تحریر: کنزہ محمد رفیق
کتاب : مرد ابریشم
مصنفہ: بانو قدسیہ
پبلی کیشنز : سنگ میل لاہور
صفحات: 157
صنف : تبصرہ
مصنفہ کا تعارف
اُردو ادب کی بےمثال شخصیت، بانو قدسیہ 28 نومبر 1928ء میں پیدا ہوئیں، 4 فروری 2017ء میں وصال ہوا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی اردو اور پنجابی زبان کی مشہور و معروف ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈراما نویس تھیں۔ ان کی تصانیف میں شہر بےمثال، توجہ کا طالب، آتش زیر پا، امرںیل، مرد ابریشم، دوسرا دروازہ اور راجہ گدھ شامل ہیں۔ ان کتب کے علاؤہ بھی بانو قدسیہ کی متعدد کتابیں موجود ہیں، مگر اپنے وہ شاہکار ناول راجہ گدھ کی وجہ سے خاصی مشہور ہوئیں۔
مرد ابریشم کا مفہوم
مرد ابریشم ایک استعاراتی ترکیب یے۔ یہ اس مرد کے لیے استعمال ہوتی یے، جو بظاہر تو لطیف الطبع، نرم مزاج اور شائستہ ہوتا یے۔ مگر اندرونی طور پر بہت مضبوط اور مستقل مزاجی ہوتا ہے۔
کتاب کا محور
قدرت اللہ شہاب کی جاذب شخصیت اس کتاب کا محور اور مرکز یے۔
شہاب صاحب کا بانو قدسیہ کے نصف بہتر کے ساتھ روح کا بندھن تھا، وہ اشفاق احمد کو اپنا خلیفہ مانتے تھے، اشفاق احمد اور قدرت اللہ شہاب کی دوستی افریقہ کا وہ پھول ہے جو کلے من جارو کے پہاڑ پر اگتا ہے اور جونہی کوئی ذی روح پاس آ جائے تو معمولی پتے کی شکل اختیار کر لیتا یے۔ شہاب اور اشفاق احمد لوگوں کے سامنے اجنبی تھے۔ مگر جب وہ تنہا ہوتے تو اپنے اپنے سیف کی چابیاں لگا کر وہ مال و متاع ضرور ایک دوسرے کو دکھاتے جنہیں انہوں نے عام لوگوں کی نظروں سے بچا رکھا تھا۔
کتاب پر تبصرہ
"فرانز کافکا نے اپنے ناول The Castle میں کہا تھا کہ ایک کتاب وہ کلہاڑی ہونی چاہیے جو ہم میں جمے ہوئے سمندر کو توڑ دے۔ "
بانو قدسیہ کی اس کتاب نے اپنی ذات میں جمی اور پوشیدہ انا اور تکبر کے بت کو پاش پاش کر دیا۔ قدرت اللّٰہ شہاب جیسے مرد ابریشم کی قربت میں رہ کر ہر شخص آدمی سے انسان بن جاتا تھا۔
بانو قدسیہ کی اس کتاب کا اساسی موضوع ” قدرت اللہ شہاب” ہیں۔
قدرت اللہ شہاب اشفاق احمد کے قریبی ساتھی تھی، وہ متقی، پرہیزگار اور بےضرر انسان تھے۔ وہ دنیا میں رہ کر بھی دنیا کے طلب گار نہیں تھے۔
انا، تکبر، حسد،جلن، بغض اور کینہ جیسی مہلک بیماریاں ان کے دل میں اپنا مسکن نہ بنا سکیں، وہ آئی سی ایس آفسر بن کر بھی عام لوگوں کی طرح زندگی بسر کرتے رہے۔ ان کا وجود خوف اور حزن سے پاک تھا۔ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد اپنے تینوں بیٹوں کے ہمراہ اپنا زیادہ تر وقت شہاب صاحب کی صحبت میں بسر کرتے۔ کیوں کہ ان کی دعائیں سریع التاثیر تھیں۔
اشفاق احمد کے دونوں بڑے بیٹوں کی شادی کے بعد انیق خان کی بیوی غزل اور انیس خان کی بیوی ثویلہ بھی سبھی گھر والوں کی طرح اپنا زیادہ وقت قدرت شہاب صاحب کے ساتھ گزارتیں، اور یوں سوالات اور جوابات میں ان سب کی تربیت ہوجاتی تھی۔
واصف علی واصف نے کہا ہے:
” غصّہ ایسا شیر یے جو تمہارے مستقبل کو بکرا بنا کر کھا جاتا یے۔”
غصّہ کے بارے میں میری رائے
"میری نزدیک غصہ انسان کو کسی بھی کام کو سر انجام دینے کے قابل نہیں چھوڑتا، یہی اشتعال انگیزی انسان کو ذہنی امراض میں مبتلا کر دیتی یے۔”
اشفاق احمد کے منجھلے بیٹے انیس خان نے قدرت شہاب سے غصہ کی بابت سوال کیا۔
شہاب چچا غصّہ کو دور کرنے کی کوئی ترکیب بتائیں۔
شہاب صاحب کا مدبرانہ جواب ملاحظہ کیجیے۔
” غصہ دراصل آنا ہی نہیں چاہیے، اگر آپ واقعات، حالات، اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنے اندر سے گزر جانے دیں جیسے پانی چھلنی میں سے گزر جاتا یے تو بہت جلد ایسی عادت بن جائے گی کہ غصہ کم ہی آئے گا۔ لیکن شہاب چچا ہمارے اندر تو جب کسی بات پر غصہ چڑھ جائے تو گزرتا ہی نہیں۔ غزل بولی۔
( غزل اشفاق احمد کے بڑے بیٹے انیق خان کی بیوی تھی.)
مثال کے طور پر کسی نے کچھ کہا تو اب اس بات پر ری ایکشن فورم نہیں کرنا۔ بس بات آئے اور گزر جائے۔ مشکل ساری یہی ہے کہ آپ ردعمل کے طور کچھ کہنا چاہیں گے یاتو جواب دینا چاہیں گے۔ ان دونوں چیزوں سے پرہیز کرنا یے۔ بات آئے بری لگی لیکن Let it pass۔
"بڑا مشکل ہے۔۔۔۔ شہاب چچا ” انیق خان بولا۔
ہاں مشکل ہے لیکن زیادہ نہیں تھوڑی سے مشق سے غصہ قابو میں آ جاتا یے۔ شروع میں آپ صرف برے عمل سے بچیں۔۔۔ مثلا غصہ میں پلیٹ نہ توڑیں، کسی کو فون نہ کریں، تھپڑ نہ ماریں اور ہاتھ نہ چلائیں۔ "
ثویلہ نے اپنی شہد رنگی آنکھیں حیرت سے کھول کر پوچھا۔۔ ( ثویلہ انیس خان کی بیوی تھی)
” پر وہ کیسے شہاب چچا؟ ناممکن۔۔۔۔”
پہلے پہل تو صرف ہاتھوں کو قابو میں رکھو۔ رفتہ رفتہ زبان کو کنٹرول میں رکھو۔ اس کے بعد اندر کے خیالات کی باری آئے گی۔ اندر سوچ بھی غصہ والی نہ رکھیں۔ جب آپ واقعات، گفتگو، حادثات کو پاس کرنے کی اجازت دیں گے تو زیادہ دیر نہیں گزرے گی اور آپ کی اتنی پریکٹس ہو جائے گی کہ اول تو عام باتوں پر غصہ آئے گا نہیں۔ پھر آہستہ۔۔۔۔آہستہ آہستہ خاص باتوں پر بھی انا مجروح نہیں ہوگی۔ اس سے آگے ایک وقت ایسا آئے گا جب غصہ انا کی وجہ سے آئے گا ہی نہیں۔ "
قدرت اللہ شہاب کی صحبت جو بھی بیٹھتا، اپنے شخصیت نکھار کر ہی وہاں سے اٹھتا، وہاں سے فیضیاب ہوکر روانہ ہوتا۔ اور نیم میلے سے نیم اجلا ہو جاتا۔
ان کے ساتھ وقت گزارنے والوں کے دل کی یہی آواز ہوتی۔
” مجھے اپنے رنگ میں رنگ لو
میرے سارےــــــــ زنگ اتار دو”
خوف کے بارے میں میرا نقطہ نظر
خوف کیا ہے؟
” خوف زندگی کے سبھی رنگوں کو دھندلا دیتا ہے، وہ انسان کو نگاہ خفاش دان کر کے زندگی کے سبھی حقائق نگل جاتا ہے، یوں انسان کی پوری شخصیت مسمار ہو جاتی یے۔ اور یہی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے۔
خوف کبھی بھی انسان کو بے محابا کچھ کہنے اور کرنے نہیں دیتا۔
اسی خوف کے سبب آدمی آدمیت کے درجے سے انسان کے درجے پر فائز نہیں ہوتا۔ کیوں کہ آدمی کو انسان بننے میں محنت درکار ہوتی ہے۔ غالب نے تبھی تو کہا ہے :
” آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا "
خوف کے بارے میں بانو آپا کا نظریہ ملاحظہ کیجیے:
” خوف کا ذائقہ زبان، آنکھ اور دل میں ہمیشہ رہتا ہے، اس کے ہاتھوں تنگ آکر انسان خوشامدی، ڈرپوک، بزدل، جھوٹا، جھینپو ہوجاتا یے۔ خوف ناصرف شخصیت کو کھا جاتا ہے۔۔۔ بلکہ ایمان اور روح بھی اس زد میں رہ کر مؤسم زدہ لکڑی کی طرح کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔”
بانو قدسیہ نے یہ بات محسوس کر لی تھی قدرت اللہ شہاب کے دل میں ہم لوگوں کی طرح متزلزل ایمان نہیں ہے، بلکہ ان کے دل میں پختہ ایماں بسا ہوا ہے۔ وہ مستحکم ایمان اور یقین ان کی روح کی سرشاری کے لیے کافی تھا۔ اور وہ ساری عمر یہی پختہ ایمان اپنے گردا گرد لوگوں کے قلوب میں پیدا کرنے کی سعی کرتے رہے۔ کیوں کہ ان کا دل اللّٰہ کی یاد اور اس کی محبت سے روشن تھا۔ اور وہ اللہ کی ربوبیت کے قائل تھے۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
*لکھتا ہے وہی ہر بشر کی تقدیر*
*وَالـلّٰـہُ عَـلٰی کُـلِّ شَـیْـئٍ قَـدِیْــرٌ*
*جس کے تابع ہیں جنّات و انسان*
*فَـبِــأَيِّ آلَاء رَبِّــكُــمَــا تُــكَــذِّبَــان*
*ابــتــدا ہے وہـی اور وہـی انــتــہــا*
*وَتُـعِـزُّ مـن تـشـاء وَتُـذِلُّ مـن تـشـاء*
*تنہائی میں بھی رہو گناہ سے دور*
*ﻭَﺍﻟــﻠَّــﻪُ ﻋَــﻠِــﻴــﻢٌ ﺑِـﺬَﺍﺕِ ﺍﻟــﺼُّــﺪُﻭﺭِ*
*ہے تجھکو بس طلب کی جوت*
*کُــلُّ نَــفْــسٍ ذَائــقــة الْــمَــوْتِ*
*انساں کو ہے لاحاصل کا جنون*
*قَـــدۡ أَفۡـــلَـــحَ ٱلۡـــمُـــؤۡمِـــنُـــونَ*
*غیب سے نکال دیتا ہے وہ سبیل*
*حَـسْـبُـنَـا الـلَّـهُ وَنِــعْــمَ الْـوَكِـيـلُ*
*ہر ایک کو دیتا ہے صلہ بہترین*
*إِنَّ الـــلَّـــهَ مَـــعَ الــصَّــابِــرِيــنَ*
*ا سی سے مانگو وہ ہے بڑا کریم*
*فَـــاِنَّ الــلّٰــهَ غَــفُــوْرٌ رَّحِــیْــمٌ*
*تخلیقِ انسانی کا ہے مقصد*
*قُــــلْ هُــــوَ الـــلّٰـــهُ اَحَــــدٌ*
*اسی کی رضـا میں ہے سـکـون*
*فَـإِنَّـمَـا يَـقُـولُ لَـهُ كُـن فَـيَـكُـونُ*۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
بچپن میں بانو آپا اپنی اماں سے اکثر سوال کرتی تھی۔
” اماں گزر گیا ” کیا ہوتا یے ؟
میری سہیلیاں کہتی ہیں میرا ابا گزر گیا۔
ان کی بھولی اماں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں چل کر بتاتیں یہ گزر جانا ہوتا یے۔
قدرت اللہ شہاب کے دنیا سے رخصت ہو جانے پر انہیں اپنے سوال کا جواب پچاس سالوں بعد ملا کہ گزر جانا کیا ہوتا یے؟
گزر جانا ایسا ہوتا یے کہ روح پر خراں کا موسم چھا جاتا یے اور بہاریں روٹھ جاتی ہیں۔
قدرت شہاب کے وصال پر سب کے دل رو رہے تھے اور آنکھیں اشکبار تھیں۔ روح کے ساتھی کی فرقت نے اشفاق احمد کو اندونی طور پر توڑ دیا تھا۔ وہاں موجود ہر ایک شخص خالی چہرہ لیے پھر رہا تھا۔
"وہ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارےــــــــــــــ شہر کو ویران کر گیا "
نوٹ: الرٹ نیوز نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔