جمعرات, جون 26, 2025

مسافر کی ڈائری سے: روداد سفرِ برطانیہ سے دوسرا اقتباس

احساس فراق:

کبھی کبھی اپنے بہت اپنوں اور چاہنے والوں کی چاہت کا احساس تب ہوتا ہے جب ایک طویل وقت ساتھ بِتانے کے بعد کسی سبب سے وہ جدا ہونے لگتے ہیں چاہے یہ فراق کم ہو یا زیادہ مگر یہ احساس تبھی ہوتا ہے جب وقتِ فراق آتا ہے۔
ایسا ہی کچھ احساس گزشتہ چند دنوں سے اپنی پوری شدت کے ساتھ طاری رہا شاید یہ وجہ بھی مزاج میں معمولی درشتی کا باعث رہی گو کہ یہ سفر وسیلہ ظفر کی امید اور سیروا فی الارض کے قرآنی حکم کے تحت ہی ترتیب پایا مگر آخر وقت تک ذہنی و عملی تیاری کا نہ ہوسکنا بھی شاید اسی بے یقینی کیفیت کے ہی سبب تھا جس کا اظہار ہر محفل میں دوستوں اور چاہنے والوں کی طرف سے ہوتا رہا۔سفر کا وقت قریب ہوا تو دوستوں کا ہر محفل میں یہ موضوع چھیڑ دینا کہ اچھاااا تو آپ جا رہے ہیں پھر۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔اکیلے اکیلے جارہے ہیں اس دفعہ۔۔۔لیکن پورا ایک مہینہ؟؟ زیادہ نہیں ہوجائے گا یہ؟؟؟ اچھا چلیں خیر سے جائیے۔
یہ اور ایسے ہی دیگر جملے بطور مزاح و شرارت کچھ دنوں سے مسلسل سننے کو ملتے رہے یہاں تک کہ مجھے بھی یہ سفر بہت طویل لگنے لگا اور یہ طوالت ایک پہاڑ معلوم ہونے لگی۔
بظاہر احباب کی جانب سے یہ شاید ایک شغل یا شرارت دِکھتی تھی مگر حقیقت میں پیار کرنے والوں کی جانب سے احساسِ فراق کا انتقال وہ اہم بنیاد تھی جو مجھے بھی اداس کئے جارہی تھی۔ اکثر کا جانے سے قبل انفرادی ملنے کی خواہش کا اظہار اور الوداعی پیغامات کا بھیجنا ان کے جذبات کی عکاسی کرنے کو کافی تھا۔

آغاز سفر:
۱۱ فروری صبح ۹ بجے اسلام آباد سے پرواز ہونے کے سبب فیصل آباد سے ایک دن قبل یعنی ۱۰ فروری کو دوپہر دو بجے نکلنے کا طے پایا جو کہ تاخیر ہوتے ہوتے آٹھ بجے یقینی ہوسکا جس کے سبب عمر صدیقی بھائی جو ہمارے اسلام آباد میں ایک رات کے میزبان تھے، سے معذرت کر کے محترم شکیل بھائی کے یہاں ہی قیام کا فیصلہ ہوا جن کا گھر ائرپورٹ سے کافی نزدیک تھا۔
رات ایک بجے کے قریب اسلام آباد پہنچے تو شکیل بھائی کو صبح وقت سے جگا دینے کی درخواست کر کے میں سونے کی کوشش کرنے لگا۔ رات کے اس پہر گلی کے کتوں کے بھونکنے اور مختلف جانوروں کی گاہے بگاہے آوازوں نے خوفزدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر تعریف اس ذات کی جس نے نیند طاری کر دی اور رات بھلے سے اختتام پذیر ہوئی۔
صبح کاذب کے ساتھ ہی محترم شکیل بھائی نے تیاری کے لئے گرم پانی کی پوری بالٹی پیش کی تو اندازہ ہوا کہ شاید پوری رات محترم اسی کام پر معمور رہے ہیں۔ ان کو دعائیں دیتے ہوئے تیاری اور نماز فجر کے مراحل طے کر کے ائرپورٹ پہنچے تو عمر صدیقی بھائی ہم سے بھی پہلے ناشتے کی تیاری کئے ہوئے ائرپورٹ پر موجود تھے۔ الوداعی ملاقات، مختصر ناشتے اور دعاؤں کے تبادلے سے ایک دوسرے کو الوداع کرکے میں ائرپورٹ لاؤنج میں داخل ہوا۔

بابو بھائی:
پرواز اسلام آباد سے اڑان بھر کے دبئی پہنچی جہاں سے مجھے دوسری پرواز پکڑنا تھی۔ یہاں چند گھنٹے کا قیام اس غرض سے رکھا گیا تھا کہ اگر ممکن ہوا تو کچھ وقت دبئی کا ویزہ لے کر باہر کا نظارہ کر لیں گے اور یوں سفر نامے میں ایک ملک کا اضافہ ہوجائے گا۔ مگر ایک دوست سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ خیر سے دبئی انتطامیہ نے ہم پاکستانیوں کے لئے تمام تر ویزہ بند کر رکھے ہیں تو ہم نے کوشش ہی نہ کی کہ مبادا اس میں بھی خوامخواہ کلفت اٹھانا پڑے گی۔ چنانچہ ائرپورٹ پر ہی قیام کا فیصلہ ہوا۔
ابھی اتر کر ائرپورٹ پر مناسب جگہ کی تلاش میں تھا کہ جہاں کچھ دیر سستا کر نماز ظہر ادا کی جاسکے کہ ایک بابو بھائی سیاہ چشمہ لگائے میری جانب بڑھے اور بہت دلفریب انداز میں پوچھنے لگے

‏“?Is there a good restaurant near here”

مجھے دیکھتے ہی اندازہ ہوا کہ جناب نے ابھی ابھی انگریزی سیکھی ہے اور مجھ پر ہی پہلا تجربہ کر رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے اردو میں جواب دیا کہ بھائی میں بھی ابھی اترا ہی ہوں چنانچہ اندازا نہیں کہ ائرپورٹ پر کیا کچھ دستیاب ہے؟
وہ صاحب شرما کر بولے کہ دراصل دور سے ہی آپ پاکستانی معلوم ہورہے تھے تو سوچا آپ سے پوچھ لوں؟
اس کے اس جواب نے اترتے ہی مزا کرکرا کر دیا کہ پتہ نہیں موصوف نے توصیفی کلمات کہے ہیں یا پاکستانی ہونے کا مذاق اڑایا ہے۔ جبکہ اپنی حالت ایسی تھی کہ بند ائرپورٹ پر بھی سیاہ چشمہ لگائے پھر رہے تھےاور باقاعدہ ڈھونڈ کر ایک پاکستانی پر ہی انگریزی کا رعب جھاڑنے کی ہمت ہوئی تھی۔ ان کی یہ حالت کسی کارٹون سے کم نہ لگ رہی تھی۔
ہماری قوم کے ایسے ہی رویوں کے سبب ہم ہر جگہ پہچانے جاتے ہیں اور تبھی ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ بھلا ہوتا جو ہم اپنی اصل پر ہی قائم رہنے کو اپنا امتیاز سمجھتے اور کسی بھی مرعوبیت میں خود کو ماڈرن ثابت کرنے سے اجتناب کرتے تو یہ طرہ شاید زیادہ قابل عزت اور قابل ستائش ہوتا اس رویے سے جس میں ہم ہنس کی چال چلتے چلتے اپنی بھی بھول گئے۔
خیر انہیں خوش اسلوبی سے مسکراہٹ کے تبادلے سے رخصت کر کے دانت پسیجتے ہوئے مسجد کی تلاش شروع کر دی۔ نماز کی ادائیگی سے فراغت ہوئی تو کچھ دیر دبئی ائیرپورٹ کی سیر کو نکل کھڑا ہوا۔

اہل پاکستان:
دبئی ائرپورٹ پر ایک طویل ٹرانزٹ ہونے کے سبب جب ہلکی بھوک محسوس ہونے لگی تو سوچا کیوں نا بزنس لاؤنج کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے اور ظہرانے کے بعد وہیں کچھ دیر آرام کیا جائے۔ چنانچہ نماز ظہر و عصر ادا کر کے میں لاؤنج چلا گیا۔ پہنچ کر پہلے پورے لاؤنج کا چکر لگایا کہ معلوم ہوسکے کہ کیا کیا سہولیات موجود ہیں جن سے آئندہ تین گھنٹے متمتع ہوا جاسکتا ہے۔اس دوران ایک پختہ عمر کے معزز شخص پر نظر پڑی جو عربی جبہ پہنے قرآن کی تلاوت میں مشغول تھے۔ انہیں رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اور دل میں ان سے تعارف کی خواہش لئے میں نے پہلے کچھ کھانے کا سوچا اور پھر کھانے سے فراغت اور کچھ دیر سستانے کے بعد ان کے پاس جا بیٹھا۔ سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے، میں اس شش و پنج میں کچھ دیر خاموش ہوا کہ انگریزی میں بات کی جائے یا عربی میں ، انگریزی کا انتخاب کرکے تعارف جاننا چاہا۔ انہوں نے جوابا اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ان کا تعلق ساؤتھ افریقہ سے ہے اور پھر میرے متعلق جاننے پر کہ پاکستان سے ہوں اردو میں گفتگو شروع کردی۔ بہت حیرانی ہوئی کہ انہیں اردو پر اس قدر دسترس کیسے ہے!
سوال کرنے پر بتانے لگے کہ پاکستان آنا جانا رہتا ہے اور زیادہ تبلیغ کے سبب ہی سفر ہوتا ہے۔ گپ شپ کرنے پر معلوم ہوا کہ انہیں پاکستان کے متعلق کافی معلومات ہیں۔ اب کے وہ تین برس کے بعد سفر کر رہے تھے تو پوچھنے لگے کہ پاکستان کے کیسے حالات ہیں؟ کیا کوئی سیاسی استحکام آیا یا نہیں؟
میں نے مختصرا انہیں حالات سے آگاہ کیا اور امید کا پہلو نمایاں رکھا۔ میرے جواب پر وہ گویا ہوئے کہ خوامخواہ لوگ پاکستان کے متعلق اتنے بدگمان رہتے ہیں جبکہ ہم جب بھی گئے ہیں ہمیں بہت اکرام سے نوازا گیا۔ حتی کہ کئی مرتبہ شمالی علاقہ جات کی سیر بھی کی اور وہاں ایسے مہمان نواز لوگ دیکھے جو ہمیں بیرون ملکی مہمان پا کر کسی چیز کے پیسے لینے کو تیار نہ ہوتے تھے جبکہ پوری دنیا میں سیاحوں کو دو دوہاتھ لوٹا جاتا ہے۔ (واضح رہے کہ ان سے مراد حقیقی “شمالی علاقہ جات” ہی ہیں)۔
بتانے لگے کہ آج بھی راستے میں ساتھ بیٹھے مسافر نے جب پاکستان کے متعلق کوئی منفی بات کی تو میں نے اسے فوری ٹوکتے ہوئے اس کی موجود معلومات کی تصحیح کروائی کہ وہ ملک اور اس کے رہنے والے باشندے بہت اچھے اور سلجھے لوگ ہیں چنانچہ ان کے حکمران یا اشرافیہ ان کی عوام کی نمائندہ یا رویوں کی عکاس ہرگز نہیں ہے۔
خوشی ہوئی کہ ہمارے لوگوں کے متعلق بھی ایسی خوبصورت رائے پائی جاتی ہے۔ اندازہ ہوا کہ بسا اوقات چند اہل دل کا دل کھولنا پوری پوری قوم کا تعارف اور پہچان کیسے بن جاتا ہے۔
ساؤتھ افریقہ میں اسلام کے کام اور ممکنہ راستوں پر سوال جواب ہوئے تو بتانے لگے کہ وہاں اسلام کی بہت پیاس پائی جاتی ہے مگر ہماری دعوت میں بہت کمی ہے کہ ہم اپنا پیغام صحیح طور پہنچانے میں قاصر رہتے ہیں۔ پھر ایک مشکل کا ذکر کرنے لگے کہ لوگ اگر مسلمان ہو بھی جائیں تو سب سے بڑا چیلنج ایسے ماحول کا نہ مل پانا ہے جو ایمان کی حفاظت کا باعث ہو اور کھلے بندوں ہوتی برائی سے محفوظ رکھنے میں معاون و مددگار ہو۔
میرے استفسار پر بتانے لگے کہ بلا شبہ کوشش کی جاتی ہے کہ مسلم آبادیاں ایک جگہ جمع ہو سکیں مگر یہ بھی کسی قدر ہی ممکن ہوپاتا ہے۔ پھر آج کے اس گلوبل ورلڈ نے کہاں آبادیوں کو دور ہوتے ہوئے بھی محفوظ رہنے دیا ہے۔ اس جدید نظام نے تو پوری دنیا کو ایک ویلج میں یکجا کر دیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے مہیب سائے تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ پوری دنیا انہی کی پیش کردہ لباس و اقدار سے عاری تہذیب اختیار کر لے اور ایک یونیفارم میں آجائے جس میں تمام تہذیبیں گم ہوجائیں۔ چنانچہ یہ گُر بھی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو پارہا اور نہ صرف نومسلموں کو ایمان کی حفاظت مشکل لگتی ہے بلکہ ہم جو چند پشتیں قبل اسلام قبول کرچکے ہم اور ہمارے بچے بھی اس کا شکار ہوئے جارہے ہیں۔

ان کی پریشانی بلاشبہ آج کے اس دور میں ہر معاشرے کے لئے ہی ایک بڑا چیلنج تھی کہ بھلے وقتوں میں تو کہا جاتا تھا کہ ایسی محفلوں یا خطوں کا انتخاب ایمان کی حفاظت میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں مگر آج کے نوجوان کو پورے زوروشور اور منصوبے سے میسر کی جانے والی تنہائی اور پرائیویسی کے نام پر خلوت میں مہیا کی جانے والی مکمل آزادی نے اس کی معصومیت چھین لی ہے۔ بچے جلد بالغ ہونے لگے ہیں اور بالغ و نابالغ اپنی جوانیوں کو گھر کی چاردیواری میں ہوتے ہوئے بھی سربازار نیلام کئے دے رہے ہیں اور ان کااصلی گاہک ان کی اس نیم برہنگی کو مہنگے داموں خریدنے کو بیتاب ہوا بیٹھا ہے۔ تبھی آج ہمارے معاشرے میں قیمتی جوانیاں ٹک ٹاک اور یوٹیوب کو اپنے دام لگوانے کے خواب دیکھنے لگی ہیں۔ جہاں بیہودگی کو مول دیا جاتا ہے اور حقیقی ٹیلینٹ کو روندا جاتا ہے۔ پورے میڈیا پر بھانڈوں کا راج ہے۔
اس کا علاج ماسوائے اس کے کچھ نہیں کہ ان جوانیوں پر ترس کھاتے ہوئے اور انہیں حلال و حرام کی تمیز دیتے ہوئے کسی بلند مقصد سے روشناس کروایا جاسکے وگرنہ یہ سسکتی جوانیاں کل کو سلگتے معاشروں کی بنیاد رکھ رہی ہوں گی۔

(جاری ہے)

عبداللہ مدثر
عبداللہ مدثرhttps://alert.com.pk/
عبد اللہ مدثر ایک ممتاز معلم، محقق اور لکھاری ہیں جو تعلیم و تدریس کے ذریعے نوجوان نسل کی تربیت میں مصروف عمل ہیں۔ آپ زمانہ طالب علمی میں 'ماہنامہ ابابیل' اور 'ماہنامہ امہ' کے مدیر رہ چکے ہیں جو ثقافتی مطالعات ، اخلاقی تربیت اور اردو زبان کی ترویج میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آپ رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد میں ڈائریکٹر اکیڈمکس اور ڈائریکٹر تربیہ کے عہدوں پر فائض ہیں۔ آپ نے ترکی، ملائیشیا، سری لنکا، انڈونیشیا، برطانیہ، قطر اور سعودی عرب سمیت مختلف بین الاقوامی اسفار کئے ہیں جن کے سفرنامے نہ صرف معلوماتی ہیں بلکہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے عکاس بھی ہیں۔آپ کو سیاحت اور مختلف تہذیبوں کے مطالعے میں گہری دلچسپی ہے جسے اپنے قارئین کے سامنے نہایت عمدہ اسلوب میں پیش کرتے ہیں۔
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں