بدھ, جون 4, 2025

مسافر کی ڈائری سے: روداد سفر برطانیہ سے پانچواں اقتباس

خوشنما باہر۔۔۔اداس اندر:

نماز ظہر اور عصر کی ادائیگی کے بعد ہم شہر نہیں بلکہ ایک قریبی گاؤں کی سیر کو نکلے جو مانچیسٹر سے کم و بیش پون گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ اندازہ ہوا کہ ان کے گاؤں بھی ہمارے شہروں سے زیادہ نظیف اور تمدن کے لحاظ سے زیادہ منظم ہیں جو سہولیات میں ہمارے یہاں کے کسی بڑے شہر سے کم نہیں ۔ دور کہیں کہیں پہاڑوں کے دامن میں کسی جگہ ایک گھر اور ارد گرد خوبصورت کھیتوں کا ہونا جس میں چند بھیڑیں اور گائیں چر رہی ہوں یہ برطانیہ کا ہی خاصہ ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہاں لوگ شہر سے زیادہ کسی گاؤں میں رہنے کو زیادہ فوقیت دیتے نظر آتے ہیں پھر جبکہ تمام سہولیات اگر کسی مضافاتی علاقے میں میسر ہوں تو شہر کی ہنگامیت سے دوری ہی دل کو زیادہ بھاتی ہے۔ یہاں مضافات میں ایسے رہائشیوں کی کثرت ملے گی جو زندگی کی اکثر بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ یعنی اواخر عمری میں دیہی علاقوں میں بسنا ترجیحا پسند کیا جاتا ہے۔

ہمارے ملکوں میں جہاں گلیوں اور بازاروں میں لوگ اپنے بچوں اور بچوں کے بھی بچوں کے ہمراہ نظر آتے ہیں وہاں ان ملکوں میں (الا من رحم اللہ)لوگ کتوں اور بلیوں کے ہمراہ نظر آتے ہیں۔ گو کہ پورے برطانیہ میں ہی ہر مرد و عورت کے ساتھ بچے کی بجائے ایک پالتو ہوتاہے مگر اس کی کثرت بوڑھوں میں اور بھی زیادہ ملتی ہے کہ جن کے پاس دل بہلانے کو کوئی نہیں وہ کسی پالتو جانور کے ہمراہ دیہی بستیوں میں آبستے ہیں۔ان میں کے بعض اکیلے بھی ہوتے ہیں اور بعض جوڑے بھی جو ایک دوسرے کا سہارا بن کر ایک ساتھ باہر نکلتے ہیں کہ مبادا اگر کوئی راستے میں رہ جائے تو “اطلاع” کی جاسکے اگرچہ دونوں کی حالت ہی قابل رحم ہوتی ہے۔ایسوں میں کے اکثر کی تو اولاد ہی نہیں ہوتی جو سہارا بن سکےاور جن کی ہے وہ بھی “خودمختاری” کی سند حاصل کرتے ہی آزاد ہونا زیادہ پسند کرتے ہیں تبھی انہیں ایسی اولاد کو پیدا کرنا ہی بے مقصد معلوم ہوتا ہے کہ خوامخواہ کے خرچ بھی اٹھاؤ، آرام بھی تج دو اور ان پر ایسی سرمایہ کاری کرو کہ جس میں سراسر خسارہ ہی ہو تو کیوں کوئی زندگی میں ان چوں چوں کرتے بچوں کی خاطر خود کو مشقت میں ڈالے جب کہ اس کے سبب ماں بننے پر جسمانی ہیئت بھی بدل جانے کا اندیشہ ہو اور پہلی سی پُرکشش شخصیت کے چھن جانے کا بھی دھڑکا ہو۔

خوبصورت گاؤں کی سیر:

مانچیسٹر کے نواحی علاقے ایم (Eyam) میں کچھ وقت بتانے کا موقع ملا۔ سرد موسم کے باعث اکثر آبادی گھروں میں دبکی ہوئی تھی جبکہ گھروں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں وہاں موجود زندگی کی خبر دے رہا تھا۔ سبز پہاڑوں کے درمیان یہ گاؤں بہت خوبصورتی سے بسایا گیا تھا جس میں تمام گلیاں بہت کشادہ اور صاف تھیں جبکہ گھر انتہائی سادہ اور نفیس تھے جو ایک خاص ترتیب سے قریبا ایک ہی طرز پر تعمیر شدہ تھے۔ طرز تعمیر بتا رہا تھا کہ تمام گھر ہی دو چار صدیوں سے یونہی موجود ہیں جس کی تصدیق بعض عمارتوں پر لگی تختیوں نے بھی کر دی۔
ہم یونہی چہل قدمی کرتے ہوئے ایک قدیم میوزیم کی تلاش میں تھے تو کچھ ادھیڑ عمر خواتین کا ایک گروہ ہاتھوں میں ہائیکنگ کا سامان لئے پہاڑ پر چڑھتا نظر آیا۔ ان سے راستہ دریافت کیا تو وہ بہت بھلے طریقے سے راستہ سمجھانے لگیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان کا بس نہ چل رہا ہو کہ وہ ہمارے ساتھ ہی ہو لیں اور ہمیں منزل تک پہنچا کر آئیں۔ پھر ایک خاتون سے پوچھے جانے پر باقی بھی مشورے دینے لگیں۔ ہمیں یہ تک بتلایا گیا کہ کس راستے پر جائیں گے تو پارکنگ کی فیس دینا ہوگی اور کدھر سے جائیں گے تو فری پارکنگ ملے گی۔

پارکنگ کی آنکھ مچولی:

پارکنگ کا مسئلہ بھی یہاں عجب دیکھا۔ پورے برطانیہ میں شاید سب سے بڑا مسئلہ اپنے ہی گھر کے باہر اور پھر گھر سے نکلنے کے بعد کہیں پارکنگ تلاش کرنا ہے۔ اگر برطانیہ کی کُل آبادی سات کروڑ ہے تو ملک میں شاید آٹھ کروڑ گاڑیاں ہوں گی۔
اور شاید برطانیہ کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہی پارکنگ ٹیکس جمع کرنا اور اس سے بڑا ذریعہ ٹیکس ادا نہ کرنے پر یا اوور ٹائم پارک کرنے پر ٹکٹ یعنی جرمانہ عائد کرنا تھا جو اس قدر زیادہ ہے کہ انسان کی کمائی کا بیشر حصہ انہی پارکنگ کی فیسوں اور جرمانوں پر نکل جائے۔
کہیں بھی جانا ہو تو پہلا جو موضوع زیر بحث ہوتا ہے وہ گاڑی کی پارکنگ کا ہوتا ہے اور ہر جگہ یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں گاڑی ٹریفک کنٹرول والے اٹھا نہ لیں یا بھاری ٹکٹ نہ لگا دیں۔

یوں سمجھئے کہ برطانیہ میں عوام اور حکومت پارکنگ پارکنگ اور ٹکٹ ٹکٹ کھیلتے ایک دوسرے کے پیچھے آنکھ مچولی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں کی حکومت اور عوام کی ایمانداری کی لاکھ مثالیں کوئی دے تو دے ہمیں تو اس بھاشن کی کلی جاتے ہی کھل گئی جب دوسرے ہی دن ہماری گاڑی کو ناجائز ٹکٹ مل گیا۔ مانچیسٹر پکاڈلی سٹی سینٹر میں منعقدہ لیڈرشپ کانفرنس سے واپسی پر ایک دیرینہ دوست سینٹرل مانچیسٹر میں مجھے ساتھ گھمانے کے لئے لیجانے آئے۔ گرمجوشی سے ملنے کے بعد شدید اصرار پر سرد موسم میں کافی پی کر جب گاڑی تک پہنچے تو خیر سے گاڑی کی فرنٹ سکرین پر لگا ٹکٹ ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ انہیں تعجب ہوا کہ پارکنگ فیس تو ادا کر کے ڈیش بورڈ پر پرچی رکھی تھی پھر یہ چالان کا ٹکٹ کیوں لگا تو قریب کھڑے سیاہ فام سپاہی جو مختلف گاڑیوں کے ٹکٹ لگا رہا تھا کو جا پکڑا۔ اس نے جو ہمیں یوں آتا دیکھا تو تیزی سے نکلنے کی راہ لی۔ ہم پیچھے ہولئے تو اس کو رکنا پڑا۔ اب کے ہمارے استفسار پر بولا کہ یہاں پارکنگ کی اجازت جزوی طور پر نہیں ہے اور دلیل کے طور پر پارکنگ فیس کی مشین پر لگا نوٹس جو بدمعاش نے ابھی کچھ دیر قبل خود چسپاں کیا وہ دکھانے لگا۔ میرے میزبان نے جرح کی کہ اگر یہ نوٹس لگا ہوتا تو بھلا فیس کیسے ادا ہوتی؟؟ تم نے یہ ابھی جان بوجھ کر لگایا ہے تاکہ چالان کر سکو۔ اس کو جواب نہ بن پڑا تو یہ کہہ کر پتلی گلی سے نکل لیا کہ اگر آپ کو اعتراض ہے تو میری شکایت کر دیں مگر ٹکٹ ہر صورت جمع کروائیں کہ اب یہ کٹ چکا ہے۔ ایسے میں مجھے اپنے دیس کی پولیس کی بہت قدر محسوس ہوئی جو لے دے کے معاملہ رفع دفع کر دیتے ہیں اور یوں عوام بڑی خواری اور بھاری ٹیکس کے بوجھ سے بچ جاتی ہے۔

خیر ہم نے بحث سے اس سبب سے اجتناب کیا کہ مبادا ہمارے کسی رویے سے برطانوی شہرت کو آنچ نہ آجائے کہ وہ بڑے کشادہ دل ہیں اور بہت دیانت دار بھی اور یوں ان کی بدنامی ہوجائے کہ انہیں غیر ملکیوں سے غیر مناسب رویہ روارکھنا پڑے۔ اس لئے کہ ان کی یہ فراخدلی تب تک ہی ہے جب تک کہ امیگرینٹس ان کے نیچے دب کر رہنا پسند کریں۔

بہرکیف ہم چالان کے کاغذ لئے سرد موسم سے بچتے ہوئے گاڑی میں آبیٹھے۔ اس پورے واقعہ کے دوران میں ایک خاموش تماشائی بنے سب دیکھتا رہا اور اس دوران مجھے اپنے وطن کی فرض شناس پولیس کا خیال آیا کہ جیسے وہ عیدین کے مواقع ، یوم آزادی و دیگر تہواروں پر اپنا کوٹا پورے کرنے پر “مجبور” ہوتے ہیں ویسے ہی وہ سیاہ فام پولیس والا بھی نہ جانے کس مجبوری کو ہمارا چالان کرگیا تھا تبھی مجھے وہ بھی بہت بے چارہ معلوم ہوا اور اندازہ ہوا کہ یہ نامراد “قبیلہ” جس بھی جگہ ہو اس کی مجبوریاں الگ ہی ہوتی ہیں چنانچہ ان سے الجھنے کی بجائے ان سے “تعاون” کرنا چاہئے تاکہ “ملکی ترقی” میں ہمارا ہاتھ بھی شامل ہو یا کسی غریب کا بھلا ہوجائے۔ بعد ازاں جس چیز نے متاثر کیا وہ آخر پر اس کا یہ جملہ تھا کہ آپ کو میری شکایت کا پورا حق ہے ، یہاں پر وہ ہماری پولیس سے بازی لے گیا اور اس نے اپنے خلاف شکایت اور جرمانے سے رعایت کا پورا طریقہ بتایا۔

اس کے اس عمل سے ہم متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے اور سفر کے اگلے چند منٹ ہم اسی موضوع پر گفتگو کرتے رہے کہ یہاں کی پولیس کی ایک انفرادیت یہ ضرور ہے کہ وہ عوام کو نظم و ضبط میں لانے کے لئے جس قانون سے مدد لیتے ہیں خود بھی اس کے پابند ہیں اور کسی کو اس سے استثنی حاصل نہیں ہے۔ یہ وردی حکومت نے قانون کی عملداری کے لئے دی ضرور ہے مگر خود وردی والوں کو بھی اس سے ماورا نہیں ہونے دیا۔ ہمارے یہاں تو ایک وردی کے پیچھے پورا پورا خاندان گاڑیوں کی نمبر پلیٹ سے لے کر بیسیوں مراعات تک حاصل کر لیتا ہے اور پھر اگریہ کسی خاک پوش کی ستاروں والی ہو تو کئی نسلیں استفادہ کر لینے کا “حق”رکھتی ہیں۔

(جاری ہے)

عبداللہ مدثر
عبداللہ مدثرhttps://alert.com.pk/
عبد اللہ مدثر ایک ممتاز معلم، محقق اور لکھاری ہیں جو تعلیم و تدریس کے ذریعے نوجوان نسل کی تربیت میں مصروف عمل ہیں۔ آپ زمانہ طالب علمی میں 'ماہنامہ ابابیل' اور 'ماہنامہ امہ' کے مدیر رہ چکے ہیں جو ثقافتی مطالعات ، اخلاقی تربیت اور اردو زبان کی ترویج میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آپ رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد میں ڈائریکٹر اکیڈمکس اور ڈائریکٹر تربیہ کے عہدوں پر فائض ہیں۔ آپ نے ترکی، ملائیشیا، سری لنکا، انڈونیشیا، برطانیہ، قطر اور سعودی عرب سمیت مختلف بین الاقوامی اسفار کئے ہیں جن کے سفرنامے نہ صرف معلوماتی ہیں بلکہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے عکاس بھی ہیں۔آپ کو سیاحت اور مختلف تہذیبوں کے مطالعے میں گہری دلچسپی ہے جسے اپنے قارئین کے سامنے نہایت عمدہ اسلوب میں پیش کرتے ہیں۔
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں