13 نومبر 1918 وہ دن ہے جب اتحادی افواج نے استنبول (جسے اس وقت قسطنطنیہ کہا جاتا تھا) پر قبضہ کر لیا، جس نے سلطنت عثمانیہ اور عالمی تاریخ میں ایک اہم باب رقم کیا۔
13 نومبر 1918 کو برطانوی، فرانسیسی اور اطالوی اتحادی افواج نے استنبول میں قدم رکھا، جس نے صدیوں تک مسلسل عثمانی کنٹرول کے اختتام کی علامت بنائی۔ یہ واقعہ، جو پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے صرف چند دن بعد پیش آیا، اس خطے اور دنیا میں تبدیلی کے ایک سلسلے کو جنم دینے والا ایک بڑا لمحہ تھا۔
پس منظر:
سلطنت عثمانیہ، جو پہلی جنگ عظیم میں مرکزی طاقتوں کا حصہ تھی، 1918 تک مختلف محاذوں پر ناقابل برداشت نقصانات کا سامنا کر رہی تھی۔ سلطنت نے اپنے وسیع علاقوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے کوششیں کیں جبکہ اندرونی مسائل اور بغاوتوں سے بھی نبرد آزما رہی۔ مرکزی طاقتوں کی شکست کے ساتھ، عثمانیوں کے پاس امن کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا، اور 30 اکتوبر 1918 کو انہوں نے اتحادی افواج کے ساتھ مدروس کے معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ نہ صرف دشمنی کے خاتمے کی علامت تھی بلکہ اس نے اتحادی افواج کو اہم عثمانی شہروں، بشمول استنبول پر قبضہ کرنے کا راستہ فراہم کیا۔
13 نومبر 1918:
13 نومبر 1918 کو اتحادی افواج استنبول پہنچیں، جس میں برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے دستے شامل تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب سلطان محمد فاتح نے مئی 1453 میں شہر کو فتح کرنے کے بعد سے عثمانیوں نے اپنے دارالحکومت پر کنٹرول کھو دیا۔ استنبول، جو عثمانی ورثے اور اسلامی ثقافت کا اہم مرکز تھا، اب غیر ملکی افواج کے قبضے میں تھا، جو سلطنت کے زوال کی گہری علامت تھا۔
اتحادی افواج نے اس قبضے کو امن اور معاہدے کی شرائط کی نگرانی کے جواز کے طور پر پیش کیا۔ تاہم، اس قبضے نے عثمانی عوام پر گہرا نفسیاتی اثر ڈالا، اور استنبول سے جڑی قومی فخر اور شناخت کو چیلنج کیا۔
معاہدہ لوزان اور قبضے کا خاتمہ
استنبول پر قبضہ تقریباً پانچ سال تک جاری رہا، جو نومبر 1918 سے اکتوبر 1923 تک پھیلا، اس دور میں خطے کی تاریخ میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ یہ بالآخر ترک جنگِ آزادی اور سفارتی مذاکرات کے بعد تھا کہ ایک پائیدار امن قائم ہوا۔
24 جولائی 1923 کو نئی ابھرتی ہوئی ترک جمہوریہ اور اتحادی افواج کے نمائندوں نے سوئٹزرلینڈ میں معاہدہ لوزان پر دستخط کیے، جس نے باضابطہ طور پر قبضے کا خاتمہ کر دیا۔ اس معاہدے نے نہ صرف استنبول پر ترک حاکمیت کی تصدیق کی بلکہ جدید ترک ریاست کی حدود کا تعین بھی کیا۔ آخری اتحادی فوجیں اکتوبر 1923 میں استنبول سے روانہ ہوئیں، جس کے بعد 29 اکتوبر 1923 کو باضابطہ طور پر جمہوریہ ترکی کا قیام عمل میں آیا۔
استنبول کی علامتی اہمیت:
سلطان محمد فاتح نے 1453 میں جب سے استنبول فتح کیا تھا، تب سے یہ شہر عثمانیوں کے لیے بے پناہ علامتی اور اسٹریٹیجک اہمیت رکھتا تھا، جس میں ان کی طاقت، ثقافتی ورثہ اور اسلامی دنیا میں سیاسی مرکزیت جھلکتی تھی۔ شہر نے بیزنطینی قلعے سے عثمانی سلطنت کے مرکز اور دنیا کے ایک اہم ثقافتی دارالحکومت میں تبدیل ہو گیا تھا۔ تاہم، 1918 میں اتحادی افواج کی آمد کے ساتھ، یہ وراثت بے مثال چیلنجز کا سامنا کرنے لگی، جب عثمانیوں نے اپنی تاریخی دارالحکومت پر اپنا کنٹرول کھو دیا۔
قبضے کے اس دور نے نہ صرف غیر ملکی کنٹرول کے نفاذ کو دکھایا بلکہ ترکی کے اندر قوم پرستانہ جذبات کے ابھرنے کو بھی فروغ دیا۔ مصطفیٰ کمال اتاترک اور دیگر قوم پرست رہنماؤں نے ترک حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لیے تحریک شروع کی، جس نے آخر کار ترک جنگِ آزادی کی شکل اختیار کی۔ یہ مزاحمتی تحریک ترک جمہوریہ کے قیام کی راہ ہموار کرنے والی ثابت ہوئی، جس سے عثمانی حکمرانی سے ترکی کی نئی حکومت میں بڑی تبدیلی کا اشارہ ملا۔
جدید ترک تاریخ میں اتحادی قبضے کی میراث
استنبول پر اتحادی قبضہ جدید ترک تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے۔ اس نے عثمانی سلطنت کی آخری سالوں میں اس کی کمزوریوں کو اجاگر کیا جبکہ ترکی میں اس کے قیام میں ترک قوم پرستی کی تحریک کو بھی جنم دیا۔ ترک عوام کے لیے، معاہدہ لوزان نہ صرف استنبول پر غیر ملکی کنٹرول کے خاتمے کی علامت تھا بلکہ ان کی قومی شناخت کے ایک نئے باب کا آغاز بھی تھا۔
13 نومبر 1918 اور اس کے بعد کے واقعات پر غور کرتے ہوئے، یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ استنبول پر قبضہ ایک سیاسی اور علامتی نقطہ نظر سے ایک تبدیلی کا لمحہ تھا۔ یہ ایک دور کے اختتام اور دوسرے کے آغاز کی علامت تھا، جیسے ترکی عثمانی سلطنت کے خاتمے سے ابھر کر اتاترک کی قیادت میں ایک جمہوریہ بن گیا۔ یہ باب استنبول کی پائیدار اہمیت اور ترک قوم کی شناخت اور مستقبل کو تشکیل دینے میں اس کے کردار کی ایک طاقتور یاد دہانی کے طور پر موجود ہے۔