرمانہ عمل کے نتیجہ میں ماضی سے لے کر اب تک ای او بی آئی پنشن کی تقسیم کے لئے بینکنگ سروسز فراہم کرنے والے مختلف بینکوں تعمیر مائیکرو فنانس بینک، یو بی ایل، نیشنل بینک آف پاکستان اور بینک الفلاح میں ای او بی آئی پنشن فنڈ کے کروڑوں روپے کی بھاری رقوم پھنسی ہوئی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کو کروڑوں روپے کا ناقابل نقصان پہنچ چکا ہے لیکن عاصمہ عزیز کے فنانس اینڈ اکاؤنٹس ڈپارٹمنت تعینات طاقتور سرپرست بااثر افسران نے اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت اس اہم اسکینڈل کو طویل عرصہ سے سرد خانہ میں ڈالا ہوا ہے۔جس پر وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان چوہدری سالک حسین اور وفاقی سیکریٹری اور ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ڈاکٹر ارشد محمود کو عاصمہ عزیز ڈائریکٹر Reconciliation ڈپارٹمنٹ اور فنانس ڈپارٹمنٹ کے بدعنوان ٹولہ کے خلاف فور ی طور پر سخت تادیبی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ عاصمہ عزیز 2014 میں ایک بھاری سفارش کے ذریعہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل Reconciliation ڈپارٹمنٹ کے فرضی عہدہ پر اپنی تقرری کرانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔جبکہ ریکارڈ کے مطابق اس وقت Reconciliation ڈپارٹمنٹ میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔لیکن اس کے باوجود بدعنوان اور انتہائی چہیتی افسر عاصمہ عزیز فنانس اینڈ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ کے چند بااثر ساتھی افسران کی ملی بھگت اور جعلسازی کے ذریعہ ایک طویل عرصہ تک Reconciliation ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے فرضی کلیدی عہدہ کے مزے لوٹتی رہی اور بھاری تنخواہوں،سہولیات اور پرکشش مراعات اینٹھ کر غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کو لاکھوں روپے کا ٹیکہ لگادیا تھا۔
ای او بی آئی کے پچھلے اصول پرست اور فلاحی ادارہ میں بدعنوان افسران کو جڑ سے اکھاڑنے والے چیئرمین فلائٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ نے حقیقت حال کا ادراک ہوتے ہی 17 مئی 2024 کو ایک حکمنامہ کے ذریعہ عاصمہ عزیز کو Reconciliation ڈپارٹمنٹ کےڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے کلیدی عہدہ سے تنزلی کرتے ہوئے اسے ڈائریکٹر بنادیا تھا۔کیونکہ اس دوران ای او بی آئی میں بورڈ آف ٹرسٹیز کے حکم پر کنٹری بیوشن کی وصولیابی اور پنشن کی تقسیم کے لئے بینکنگ سروسز کے انتخاب کا عمل 2 اگست 2024 تک مکمل کرنا تھا۔لیکن عاصمہ عزیز ڈائریکٹر Reconciliation ڈپارٹمنٹ نے بینکنگ سروسز کے انتخاب کے لئے قائم کمیٹی کی رکن کی حیثیت سے اس اہم عمل کے دوران غیر پیشہ روانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور سینئر افسران کو بدنام کرنے کے لئے جان بوجھ کر بلاجواز روڑے اٹکائے تھے جس کے نتیجہ میں بینکنگ سروسز کے انتخاب کا عمل بری طرح متاثر ہوا تھا اور اس صورت حال کے باعث ہزاروں رجسٹرڈ آجران سے کنٹری بیوشن اور بقایا جات کی وصولیابی اور لاکھوں پنشنرز کی پنشن رک جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔جس پر چیئرمین نے عاصمہ عزیز کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرتے اس کی تنزلی کے ساتھ ساتھ اسے ملازمت سے بھی معطل بھی کردیا تھا۔ بعد ازاں عاصمہ عزیز نے اپنی اس رنجش کا بدلہ لینے کے لئے اور خاتون ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے چیئرمین فلائٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ کی عین ریٹائرمنٹ کے دن ان کے دفتر میں اجلاس کے دوران ان سے سخت بدتمیزی کا مظاہرہ کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق 18 ستمبر کو پچھلے دبنگ چیئرمین کے جاتے ہی عاصمہ عزیز دختر علی محمد ڈائریکٹر Reconciliation ڈپارٹمنٹ نے ادارہ کی نئی انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے اور اپنے خلاف کسی متوقع تادیبی کارروائی سے بچنے کے لئے گزشتہ دنوں سینئر سول جج اول کراچی ساؤتھ کی عدالت میں خودساختہ دعووں کی بنیاد پراپنے ہی ادارہ کے خلاف پانچ کروڑ روپے کے ہرجانہ کا دیوانی مقدمہ دائر کیا ہے۔ جس میں وفاق پاکستان، ای او بی آئی،بورڈ آف ٹرسٹیز اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ عاصمہ عزیز نہ صرف اپنے خاتون ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے بلکہ ای او بی آئی کے فرض شناس افسران کے خلاف ہراسانی کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیتی ہے ۔عاصمہ عزیز کی لاقانونیت اور خودسری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل Reconciliation ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے ڈائریکٹر کے عہدہ پر اپنی تنزلی کے باوجود اور ادارہ کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بار ہا تقاضوں کے باوجود ای او بی آئی کی 1800 c c کی سرکاری گاڑی نمبر GW-918 واپس کرنے سے صاف انکار کردیا ہے اور اسے غیر قانونی طور پر تاحال اپنے استعمال میں رکھا ہوا ہے اور قانون کے مطابق سرکاری گاڑی واپس طلب کرنے والے اور اس کی مد میں پٹرول،ڈرائیور اور مرمت کے نام پر 80 ہزار روپے ماہانہ کی غیر قانونی ادائیگیوں پر اعتراض کرنے والے ای او بی آئی کے فرض شناس افسران کو سندھ ہائی کورٹ میں 2017 سے دائر اپنی آئینی پٹیشن نمبر 6248/2017 کے مشکوک حکم امتناعی اور توہین عدالت کے نام پر ڈرا نے اور گمراہ کرنے میں مصروف ہے۔ جبکہ دوسری جانب وہ اپنے اس کیس کی پیروی میں مسلسل عدم حاضری کے ذریعہ تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ عاصمہ عزیز مبینہ طور پر اپنے ایک انتہائی ہمدرد اور بااثر افسر بلال عظمت خان (بیک وقت ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس اینڈ اکاؤنٹس اور فنانشل ایڈوائزر کے انتہائی کلیدی عہدہ پر فائز) کی مکمل آشیر باد سے ڈائریکٹر Reconciliation ڈپارٹمنٹ کی حیثیت کے باوجود اپنے سابقہ عہدہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے استحقاق کے مطابق ہر ماہ غیر قانونی طور پر اپنے زیر قبضہ سرکاری گاڑی کے لئے 45,000 روپے کے پٹرول، 33,000 روپے ڈرائیور الاؤنس،گاڑی کی مرمت کےلئے 2,500 روپے اور موبائل فون چارجز کی مد میں 2,500 روپے اور دیگر پرکشش الاؤنسز سے لطف اندوز ہو رہی ہے جبکہ اس کی پرکشش تنخواہ 465,521 روپے ماہانہ بتائی جاتی ہے نیوز پیپر ،انٹرٹینمنٹ الاؤنس ، ٹی اے ڈی اے اس کے علاوہ ہیں۔ جبکہ وہ اپنی مرضی سے آفس آتی ہے اور اس کا شمار ای او بی آئی کے فضول (Deadwood) ملازمین میں کیا جاتا ہے ۔
ذرائع کے مطابق عاصمہ عزیز ڈائریکٹر Reconciliation ڈپارٹمنٹ کا اس کے ساتھ 2007 میں مشکوک طریقہ سے بھرتی ہونے والے دیگر بااثر اور بدعنوان افسران محمد ایوب خان سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، 35 ارب روپے کے میگا لینڈ کرپشن اسکینڈل میں برطرف شدہ ڈائریکٹر آصف آزاد، محمد اجمل خان ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل انٹر نل آڈٹ اور بلال عظمت خان ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس اینڈ اکاؤنٹس سے گہری ساز باز ہے جو پس پردہ رہ کر اس کی تمام غیر قانونی سرگرمیوں کی بھرپور سرپرستی کرتے ہیں۔
ای او بی آئی کے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر عاصمہ عزیز ڈائریکٹر Reconciliation ڈپارٹمنٹ کی زبردست لاقانونیت اور پنشن فنڈ میں لوٹ کھسوٹ کی فوری طور پر روک تھام نہیں کی گئی تو خدشہ ہے کہ ای او بی آئی کی یہ انتہائی بااثر اور خائن خاتون افسر 2030 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کو اسی طرح مال مفت دل بے رحم کی طرح گھر بیٹھے بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات سے لطف اندوز ہوتی رہے گی ۔ اس صورت حال میں ای او بی آئی کا اللہ ہی حافظ ہے۔