پیر, اکتوبر 7, 2024

پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر عربی زبان کا قتلِ عام

عربی زبان دنیا کی اہم ترین زبانوں میں شمار ہوتی ہے، اور اس کا عالمی مقام ناقابلِ تردید ہے۔ اقوام متحدہ کی سرکاری زبانوں میں سے ایک ہونے کے ناطے، اس زبان کو عالمی سطح پر سفارتکاری اور ثقافتی تبادلے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان بھی ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی ضروری ہے، اور اسی مقصد کے تحت پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) نے 1980 کی دہائی میں عربی زبان میں خبریں نشر کرنے کا آغاز کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج پی ٹی وی پر عربی زبان کا استعمال غیر معیاری اور ناقص ہو چکا ہے، اور اس میں زبان کے بنیادی قواعد کی سنگین غلطیاں کی جاتی ہیں۔

عربی زبان میں خبروں کا معیار بہتر کرنے کے بجائے اسے مسلسل خراب کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں پی ٹی وی کی عربی خبریں خلیجی ممالک اور عرب دنیا میں پاکستانی موقف کو پیش کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ تھیں، لیکن آج کے دور میں ان خبروں میں زبان کی بنیادی غلطیاں عام ہیں۔ مثال کے طور پر:

غلط: "حيث اِستَشهدَ ثلاثةَ من أعضاء…”
درست: "حيث اُستُشهدَ ثلاثةُ…”

غلط: "يقول مسؤولِين في لبنان إنه خلال اَسبوعِين الماضِيِّيْن…”
درست: "يقول مسؤولون في لبنان إنه خلال اُسبوعَينِ الماضِيَّيْنِ…”

یہ صرف چند مثالیں ہیں، لیکن ایسی غلطیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ پی ٹی وی کی عربی خبریں پڑھنے والے یا تو عربی زبان پر مکمل عبور نہیں رکھتے، یا پھر ان کے مواد کی درستگی کی کوئی پروا نہیں کی جا رہی۔ یہ صورتحال عرب دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے، کیونکہ زبان کی غلطیاں اس تاثر کو جنم دیتی ہیں کہ پاکستانی میڈیا عربی زبان اور ثقافت کی اہمیت کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ عربی لہجے میں خبریں پڑھنے والے کی درستگی بہت ضروری ہے، تاکہ عرب دنیا میں پاکستان کا موقف نہ صرف درست طریقے سے پہنچایا جا سکے بلکہ اسے سنجیدگی سے بھی لیا جائے۔ آج کے دور میں جب سفارتکاری اور عالمی تعلقات میں زبان کا کردار بہت اہم ہے، پی ٹی وی جیسے ادارے کو عربی زبان کے قتلِ عام کی بجائے اسے پروفیشنل انداز میں پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان کے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عربی زبان میں نشر ہونے والے مواد کی درستگی اور معیار پر خصوصی توجہ دی جائے۔ عربی زبان میں مواد تیار کرنے والے نوجوان پاکستانیوں کو شامل کرنا، جو عرب ممالک میں پلے بڑھے ہیں اور زبان و ثقافت کو بخوبی سمجھتے ہیں، اس کا بہترین حل ہوسکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں