اتوار, دسمبر 22, 2024

خوفناک عمارت

تحریر: فراز علی حیدری

"ابنِ صفی کی عمران سیریز کا پہلا شہرہ آفاق ناول”

سنہ 1956 کی ایک سہانی صبح لائبریریوں اور بک اسٹال ز پر ایک نئے ناول کا اضافہ ہوا ، جس کا نام خوفناک عمارت رکھا گیا تھا ۔ یہ ناول برصغیر کے اُبھرتے ہوئے نوجوان مصنف اور جاسوسی ناول نگار اسرار احمد المعروف ابنِ صفی نے علی عمران کا ایک نیا اور منفرد کردار تخلیق کرنے کے لئے لکھا تھا ۔اس سے قبل ابنِ صفی جاسوسی دنیا کے نام ناول ز لکھ کر سرحد کی دونوں طرف اپنا لوہا منوا چکے تھے ، انہوں نے کرنل فریدی اور کیپٹن حمید کا کردار متعارف کروایا تھا جو کہ صاف ستھرے ادبی لٹریچر پڑھنے والے افراد نے بے حد پسند کیا تھا ۔ اب انہوں نے علی عمران کی شکل میں ایک نیا کردار متعارف کروانے کا اعلان کیا تھا جس کے پہلے ناول کا ابنِ صفی کے قارئین کو بے حد انتظار تھا ۔ حسبِ توقع یہ ناول اور کردار ابنِ صفی کے پرستاروں نے بے حد پسند کیا اور اس پر باقاعدہ عمران سیریز لکھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ اس عمران کے پہلے ناول پر تبصرہ لکھنے کی جسارت کر رھا ھوں ، یاد رہے اس وقت عمران نہ ایکسٹو تھا نہ ھی کسی کلیدی عہدے پرفائز تھا بلکہ عام سا نوجوان تھا ۔ بعد ازاں اس نوجوان کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولا کہ آج تک اس کے جادو کا کوئی علاج دریافت نہیں
ہوا ۔ اب آتے ہیں ناول کی طرف !!

ناول شروع ہوتے ہی عمران کی ٹائی میں پھنسی گردن ،،، اف سوری ، گردن میں پھنسی ٹائی اوراپنی جان پر کھیل کر عمران کی جان بچانے والے قبلہ حکیم سلیمان صاحب کی چالاک شخصیت اور عمران اور سیلمان کے مابین ھونے والی گفتگو سے کچھ ایسا منظر نامہ تخلیق ھورہا تھا کہ ایک بھولا بھالا سا 27 سالہ نوجوان ایک چالاک نوکر کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے ، بے چارے عمران کو نوکر حضرات خوب چونا لگا لگا کر اس کی صورت گوری اور جیب خالی کرتے جارہے تھے ۔ کبھی نوکر اس کی جیب سے دس دس روپے کی نوٹ پار کرلیتے (واضح رہے اس وقت 10 روپے کی ویلیو آج کے قریبا 1000 روپے جتنی تھی)، کبھی سلیمان اس کے سینے پر اپنے لئے مہنگا ترین کپڑا منگوانے کا نوٹ چپکادیتا ، خیر آگے عمران کی اکلوتی بہن محترمہ ثریا صاحبہ اور انجناب کی چچا زاد بہنوں اور سہیلیوں میں نوک جھونک سے لطف دوبالا کردیا۔
اچانک محکمہ سراغ رسانی کے سپرنٹیڈنٹ سوپر فیاض کی آمد اور عمران کو اپنے ساتھ لے جانے سے سسپنس کی ابتداء ھوگئی ، راستے میں موٹر سائیکل پر رمران کی مضحکہ خیز حرکات اور فیاض کی بوکھلاہٹوں نے ھنسی کی ایسی بارش برسائی کہ ہنس ہنس کر پیٹ میں درد ہوگیا ۔

عمران کے ماضی اور حال کی مختصر تفصیل پڑھ کر اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ عمران وہ نہیں جو دِکھ رہا ہے ۔

ویران عمارت اور اس سے پرآمد لاش ناول کا ایک نیا موڑ ثابت ہوا ، لاش پر لگے عجیب قسم کے زخموں پر عمران کی گہری نظر اور ماہرانہ رائے نے عمران کی شخصیت کے بارے میں ایک بار پھر سوالات کھڑے کردیئے ۔ کیس میں پیش رفت پر جب جج صاحب کی اکلوتی آنکھ والی صاحب زادی رابعہ سلیم کا کردار سامنے آیا اور جب یہ پتا چلا کہ موصوفہ عمران کی محبوبہ یک چشم کا درجہ رکھتی ہیں ، تو عمران کے درد اور کرب کا اندازہ لگا کر دل سولہ سولہ آنسو رونے لگا کہ اگر آج لیلیٰ مجنوں اور شیریں فرہاد زندہ ہوتے تو ان کے پیار کی شدت دیکھ اپنے لافانی پیار کے قصے راوی سمیت لیاری ندی میں ڈال کر بقیہ ساری زندگی عمران اور اس کی محبوبہ یک چشم کے قصیدے پڑھتے ۔

ویران رعمارت جو بعد میں ایک شہید کا مزار ثابت ہوئی اور محبوبہ یک چشم کے والد بزرگوار جج صاحب کے نام پر عجیب و غریب انداز میں منتقل ہوئی اور ان کے ایک پراسرار دوست نے مرنے سے پہلے یہ ویران عمارت ان کے نام منتقل کی اور ورثے میں ایک مجاور چھوڑ کر خود ہنسی خوشی انتقال کرگئے ۔ اسی عمارت میں نصف شب کو عمران اور فیاض جب تفتیش کرنے جاتے ہیں تو عمران ایک عجیب منظر دیکھتا ہے کہ ایک گدھے پر ایک بندریا سوار ہے اسی عمارت میں کچھ اجنبیوں کی پراسرار حرکتیں بھی ناول کا سسپنس بڑھا دیتی ہیں اور اس مقام پر ناول اپنے قاری کو بالکل جکڑ لیتا ہے ۔
اس کے بعد جب آدھی رات کو رحمن صاحب کے حکم پر عمران کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا تو عمران کی زبانی کنفیوشس کے جو اقوال بیان ہوتے ہیں وہ نقل کرنے کے قابل ہیں ، بقول کنفیوشس "تاریک رات میں بھٹکنے والے ایمانداروں کے لئے اپنے دروازے کھول دو” اور "جب کسی ایماندار کو اپنی ہی چھت کے نیچے پناہ نہیں ملتی تو وہ تاریک گلیوں میں بھونکنے والے کتوں سے سازباز کرلیتا ہے ”
بظاہر عام سے اقوال اپنے اندر ایک گہرائی سموئے ہوئے ہیں مگر جو اس کی گہرائی ناپ سکتا ہے وہی اہلِ دانش ہے۔

ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں عمران کی سابقہ منگیتر لیڈی جہانگیرسے مل کر حیرت اور افسوس ہوا ۔

لیڈی جہانگیرکے سامنے عمران کی عمرانیت کا مظاہرہ خوب رھا ۔ پھر جس طرح عمران نے اپنی جاپان سے درآمد شدہ کھوپڑی استعمال کی اور تفتیش تو آگے بڑھایا اس پر داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔

بالاخر مزار کے مجاور کے انکشاف نما تنبیہ اور ڈھیر ساری بھاگ دوڑ کے بعد جب کیس سے جُڑے اصل حقائق آشکار ہونے لگے تو اندازوں کے سارے محل ریت کے گھروندے ثابت ہوئے ۔ اصل معاملہ تو ھمارے اندازوں سے بالکل جُدا تھا ۔ آخر کار بہت ساری بھاگ دوڑ ، مارکٹائی کے بعد جب مجرم کے رُخ سیاہ سے نقاب ہٹا تو ایک بار پھر حیرت سے دنگ رہ گئے کیونکہ ھمارے اندازے ایک بار پھر فیل ھوگئے کیونکہ مجرم ھمارے اندازے کی گرفت میں نہیں آیا تھا ۔ خیر اس کے بعد سب ھنسی خوشی رہنے لگے۔
اب چونکہ آپ حضرات نے تبصرہ پڑھ لیا ہے تو اپنی تعریف یا تنقید والی رائے سے نوازیں اور پھر "خوفناک عمارت ” مطالعہ کیلئے اپنے تکیوں کے پاس سجا لیں ۔ شکریہ اللہ حافظ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسکhttps://alert.com.pk/
Alert News Network Your Voice, Our News "Alert News Network (ANN) is your reliable source for comprehensive coverage of Pakistan's social issues, including education, local governance, and religious affairs. We bring the stories that matter to you the most."
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں