ہفتہ, ستمبر 7, 2024
ہومبلاگشرپسندوں کے خلاف جنگ اور میڈیا کی زمہ داری

شرپسندوں کے خلاف جنگ اور میڈیا کی زمہ داری

تحریر: فخر عالم قریشی

بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان ہمیشہ سے دہشت گردی کے عفریت کا شکار رہا ہے، جس کی بدولت ہماری بہادر فوج کو ہمیشہ اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ انہی قربانیوں کی بدولت آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ ہر بار جب بھی ملک کے کسی علاقے میں شرپسند عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز ہوتا ہے، تو مقامی شہریوں، عمائدین، علماء، اور میڈیا کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ آج کے اس کالم میں ہم میڈیا کی ذمہ داریوں پر تفصیلاً روشنی ڈالنے کی سعی کریں گے کہ کس طرح صحافیوں یا میڈیا نیٹ ورکس کی غفلت، لاپرواہی اور منفی خبریں شرپسند عناصر کو عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔

گزشتہ ہفتے داریل میں سانحہ ہوڈور میں ملوث مرکزی ملزم کے خلاف ہونے والے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن میں کمانڈر شاہ فیصل کو ہلاک جبکہ اس کے ساتھی کو زخمی کردیا گیا۔اور دوسری جانب گلگت بلتستان سکاؤٹس کے چار جوان بھی اس آپریشن میں زخمی ہوئے۔ اس آپریشن کے دوران بدقسمتی سے ایک بچی بھی غلطی سے زخمی ہوگئی تھی۔ جس باعث بچی کی تصویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی اور دیامر کے نوجوان، سوشل میڈیا ایکٹویسٹ، سیاسی و سماجی شخصیات اور بعض علمائے کرام نے یہ سوال اٹھایا کہ اس معصوم بچی کا کیا قصور تھا؟ اس سوال کا جواب ظاہر ہے کہ بچی کا کوئی قصور نہیں تھا، لیکن اس واقعے کو شرپسند عناصر نے اپنے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے خوب استعمال کیا،اور عوام لا علم رہی۔

جنگی حالات یا فوجی آپریشنز کے دوران کچھ عناصر جان بوجھ کر ایسی منفی خبریں پھیلاتے ہیں جن سے عوام کی توجہ اصل حقائق سے ہٹ جاتی ہے اور شرپسند عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم ذرا بھی غور کریں تو شرپسند یہی کہیں گے کہ ہم تو مطلوب تھے ہی مگر اس بچی کا کیا قصور تھا جس پر جان بوجھ کر گولی چلائی گئی۔ اس سے عوام سمجھنے لگتی ہے کہ یہ واقعی ٹھیک کہہ رہے ہیں، اور پھر مقامی لوگوں میں فوج کے خلاف نفرت بڑھنے لگتی ہے،جس سے ملزمان کو چھوٹ ملتی ہے اور ایسے خبریں پلانٹڈ طریقے سے پھیلائی جاتی ہیں تاکہ عوامی توجہ اصل اشو سے ہٹ جائے۔

ایک ذمہ دار صحافی کا فرض بنتا ہے کہ وہ حقائق اور پروپیگنڈے کے درمیان فرق کو سمجھتے ہوئے مثبت خبروں کو فروغ دے اور منفی پروپیگنڈے کو فوراً کاؤنٹر کرکے عوام کو آگاہ کرے کہ سانحے کے پس منظر پیش منظر اور اصل حقائق کیا ہیں؟ دیامر کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم خود سوشل میڈیا پر منفی خبریں آگ کی طرح پھیلاتے ہیں، جس سے نہ صرف علاقے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ شرپسند بھی اپنے ہدف میں کامیاب ہوتے ہیں۔ آپ کو بطور شخص کسی فوجی سے اس کے نظریئے یا عقائد سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن جب بات ملکی سالمیت اور بقاء اور دفاع کی آتی ہے تو ہم سب کو فوج کے پیچھے کھڑا ہونا ہوگا ورنہ ہم شرپسند عناصر اور ملک دشمنوں کو شکست نہیں دے سکتے۔

اداروں سے حقائق جاننے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عوامی رائے حقائق کے برعکس اور منفی تبصروں پر مشتمل ہے۔ اس بات سے تو بحثیت قوم انکار نہیں کر سکتے کہ سانحہ ہوڈور کے بعد فوج نے امن گرینڈ جرگہ کا انعقاد عوام کے کہنے پر کیا اور سانحہ میں ملوث ملزمان کی نشاندہی بھی علماء کے مطالبے پر کی۔ فوج نے ٹارگٹڈ آپریشن بھی دیامر کے علماء، صحافی، نوجوان اور سیاسی و سماجی حلقوں کے مطالبے پر کیا تھا۔ جب فوج نے مذکورہ کمانڈر کے گھر پر چھاپہ مارا اور باعزت سرنڈر کرنے کا اعلان کیا، تو کمانڈر نے گرفتاری دینے سے انکار کرتے ہوئے فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں کمانڈر ہلاک اور اس کا ساتھی زخمی ہوا۔ اس کے بعد داریل میں فوجیوں کی موجودگی پر عوام کی جانب سے بھی فائرنگ شروع کی گئی، اور یہ خبریں میڈیا پر نہیں آئیں، جس باعث عوام حقائق سے دور ہوگئی اور بے چینی کی فضا قائم ہو گئی۔ ایسے معاملات میں جب صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اور اس بار ایسا ہی ہوا ہے کہ جملہ عوام دیامر کی جانب سے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

ہمیں ایسے حساس معاملات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، مگر من حیث القوم ہم ایسے واقعات کے بعد کچھ زیادہ باؤلے ہو جاتے ہیں اور اپنی دانشوری سے امن کو مزید سبوتاژ کرتے ہیں۔ جو بھی خبر سامنے آتی ہے، اسے تحقیق کئے دیتے بغیر آگے شیئر کر دیتے ہیں۔ دنیا میں کئی مواقع پر میڈیا کی غلط یا منفی خبریں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز پر منفی اثرات مرتب کر چکی ہیں۔

ویتنام جنگ کا مطالعہ کریں تو جنگ کے دوران میڈیا نے امریکی فوج کے آپریشنز کی کوریج میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ لیکن کئی مواقع پر میڈیا کی منفی رپورٹنگ اور غلط خبروں نے امریکی عوام کی حمایت کو کمزور کیا، جس سے فوجی آپریشنز اور مجموعی جنگی حکمت عملی پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مائی لائی قتل عام کی رپورٹنگ نے جنگ کی مخالفت میں اضافہ کیا اور فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

صومالیہ میں "بلیک ہاک ڈاؤن” کے واقعے کو پڑھیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ موگادیشو میں امریکی فوجی آپریشن کے دوران جب دو بلیک ہاک ہیلی کاپٹر گرائے گئے، تو میڈیا کی رپورٹنگ نے عوامی رائے کو بری طرح متاثر کیا۔ اس واقعے کی کوریج اور غلط خبریں نے امریکی عوام میں جنگ کے خلاف جذبات کو ہوا دی، جس کے نتیجے میں امریکی فوج کو صومالیہ سے واپس بلا لیا گیا۔

عراق جنگ میں میڈیا کی رپورٹنگ، بالخصوص ابو غریب جیل کے سکینڈل کی تصاویر اور خبریں، نے جنگ کی حمایت کو شدید نقصان پہنچایا۔ غلط اور منفی رپورٹنگ نے امریکی فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور دہشت گرد گروہوں کے پروپیگنڈا کو تقویت دی۔

افغانستان جنگ میں بھی کئی مواقع پر میڈیا کی جانب سے غلط اور غیر مصدقہ خبریں نشر کی گئیں۔ بعض اوقات میڈیا نے شہری ہلاکتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، جس سے مقامی آبادی میں عدم اعتماد اور غصہ پیدا ہوا۔ اس سے طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو عوامی حمایت حاصل کرنے میں مدد ملی۔

یہ چند مثالیں اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ جب میڈیا حقائق پر مبنی اور محتاط رپورٹنگ نہ کرے، تو دہشت گردی کے خلاف آپریشنز ناکامی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس لیے میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق پر مبنی اور محتاط رپورٹنگ کرے تاکہ آپریشنز کی کامیابی اور عوامی حمایت برقرار رکھی جا سکے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں