جمعرات, نومبر 21, 2024

عمر عبداللہ: اوبرائے گروپ کے ملازم سے جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ تک کے سفر کی دلچسپ داستان!

ایک دور میں ہندوستان کے پرتعیش ہوٹل چلانے والے معروف کاروباری ادارہ دی اوبرائے گروپ کے ملازم عمر عبداللہ کے کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے عہدہ تک کامیاب ترین سیاسی سفر کی داستان بیحد دلچسپ ہے۔

عمر عبداللہ برصغیر کے معروف کشمیری سیاسی خانوادہ کی تیسری نسل کے نہایت فعال سیاستدان ہیں ۔ حال ہی میں جموں وکشمیر کی مجلس قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس کی اکثریت سے کامیابی کے بعد وہ ایک بار پھر ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے منصب کے لئے ایک مضبوط امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔

عمر عبداللہ کی جماعت جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس اور اس کی اتحادی جماعتوں نے ریاست کی مجلس قانون ساز کی 49 نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کی ہے ۔جس کے نتیجہ میں نیشنل کانفرنس نے انہیں اپنی جماعت کا پارلیمانی سربراہ نامزد کیا ہے۔ اس سلسلہ میں عمر عبداللہ نے جمعہ کو ریاست کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے راج بھون،سری نگر میں ملاقات کے دوران حکومت سازی کے لئے اپنا اکثریتی دعویٰ پیش کیا۔اور جلد از جلد کابینہ کی حلف برداری کے انعقاد پر زور دیا ۔اس انتخابی عمل کے نتیجہ میں آرٹیکل 370 کے تحت ریاست کی نیم خود مختاری کے خاتمہ اور گورنر راج کے چھ برس کے طویل عرصہ بعد وادی میں ایک جمہوری حکومت قائم ہونے جارہی ہے۔

54 سالہ عمر عبداللہ کا شمار ہندوستان کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر کے ایک انتہائی مقبول و معروف اور جدی پشتی آزمودہ کار سیاستدانوں میں کیا جاتا ہے ۔

مہذب،اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل 54 سالہ عمر عبداللہ، شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کے پوتے اور ریاست کے ایک معروف اور تجربہ کار سیاستداں اور ریاست کی ایک عہد ساز شخصیت ڈاکٹر محمد فاروق عبداللہ کے اکلوتے صاحبزادہ ہیں۔

عمر عبداللہ اپنے دادا شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ اور ان کی قائم کردہ سیاسی جماعت جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی طاقتور سیاسی میراث کے حقیقی وارث سمجھے جاتے ہیں۔

دلچسپ بات ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے اس معروف سیاسی خانوادہ سے تعلق رکھنے والے دادا،باپ اور پوتا، یکے بعد دیگرے کئی بار ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے ہیں ۔

عمر عبداللہ کے دادا شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ دو بار اور والد ڈاکٹر محمد فاروق عبداللہ تین بار ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر متمکن رہے ہیں۔

عمر عبداللہ 10 مارچ 1970ء کو روچ فورڈ، ایسیکس برطانیہ میں پیدا ہوئے تھے ان کی والدہ مولی عبداللہ ایک برطانوی نژاد خاتون اور پیشہ کے لحاظ سے ایک تربیت یافتہ نرس ہیں اور وہ اپنے اکلوتے صاحبزادہ عمر عبداللہ کو ان کے سیاستدان دادا اور والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کار زار سیاست میں قدم رکھنے کے حق میں نہیں تھیں۔ لیکن اس کے باوجود عمر عبداللہ نے 1998ء میں صرف 28 برس کی عمر میں میدان سیاست میں قدم رکھا اور اسی برس وہ سری نگر کے لال چوک کے انتخابی حلقہ سے کامیاب ہوکر پہلی بار بھارتی پارلیمنٹ لوک سبھا کے ر کن منتخب ہوئے تھے وہ 1999ء میں دوبارہ لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی این ڈی اے اتحادی حکومت میں یونین منسٹر آف اسٹیٹ کی حیثیت سے تعینات رہے لیکن واجپئی کی اتحادی حکومت کے صرف 13 ماہ کی مدت میں خاتمہ کے بعد انہوں نے دوبارہ سری نگر سے انتخابات میں حصہ لیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ2001ء میں دوبارہ یونین منسٹر آف اسٹیٹ کے عہدہ پر فائز رہے۔ لیکن اس بار وہ اپنی سیاسی جماعت پر زیادہ توجہ مرکوز رکھنے اور ریاستی مجلس قانون ساز کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے قبل از وقت پارلیمنٹ سے مستعفی ہوگئے تھے۔ عمر عبداللہ 2002ء میں ان کے سیاسی خانوادہ کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے انتخابی حلقہ گاندربل سے مخالف امیدوار کے ہاتھوں 2000 ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے جبکہ ان کے والد ڈاکٹر محمد فاروق عبداللہ 1983ء، 1987ء اور 1996ء میں اسی حلقہ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ عمر عبداللہ 2004ء میں سری نگر سے دوبارہ رکن اسمبلی منتخب ہوگئے تھے اور 2008ء سے 2009ء تک اور 2014ء سے 2019ء تک مجلس قانون ساز اور بھارتی لوک سبھا کے منتخب رکن رہے ۔

عمر عبداللہ نے اپنے طویل سیاسی کیریئر کے دوران کشمیر میں ہونے والے تین انتخابات میں نمایاں طور پر فتح حاصل کی اور مرکز میں یونین منسٹر آف اسٹیٹ کے عہدہ پر بھی فائز رہے۔ عمر عبداللہ ماضی میں 2009ءسے 2014 ء تک ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں اور اب 2024ء میں وادی میں منعقد ہونے والے حالیہ انتخابات میں ایک بار پھر نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر ریاست کے وزیر اعلیٰ کے منصب کے لئے ایک مضبوط امیدوار سمجھے جا رہےہیں ۔
عمر عبداللہ کو 5 جنوری 2009ء میں ریاست جموں و کشمیر میں کانگریس پارٹی کی اتحادی حکومت میں ہندوستان کی تاریخ کے سب سے کم عمر اور ریاست کے گیارہویں وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عمر عبداللہ بھارتی پارلیمنٹ لوک سبھا میں بھی سب سے کم عمر رکن ہونے کا اپنا منفرد اعزاز بھی رکھتے ہیں۔
وہ 2008ء میں گاندربل کے حلقہ سے 2014ء تک جموں و کشمیر مجلس قانون ساز کے رکن رہے اور 2015ء سے 2018ء تک قائد حزب اختلاف سے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر کی حیثیت سے سری نگر کے حلقہ سے لوک سبھا کے رکن رہے۔ وہ 2018ء کے انتخابات میں ضلع بڈگام سے منتخب ہونے کے بعد 2019ء میں آرٹیکل 370 کے نفاذ کے نتیجہ میں تحلیل کی جانے والی جموں و کشمیر اسمبلی میں آخری قائد حزب اختلاف تھے۔ 2024ء کے جموں و کشمیر مجلس قانون ساز کے حالیہ انتخابات میں عمر عبداللہ بڈگام کے انتخابی حلقہ سے منتخب ہوئے ہیں۔ جبکہ انہیں لوک سبھا کی نشست پر جموں اور کشمیر عوامی اتحاد پارٹی کے رہنماء انجینئر شیخ عبدالرشید کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

عمر عبداللہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی این ڈی اے حکومت کے دور میں 13 اکتوبر 2001ء سے 23 دسمبر 2002ء تک یونین منسٹر آف اسٹیٹ برائے امور خارجہ اور تجارت اور صنعت کے عہدہ پر فائز رہے ۔ بعد ازاں وہ اپنی پارٹی کے امور پر بھرپور توجہ دینے کے لئے حکومت سے مستعفی ہوگئے تھے۔

عمر عبداللہ نے بھارتی حکومت کی مخالفت کے باوجود دیرینہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کی کوششوں کے لئے پہلا قدم بڑھاتے ہوئے مارچ 2006ء میں اسلام آباد میں پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف سے اکیلے میں ملاقات کی تھی۔ جو ریاست جموں و کشمیر کے کسی اہم ترین سیاستداں اور حکومت پاکستان کے درمیان اس نوعیت کی پہلی ملاقات تھی۔
عمر عبداللہ ایک بیباک اور مقبول عوامی مقرر بھی ہیں انہوں نے 2006ء میں لوک سبھا میں بھارت – امریکہ جوہری سودے پر تحریک اعتماد کے ووٹ کے موقع پر ایک تاریخی جذباتی تقریر کی تھی کہ "میں ایک مسلمان ہوں، میں ایک ہندوستانی ہوں اور میں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کرتا ” پارلیمنٹ میں ان کی اس بیباک تقریر کو ہندوستان بھر میں بیحد سراہا گیا تھا۔ بعد میں عمر عبداللہ نے پارلیمنٹ میں کی گئی اپنی اس تقریر کو اپنے سیاسی کیریئر کی سب بڑی تقریر قرار دیا تھا۔

بھارت میں برسر اقتدار وزیر اعظم نریندرا مودی کی متعصب حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختاری کے اختیارات منسوخ ختم کرنے کے بعد عمر عبداللہ کو 4 اور 5 اگست 2019ء کی درمیانی شب بلا کسی الزام کے حراست میں لے کر ان کے گھر میں نظر بند کردیا گیا تھا ۔ان کی اس غیر قانونی نظر بندی کے چھ ماہ کی مدت ختم ہو جانے کے بعد انہیں رہا کرنے کے بجائے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت دوبارہ نظر بند کردیا گیا تھا۔ جس پر عمر عبداللہ کی ہمشیرہ سارہ عبداللہ پائلٹ نے ان کی غیر قانونی نظر بندی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کرکے ان کی غیر قانونی نظر بندی کو چیلنج کیا تھا اور سارہ کی جانب سے زبردست بھاگ دوڑ اور قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں عمر عبداللہ کو مارچ 2020ء کو سپریم کورٹ کے حکم پر رہائی نصیب ہوئی تھی۔

عمر عبداللہ نے برن ہال اسکول اور لارنس اسکول سری نگر سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد Sydenham College of Commerce and Economics ممبئی سے بیچلر آف کامرس کی ڈگری حاصل کی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے University of Strathclyde گلاسگو، اسکاٹ لینڈ سے ایم بی اے کا آغاز کیا تھا۔لیکن لوک سبھا کے انتخابات کی وجہ سے اسے ادھورا چھوڑنا پڑا۔ عمر عبداللہ نے میدان سیاست میں اپنی آمد سے قبل ہندوستان کے دو معروف کاروباری اداروں ITC Global لمیٹڈ اور دی اوبرائے گروپ میں ملازمت بھی انجام دی تھی۔

عمر عبداللہ کی بیحد سیاسی مصروفیات کی وجہ سے ان کی ذاتی زندگی مختلف وجوہات کی بناء پر بیحد تلخی اور طلاطم کا شکار رہی ہے۔ وہ یکم ستمبر 1994ء کو دہلی میں ایک سابق فوجی افسر رام ناتھ کی بیٹی پائل ناتھ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے لیکن ستمبر 2011ء میں اس جوڑے کی آپس میں علیحدگی ہوگئی تھی۔ ان کے دو بچے ضمیر عبداللہ اور ظاہر عبداللہ ہیں۔ اسی طرح ان کی ہمشیرہ سارہ عبداللہ کی ازدواجی زندگی بھی بیحد ناہمواریوں کا شکار رہی ۔جنہوں نے بھارتی فضائی کے سابق افسر اور معروف سیاستداں راجیش پائلٹ کے بیٹے اور بھارتی سیاستداں کیپٹن سچن پائلٹ سے شادی کی تھی لیکن حال ہی میں ان کی علیحدگی کی خبر بھی منظر عام پر آئی ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں