بدھ, نومبر 20, 2024

غلام رسول مہرؔ – اردو ادب کا درخشاں ستارہ

16 نومبر اردو ادب اور صحافت کی تاریخ میں ایک ایسے عظیم شخص کی یاد دلاتا ہے جس نے اپنی علمی، ادبی، اور تحقیقی خدمات سے ایک لازوال ورثہ چھوڑا۔ مولانا غلام رسول مہرؔ کا شمار ان چند نابغۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو علم، تحقیق، اور ادب کے لیے وقف کیا۔

غلام رسول مہرؔ 15 اپریل 1895ء کو جالندھر کے ایک چھوٹے گاؤں پھول پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی ایک عام دیہاتی ماحول میں گزری، لیکن علم و ادب سے ان کا لگاؤ انہیں دور دراز علاقوں میں لے گیا۔ اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، لیکن ان کی علمی پیاس کبھی ختم نہ ہوئی۔

غلام رسول مہر نے اپنے کیریئر کا آغاز صحافت سے کیا۔ ان کی تحریروں نے جلد ہی انہیں عوامی مقبولیت اور عزت دلائی۔ انہوں نے مشہور اخبار زمیندار میں اپنے قلم کا لوہا منوایا۔ بعد ازاں، عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انہوں نے انقلاب اخبار کا آغاز کیا، جو اس دور کے اہم ترین اخبارات میں سے ایک تھا۔ 1949ء تک انقلاب سے وابستگی کے دوران انہوں نے سیاسی، سماجی، اور ادبی مسائل پر روشنی ڈالی اور اپنی گہری بصیرت سے قارئین کو متاثر کیا۔

غلام رسول مہر نے اردو ادب کے دامن کو نہایت اہم اور معیاری تخلیقات سے مالا مال کیا۔ ان کی تصانیف میں سیاست، تاریخ، اسلامی علوم، اور تہذیب و تمدن جیسے موضوعات نمایاں ہیں۔ ان کی چند مشہور کتابیں یہ ہیں:

  • تبرکاتِ آزاد
  • غالب
  • راہ نمائے کتاب داری
  • تاریخِ عالم
  • اسلامی مملکت و حکومت
  • تاریخِ شام

انہوں نے اردو ادب میں نہ صرف نئی راہیں متعارف کروائیں بلکہ اپنی تحریروں میں زبان و بیان کی خوبصورتی، استدلال کی پختگی، اور فکری گہرائی کا ایسا امتزاج پیش کیا جو ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔

مولانا مہر کی شخصیت اپنے آپ میں ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا تھی۔ وہ نہ صرف اپنے علم و فضل کے لیے جانے جاتے تھے بلکہ ان کے ذاتی رویے اور دلچسپ طرزِ گفتگو بھی ان کی شخصیت کا حصہ تھے۔ ممتاز ادیب انتظار حسین نے اپنی کتاب بوند بوند میں ان کے علم دوست رویے اور روزمرہ کے واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ ایک واقعہ کے مطابق، انہوں نے اپنی اہلیہ کو عربی کا لفظ "جاہل” سمجھاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی گالی نہیں بلکہ صرف "بے خبر” کے معنی رکھتا ہے۔

غلام رسول مہر نے اپنی پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے اردو ادب کا ہر قاری ان کے لیے دل سے دعائیں کرتا ہے۔ 16 نومبر 1971ء کو وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور لاہور کے مسلم ٹاؤن قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔

مولانا مہر کی تحریریں اور خیالات آج بھی علم و ادب کے متلاشیوں کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ ان کے تحریری خزانے نے اردو ادب کو وہ بنیادیں فراہم کیں جو نسلوں تک قائم رہیں گی۔

غلام رسول مہر اردو ادب کا وہ روشن ستارہ ہیں جو ہمیشہ اپنی روشنی بکھیرتا رہے گا۔ ان کی تحریریں، افکار، اور علمی کاوشیں نہ صرف ماضی کی یادگار ہیں بلکہ حال اور مستقبل کے لیے ایک مشعلِ راہ بھی ہیں۔ ان کی برسی کے موقع پر ہمیں ان کے علمی ورثے سے سبق لینا چاہیے اور اردو ادب کی خدمت کے لیے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کا عزم کرنا چاہیے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں