ادب فیسٹول ثقافتی تنوع اور ادبی جدت طرازی کیساتھ اختتام پذیر
کراچی (مرزا افتخار بیگ): ہیبٹ سٹی کراچی میں ملک کے سب سے بڑا ادبی پروگرام”ادب فیسٹول "کے آٹھویں ایڈیشن کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ملک کے مشہور و معر وف مقررین، مفکرین اور فنکاروں کی بڑی تعداد نے پاکستان کے ادبی اور ثقافتی ورثے کے بارے میں بصیرت افروز مباحثوں، پرفارمنسز اور تقریبات میں حصہ لیا۔
تقریب کا آغاز گریپس تھیٹر کے خالد انعم کے ایک انتہائی تفریحی ڈرامے "ان فٹ بال ہے دنیا میرے آگے” سے ہوا، جسے بچوں اور بڑوں نے یکساں طور پر پسند کیا۔ بعدازاں حسب دستور افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس میں امینہ سید، مونس عبداللہ، شعیب ارشد اور ادب فیسٹیول کے شراکت داروں نے متاثر کن تقاریر کیں۔ اردو، سندھی اور انگریزی ادبی تخلیقات کے لیے ادب فیسٹیول/ انفاق فاونڈیشن لٹریری ایوارڈز کا انعقاد کیا گیا، جس میں تینوں مذکورہ زبانوں کی بہترین تخلیقات کو تسلیم کیا گیا۔اریب اظہر کی خصوصی میوزیکل پرفارمنس نے تقریب کو چار چاند لگادیئے ۔
اس موقع پاکستان کی زرعی صلاحیت اور ثقافتی ورثے سے لے کر سماجی انصاف، حقوق نسواں اور تعلیم کے مسائل تک کے موضوعات کا احاطہ کرنے والے فکر انگیز سیشنز کا انعقاد بھی عمل میں آیا۔
دن کے پہلے سیشن کے کا آغاز مفتاح اسماعیل نے عمیر عزیز سید سے معاشیات اور گورننس کے موضوع پر مباحثے سے ہوا۔ اس کے بعد "جناح ز وژن ری وزیٹڈ:پاکستان ایٹ77 "کے موضوع پر ایک دلچسپ گفتگو ہوئی جس میں یاسر لطیف ہمدانی، محمد علی شیخ، علی عثمان قاسمی اور نگران سیدہ ماہم زہرہ نے پاکستان کے سفر کا جائزہ لیا۔
دن کا اگلا سیشن سائنس، آرٹ اور ورثہ ایک انتہائی شاندار سیشن تھا جس میں ڈاکٹر عابد چودھری نے سائنس اور ثقافتی شناخت کا جائزہ لیا اور اس کے ساتھ ساتھ نثر، نظم اور نیا دور پر ایک سیشن منعقد ہوا جس میںناظم ارسلان میرانی مقررین ثانی سید، سید جعفر احمد اور عمرانہ مقصود نے شرکت کی۔
پاکستان کی زرعی صلاحیت میں اضافے کے حوالے سے ایک تنقیدی بحث کی گئی ۔ پینلسٹ سید نوید حسین، فیصل جہانگیر ملک، ڈاکٹر عابد چوہدری اور خرم شہزاد کی جانب سے پائیدار ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پاکستان کی زرعی صلاحیت پر بات کی گئی۔عائشہ سروری کی تصنیف”ہارٹ ٹینٹرمز: اے فیمنسٹز میموری آن میسوجنی اینڈ میرج”پر منعقد ہونے والے ایک متوازی سیشن میں مصنفہ عائشہ سروری نے ماریہ میمن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے خواتین کو درپیش چیلنجز اور صنفی مساوات کے لیے کی جانے والی جدوجہد پر روشنی ڈالی۔
”
ایجوکیٹنگ پاکستان سکیس اسٹوریز اینڈ بیسٹ پریکٹسز” کے عنوان سے منعقدہ مباحثے کے پینل میں ماہرین تعلیم اورایکٹوسٹ نسرین اقبال، انجم ہلالی، محمد علی شیخ، محمد حسن خان اور منتظم شعیب ارشد شامل تھے جنہوں نے پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کی فوری ضرورت پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ معروف انٹرنسٹ اور اینڈوکرائنولوجسٹ، استاد اور مصنفہ ایمریٹس پروفیسر تسنیم احسن کی کتاب "دی پاتھ آئی میڈ” کو متعارف کرایا گیا جس میں مصنفہ نے ڈاکٹر ہما بقائی ،عافیہ سلام اور ڈاکٹر سعدیہ پال کے ساتھ ایک فکر انگیز سیشن منعقد کیا۔
فیسٹیول میں "سندھ کی صوفی روح، شاہ عبدالطیف کی لازوال کشش” کے عنوان سے ایک شاندار سیشن منعقد ہوا اور میوزیکل پرفارمنس بھی پیش کی گئی جس میں سیف سمیجو، ڈاکٹر سحر گل، مہتاب راشدی اورمنتظم نورالہدیٰ شاہ نے موسیقی، شاعری اور کہانی کے ذریعے سندھ کی امیر صوفی روایات پر روشنی ڈالتے ہوئے پاکستان کے روحانی ورثے کی ایک منفرد دریافت پیش کی۔ دریں اثنا "فن ٹیک، بزنس ، ریگولیٹری ریکوائرنمنٹس اینڈ ٹرینڈ آف الیکٹرانکس فراڈ کے رجحانات” پر ایک پینل مباحثہ منعقد ہوا جس میں ماہرین سراج الدین عزیز،سید نوید حسین اور نگراں نورین حیات شامل تھے۔
علی کے چشتی نے "دی اسٹوری آف کراچی” کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں واجد اصفہانی سے کراچی کی تبدیلی،سیاسی معیشت اور تاریک رازوں پر سے پردہ اٹھایا بعد ازاں فرقان ٹی صدیقی نے علی کے چشتی کے ساتھ کراچی کے کھانوں کی تاریخ پر دلچسپ گفتگو کی۔ اس کے ساتھ ہی "فرام بیوروکریسی ٹو بیسٹ سیلر: ان کنورسیشن ود دی لیجنڈ سلمان فاروقی اباﺅٹ لائف لیسن اینڈ کیرئیر ایڈوائس” کے عنوان سے سیشن ہوا جس میں طالب علم جواد خان، رابعہ ناصر، عواب امام اور عمر خان نے سلمان فاروقی سے گفتگو کی۔
اگلا سیشن عمر شاہد حامد کی تازہ ترین کتاب "دی الیکشن” کی رونمائی پر مشتمل تھا جسے (مصنف اور ناشر)سفینہ دانش الٰہی اور (مصنف )طلحہ کیہر نے پیش کیا۔
فیسٹول کا اختتام انور مقصود کی مخصوص طنز و مزاح پر مشتمل گفتگو پر ہوا جس کے بعد اریب اظہر نے میوزیکل پرفارمنس پیش کی۔
یاد رہے کہ ادب فیسٹیول کی بنیاد امینہ سید اور آصف فرخی نے مشترکہ طور پر رکھی۔ امینہ سید نے اب سال میں کم از کم چار ایسی تقریبات کی میزبانی کرنے کاعزم کرتے ہوئے مزید زاویوں اور جہتوں کو اکٹھا کرکے پاکستا ن کے قیمتی ادبی ورثے کو اجاگر کرنے کا اعادہ کیا ہے جس سے ادب فیسٹیول کے ثقافت ، ادب اور دانشورانہ مکالمے کو فروغ حاصل ہوگا۔