اتوار, اکتوبر 6, 2024

قبرص – Cyprus (جنوبی یورپ)

پاکستان سے قبرص کافاصلہ 2105 میل/3388 کلومیٹر جانب مغرب ہے۔

آمد و رفت ہوائی سفر سے ہو سکتی ہے۔ بحری سفر بھی اگر کھل جائے تو کارآمد ہو سکتا ہے۔
پاکستان سے قبرص کا وقت دو گھنٹے پیچھے ہے۔
قبرص جزیرہ ہونے کی وجہ سے کسی دوسرے ملک کے ساتھ براہِ راست نہیں ملتا مگر قریب ترین ساحل ترکی اور ملک شام کے ہیں ۔

قبرص 9,250 مربع کلومیٹر یا 3,572 مربع میل کے رقبے پر محیط ہے-

قریبًا 13,61000 لوگوں کی آبادی اس ملک میں رہتی ہے جن میں سے %78 عیسائی،%18 مسلمان ہیں۔باقی مذاہب کے لوگ کم پاۓ جاتے ہیں۔

یونانی جو %80 بولی جاتی ہے اور ترکی جو %0.2 استعمال ہوتی ہے سرکاری زبانیں ہیں جبکہ:

انگریزی %4.1
رومانی %2.9
روسی %2.5
بلغاری %2.2
عربی %1.2
فلپینی %1.1
باقی زبانیں %4.3
بولی جاتی ہیں۔

موسمِ گرما کھلا اور خوشگوار ہے جبکہ موسمِ سرما سرد اور بارشی۔

قبرص کی کرنسی یورو(euro) ہے۔جو اسوقت 310.19 پاکستانی روپے اور 1.12 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔

جی ڈی پی 3,40,000 ڈالر ہے۔
جی ڈی پی پر کیپیٹا 37,149 ڈالر سالانہ(نامینل) اور 58,733(PPP)

خلیفۂ ثالث حضرت عثمان غنی کے وقت اس جزیرے پر اقدام ہوا کیونکہ قیصرِ روم سے مخالفت تھی۔یہ جزیرہ اس کے لئے ایک آؤٹ پوسٹ تھا اور ساحلِ شام کے سامنے ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے مستقل خطرہ بنا ہوا تھا۔ مگر مسلمانوں نے جزیرے پر مکمل قبضہ نہیں کیا ، آتے جاتے رہے اور اسلام پیش کرتے رہے۔ قیصری افواج ہٹ گئیں تو مقامی لوگوں نے اپنے جھنڈے لہرا دئے ۔ سن 965ء میں جو نیا قیصر بیٹھا اس نے دوبارہ جزیرے پر باقاعدہ قبضہ کر لیا۔ تیسری صلیبی جنگ سے نا کام پلٹے ہوئے برطانوی بادشاہ رچرڈ نے اپنے ہم مذہب قیصر کا کوئی خیال نہ کیا اور جزیرے کا دفاع کمزور دیکھ کر ایک ہی جھٹکے میں قابو پالیا۔اور قیصریوں کو مار بھگایا۔ اگلے برس اچھے داموں کی پیشکش پر برطانوی شاہ نے قبرص ٹمپلروں کے ہاتھ بیچ دیا۔ جزیرے کے لوگوں نے اس پر احتجاج کیا اور ٹمپلرز کا تالیقہ نکال دیا توانہوں نے جلدی سے کسی فیوڈل ، گائی آف لوسینان(guy de lusignan) کو بیچ دیا جس کی بیوی نے جزیرے پر راج کیا ۔ سو سال یوں گزر گئے تو سلطانِ اسلام کو اس طرف کا خیال ہوا چنانچہ 1573ء میں جزیرہ سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو گیا اور ظلم و جبرکے فیوڈل نظام ختم ہوئے۔ ترکوں نے ملت نظام جاری کیا یعنی ہر قوم اپنے دین کے بڑوں پیچھے چلے۔ قبرصیوں کا جو بشپ تھا سارے اختیارات اسے تفویض کر کے ترک بے غم ہو گئے ۔ تین سو سال یہ نظام نہایت اطمینان سے چلا۔جب 1877ء میں روس ترک جنگ میں ترک پیچھے ہٹے تو انگریز نے موقع دیکھا اور "میں تمہاری روس کے خلاف مدد کرونگا” کہہ کر قبرص سلطان اسلام سے ٹھیکے پر مانگ کر اپنا برّی جنگی اڈہ بنالیا سن 1914ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانیہ بہادر نے جس پر سورج غروب نہ ہوتا تھا سب وعدے معاہدے بھلا کر جزیرے کو ہڑپ کر ڈالا۔
سن 1960ء میں خوب مخالفت کے بعد چھوڑا۔اور قبرص آزاد ہوا۔
بجائے یہ کہ ترکی جس سے ٹھیکے پر لیا تھا اسے واپس کرتا، ایک یونانی پادری جو اپنے جرائم کی وجہ سے قید تھا اس کے حوالے کر کے برطانیہ نکل گیا۔ بس دو اڈے رکھ لئے جو آج تک آزادی کی راہ تکتے ہیں۔ ستّر کی دہائی میں یونان، یونانی پادری اور یونانی نسل کے قبرصیوں نے مل کر سازش کی کہ جزیرہ کو یونان میں ضَم کرلیں جو گیارہ سَو کلومیٹر دور ہے۔ 1974ء میں فوجی طاقتوں نے قبرص پر اپنے قبضہ کا اعلان کیا اور ترکوں نے شمال کا ترک علاقہ لے لیا۔اب صرف شمالی علاقے کو نام کی حد تک ترک علاقے کے طور پر جانا جاتا ہے مگر حقیقتاً یہ جمہوریہ قبرص ہی کا حصہ ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں