تحریر: سعد قمر
الشوک و القرنفل (پھول اور کانٹے) داستان ہے ان سرفروشوں کی جو بابرکت زمین کی آزادی کے لیے قابضین و غاصبین سے نبرد آزما ہوئے، ان ایمان فروشوں جو کسی نہ کسی سبب اپنے ہی لوگوں کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوتے ہیں، ان انسانیت سوز مظالم کی جو قابض روا رکھتا ہے، ان شہیدوں کی جو اپنی جان آزادی پہ وار گئے، ان مجاہدوں کی جنہوں نے جہاد سے دشمن پر کاری ضرب لگائی، جن کا نام ہی ان کے لیے دہشت کی علامت بن گیا، اور ایسے ہی کئی ایک کرداروں کی۔
اسرائیلی جیل میں لکھا گیا یہ ناول جہاں حقائق پر مبنی ہے وہیں پر اس میں بیان کردہ واقعات بھی سچے ہیں۔ ابتدا میں جہاں ہمیں کیمپ کی زندگی کی مشکلات سے شناسائی ہوتی ہے وہیں پہ مزاحمت کی روح پروان چڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ محدود وسائل سے زندگی کی گاڑی کو دھکیلنے والے پھر محدود وسائل سے ہی مزاحمت کا علم بلند کیے رکھتے ہیں۔
کتاب میں ہمیں جہاں پر اس سرزمین کی آزادی کے لیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کا پتہ چلتا ہے وہیں ان کے طریقِ کار و نظریات میں اختلاف کا بھی جو بعد ازاں آپسی چپقلش کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے بھائی مختلف تنظیموں سے وابستہ ہوتے ہیں اور گھر میں سیاسی بحث روز کا معمول ہوتی ہے جس میں ہر ایک اپنی تنظیم کے طریقِ کار کی تائید اور دوسرے کے عمل پر تنقید کر رہا ہوتا ہے، اپنے لیے جواز اور دوسرے کے خلاف محاذ۔
کتاب سے ہمیں مزاحمت کی تاریخ سے بھی آگاہی ملتی ہے کہ کیسے مسلح جدوجہد کے حامی مذاکرات کی میز پر قابضین کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے لیے چوتھائی حصے پر راضی ہو جاتے ہیں اور پھر قابض افواج کی حفاظت پر خود کو مامور پاتے ہیں، جن کے لیے مذاکرات انتفاضہ کی وجہ سے ایک مجبوری بن گئی ہوتی ہے اور انہیں ایک آسان راستہ مل جاتا ہے فرار کا۔
مزاحمت کرنے والوں کی جرأت، بہادری، ہمت و جان نثاری دیکھنے کو ملتی ہے کہ کیسے وہ غاصب کو اس کی ہی دوا کا مزہ چکھانے کے لیے اس پر جان کی پروا نہ کرتے ہوئے وار کرتے ہیں اور ایسی ضربیں لگاتے ہیں کہ دشمن کی حالت غیر ہوجاتی ہے۔
کتاب کے ٹائٹل پہ لکھا ہوا جملہ ‘ہر آنکھ کو اشکبار کر دینے والی سوانح حیات’ اب درست نہیں لگتا۔ جن ہولناک مظالم کے مناظر ہم نے سات اکتوبر کے بعد سے اب تک دیکھ رکھے ہیں، دل ان کو دیکھ دیکھ کر ایسے سخت ہو چکے کہ اب کسی مزاحمت کار کے شہید ہونے کا ذکر معمول کی بات ہی لگتی ہے اور آنکھوں سے خراج وصول نہیں کر پاتی۔
مزاحمت کے مخالفین اکثر نام نہاد ‘امن’ کی خاطر موجودہ قبضہ کو تسلیم کرنے کی تلقین کرتے ہیں مگر خود اپنا عمل یہ ہوتا ہے کہ ایک مرلہ زمین کے لیے بھائی تک کے خون سے دریغ نہیں کرتے، چہ جائیکہ صلح رحمی کر کے ‘امن’ قائم کرے۔ جب اپنا عمل یہ ہو تو کس منہ سے کوئی مزاحمت کرنے والوں کو غلط کہا جا سکتا ہے، جن سے ان کی زمین، ان کا گھر، ان کا سائباں، ان کے کھیت، باغ، درخت حتی کہ جینے کا حق تک چھن گیا ہو۔ جس پہ بیتے وہی اس روگ کو جانے ہے۔
یہ کہانی جتنی اہمیت کی حامل ہے اسی اہتمام سے ہی اس کی اشاعت کا بندوبست ہونا چاہیے۔ مترجم نے ترجمہ کر کے اور اریحا والوں نے اسے چھاپ کر ایک مرحلہ طے تو کر لیا مگر ابھی اس کی اشاعت میں کئی نقص ہیں جن کا بہرحال ازالہ ضرور ہونا چاہیئے، ترجمے پہ بھی نظر ثانی ہو، پروف بھی بہتر کیا جائے اور کتاب کی کتابت اور ترتیب کا انداز بھی۔ امید ہے مستقبل میں اس پر کام ہوگا اور یہ کتاب اور اس جیسی سینکڑوں مزید کتابوں سے اردو قارئین کو مستفید کرنے لیے کوششیں ہونگی۔
نوٹ: الرٹ نیوز نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔