کچھ روز پہلے صوبہ پنجاب کی ایک سینئر وزیر نے محکمہ جنگلات کے کئی اہلکاروں کو دوسرے اضلاع میں منتقل کر دیا، جس کے نتیجے میں محکمہ کے اندر بے چینی کی فضا قائم ہو گئی ہے۔ ان اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، جس پر انہوں نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔ یہ احتجاج ہر شہری کا حق ہے، خصوصاً جب وہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی محسوس کریں۔ ان تبادلوں میں جنگلات کے سپاہی اور بلاک افسران بھی شامل ہیں، جبکہ دوسری جانب یہ کہا جا رہا ہے کہ ان اہلکاروں کی تنخواہیں تقریباً 40 سے 45 ہزار روپے کے درمیان ہیں، جس میں دور دراز علاقوں میں گزارا مشکل ہے۔
تاہم، اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو خود محکمہ جنگلات ہی اس تباہی کا ذمہ دار ہے۔ محکمہ کے کچھ اہلکار لکڑی چور مافیا کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ان سے بھاری رقوم وصول کر کے نایاب درختوں کے کٹاؤ کی اجازت دیتے ہیں۔ اس سے نایاب درخت، جیسے کہ زیتون کی نسل کہو اور درخت بننے میں 20 سے 25 سال لگانے والے پھلائی، بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
جس علاقے میں ہم رہتے ہیں، وہاں کے جنگلات کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ آئے روز لوگ درختوں کو کاٹ کر لکڑی لے جاتے ہیں؛ کچھ پیدل، کچھ گدھوں، اونٹوں، موٹر سائیکلوں اور کھلی گاڑیوں پر۔ اس عمل سے جنگلات کو بے حد نقصان پہنچ رہا ہے اور محکمہ کے کچھ اہلکار ہر ماہ ان افراد سے پیسے وصول کرتے ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہیں اس کی اجازت کس نے دی؟ میرے خیال میں، مقامی لوگوں کو علاقے کے جنگلات کا ذمہ دار بنانا ان کی تباہی کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں، جو ہم اپنی زندگی میں دیکھ رہے ہیں، درختوں کی کمی کی وجہ سے ہیں۔ حکومت ان تبدیلیوں کو روکنے کے لیے نہ تو مؤثر اقدامات کر رہی ہے اور نہ ہی نئے درخت لگانے کی کوئی پالیسی بنا رہی ہے۔ لکڑی کی چوری کا ذمہ دار کون ہے؟ اور کیا ہماری حکومت یا قانون نافذ کرنے والے ادارے اس مافیا کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے؟ مگر اصل سوال یہ ہے کہ ان سے پوچھے گا کون؟