جامعہ حقانیہ سے نکلنے کے بعد عزیزم مولانا ایاز حقانی صاحب کی رہبری میں اپنی اگلی منزل جی ٹی روڈ پر ہی واقع مدرسہ تحسین القرآن پہنچے ، اس ادارے میں تعمیر شدہ عالیشان مسجد اور عمارت دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی عام اور معمولی ادارہ نہیں، ادارے کے ناظم مولانا انعام الرحمن شانگلوی صاحب نے ہمارا پرتباک استقبال کیا، مولانا شانگلوی سے ہماری پرانی یاد اللہ ہے وہ ایک انتہائی قابل و ذہین صاحب علم و کمال شخصیت کے مالک ہیں، دینی و عصری علوم پر یکساں دسترس رکھتے ہیں اور منتظم ایسے کہ ان کے حسن انتظام کی جھلک ادارے کے ہر ہر شعبے میں خوب نظر آ رہی تھی، انہوں نے وفد کے شرکاء کو ادارے کے تمام شعبہ جات کا تفصیلی تعارف اور وزٹ کروایا، تعلیمی نظام کی خصوصیات کا ذکر کیا۔
مسجد کے مین ہال میں شعبہ تجوید کے طلباء بڑے سلیقے سے بیٹھے پڑھائی میں مشغول تھے جبکہ بیسمنٹ کا وسیع و عریض ہال شعبہ حفظ کے طلباء سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ان ننھے طلباء کی کلاسوں کا منظر بہت ہی حسین اور دلکش تھا ،شعبہ تجوید اور حفظ کے نگران حضرات نے ادارے کی نظم کے حوالے سے شرکاء کو بریفنگ دی ،روزانہ مرتب ہونے والی رپورٹس دکھائیں، سبق، سبقی، منزل سمیت نوافل میں قرآن کریم سنانے کی ترتیب بہت ہی لائق تحسین ہے۔
ادارے کے دفتر اہتمام میں وفد کے اراکین کے لیے پرتکلف عصرانے کا انتظام کیا گیا تھا، چائے کے دوران ہی ادارے کے بانی و مہتمم مولانا قاری محمد عمر علی المدنی صاحب تشریف لے آئے،جو کافی وقت سے ہمارے انتظار میں تھے اور ہماری وجہ سے بہت اہم پروگرام میں شرکت سے بھی معذرت کر چکے تھے ،قاری صاحب سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی ،سبحان اللہ، کیا شخصیت ہیں اور قرآن کریم کے ساتھ ان کا کیا عشق و محبت کا تعلق ہے، ان کی ایمان افروز باتیں سن کر پہلے ملاقات نہ ہونے پر افسوس ہونے لگا،انہوں نے مدینہ منورہ کے ایک بزرگ استاد الشیخ عبدالرحیم بن محمد الحافظ العلمی کو مسجد نبوی میں پورا قرآن کریم سنایا اور ان سے روایت حفص میں اجازت کے بعد خدمت قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا تو اللہ تعالٰی نے قبولیت تامہ و عامہ عطا فرما دی ،ملک بھر میں ان کے شاگردوں اور ادارے کی شاخوں کا سلسلہ خوب پھلنے پھولنےلگا ،خاص کر طالبات اور خواتین میں یہ سلسلہ خوب پھیلا، ادارے کی فروعات سینکڑوں سے ہزاروں تک پہنچ گئیں، سالانہ پندرہ دن کے تربیتی کورس کا آغاز کیا تو سینکڑوں معلمین و معلمات نے استفادہ کیا،حضرت قاری صاحب نے اکابر کی دعاؤں، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سمیت دیگر مشائخ کے ادارے کے ساتھ تعلق کا بڑی محبت سے تذکرہ کیا مختلف اکابر کے تاثرات پر مشتمل ایک رسالہ بھی شائع کیا،انہوں نے قرآن کریم کو درست تلفظ کے ساتھ پڑھنے اور پڑھانے کی محنت کرنے پر زور دیا اور علمائے کرام کو اس میدان میں خوب ذوق و شوق سے کام کرنے کی ترغیب دی۔
ہماری درخواست پر حضرت نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن کریم کی ایک آیت اور دعا تمام علمائے کرام کو پڑھا کر حضرت شیخ عبدالرحیم العلمی کی عالی سند کے ساتھ اجازت بھی مرحمت فرمائی نیز اسلام آباد میں شعبہ حفظ کے مدرسین اور معلمات کے لیے ایک پندرہ روزہ کورس کروانے کی بھی ہامی بھری، حضرت قاری محمد عمر علی المدنی صاحب کی یہ پرنور مجلس چھوڑنے کا جی تو نہیں چاہ رہا تھا مگر وقت کی تنگی کی فکر دامن گیر تھی اور آگے بھی اور ساتھی انتظار میں تھے لہذا بادل نخواستہ مجلس برخاست کی اور اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
جاری ہے ۔۔۔۔