سوشل میڈیا، جسے کبھی "عوامی آواز” اور "جمہوری اظہار” کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو ریاستوں کو کمزور، معاشروں کو منقسم، اور ذہنوں کو زہریلا کر رہا ہے۔ جہاں پہلے اخبارات اور ٹیلی ویژن سے خبر آتی تھی، آج فیس بک کی پوسٹ اور واٹس ایپ کی فارورڈ میسج میں آگ لگتی ہے۔ یہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ نفرت، فتنہ، اور سیاسی جوڑ توڑ کے مہلک ہتھیار ہیں۔
وائرل مواد: فیک نیوز یا نیا پروپیگنڈا؟
جھوٹی خبریں، ایڈیٹڈ ویڈیوز، اور جذباتی پوسٹس سیکنڈوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچتی ہیں۔ یہ مواد اکثر کسی مخصوص گروہ یا عقیدے کے خلاف نفرت کو ہوا دیتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہمات، میانمار میں روہنگیا مخالف پروپیگنڈا، اور پاکستان میں مذہبی یا لسانی گروہوں کو نشانہ بنانے والی پوسٹس اس کا عملی ثبوت ہیں۔
ذہنی حملے: سائیکولوجیکل وار فئیر کا نیا روپ
سوشل میڈیا اب صرف معلوماتی پلیٹ فارم نہیں رہا، یہ ایک نفسیاتی میدانِ جنگ ہے۔ الگورتھمز لوگوں کو انہی باتوں کی فیڈ دیتے ہیں جو ان کے جذبات کو بھڑکائیں۔ نتیجتاً ایک "ایکو چیمبر” بنتا ہے، جہاں صرف نفرت، شک اور شدت پسندی کی آوازیں گونجتی ہیں۔
سیاسی فائدے، عوامی نقصان
پوری دنیا میں سیاست دان اور ریاستیں سوشل میڈیا کو اپنی مرضی کے بیانیے کے فروغ کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ جعلی ٹرینڈز، بوٹ اکاؤنٹس، اور سوشل میڈیا ٹیمز اب انتخابی حکمت عملیوں کا حصہ ہیں۔ عوام کو صرف معلومات نہیں دی جا رہی بلکہ انہیں مخصوص رخ پر سوچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
واٹس ایپ: بند دروازوں کے پیچھے نفرت کی پھیلائی گئی آگ
واٹس ایپ جیسی ایپس جہاں ایک طرف پرائیویسی دیتی ہیں، وہیں دوسری طرف انہیں افواہوں اور نفرت آمیز مواد پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، کوئی نگرانی نہیں — صرف فارورڈ، فارورڈ اور فارورڈ۔
ذمہ داری کس کی ہے؟
یہ سوال اب لازمی ہے: کیا ذمہ داری صرف صارفین پر ہے؟ یا ان کمپنیوں پر جو اپنی پلیٹ فارمز کو منافع کے لیے کھلا چھوڑ دیتی ہیں؟ یا ریاستوں پر، جو صرف اپنے مفاد کے وقت ان پلیٹ فارمز پر پابندی لگاتی ہیں؟
نتیجہ
سوشل میڈیا نے جہاں آزادیِ اظہار کو وسعت دی ہے، وہیں اس نے سماجی توازن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ محض ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم نہیں، بلکہ ایک ایسی طاقت بن چکا ہے جو ذہنوں پر، معاشروں پر اور قوموں کی سالمیت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو صرف تفریح یا معلومات کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ سماجی و سیاسی عنصر سمجھیں — اور اس کے استعمال میں شعور، احتیاط اور ذمہ داری کو اولین ترجیح دیں۔