بدھ, دسمبر 18, 2024

شام میں انقلابی تحریک کے سربراہ ابو محمد الجولانی پُراسرار شخصیت ہیں کیا؟

کیا شام میں  صدر بشارالاسد کی خون آشام  حکومت کا تختہ الٹنے  والی  مسلح  تحریک  کے سربراہ  ابو محمد الجولانی  ایک پراسرار شخصیت ہیں؟اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ نہیں ۔شاید برطانیہ کے  سرکاری نشریاتی ادارے  بی بی سی کو  ان کی ’’پراسراریت ‘‘کا اب  پتا چلا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے ان سے متعلق  ’’طشت از بام‘‘ حقائق  پر مبنی مواد کو پُراسرار بنا کر پیش کردیا ہے۔ وہ بھی برطانوی خبررساں ادارے رائیٹرز کی تقلید میں۔

أبو محمد الجولانی  کا اصل نام احمدحسین  الشرع  ہے۔وہ سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض میں پیدا ہوئے تھے  جہاں ان کے والدین بشارالاسد کے والد حافظ الأسد کی   سفاک حکومت کی چیرہ دستیوں سے بچنے کے لیے نقل مکانی کرگئے تھے ۔ان کے والد سعودی عرب کی وزارت تیل میں ملازم رہے تھے۔ابومحمد کا آبائی تعلق    اسرائیل کے زیر قبضہ شامی علاقے الجولان سے  ہے اور اسی نسبت سے وہ  الجولانی کہلاتے ہیں۔ان کا خاندان   1967ء کی چھے روز جنگ میں اسرائیل کے الجولان کی چوٹیوں پر  قبضے کے بعد ہجرت پر مجبور ہوگیا تھا  اور وہ دوسرے کئی خاندانوں کے ساتھ   دارالحکومت دمشق اور ملک کے دوسرے علاقوں میں جابسے تھے۔ بی بی سی    نےاپنی  رپورٹ  میں لکھا ہے کہ وہ عراق کے علاقے الجولان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس کے کوئی ٹھوس   شواہد پیش نہیں کیے  جبکہ  وہ  شامی ہیں، مقامی جڑیں رکھتے ہیں تو وہ پراسرار کیسے ہوگئے؟ دراصل  بی بی سی ایسے بڑے میڈیا ادارے بھی  پاکستان ساختہ  یوٹیوبروں کی طرح اپنا سودا بیچنے کے لیے ایسا مواد  لکھواتے  اور شائع کرتے ہیں۔ بعض  اطلاعات کے مطابق  وہ عراق میں 2003ء  کے بعد أبو مصعب الزرقاوی  کے زیرقیادت   القاعدہ (  تب تک صرف دولت اسلامیہ عراق)  کی صفوں  میں شامل ہوکر امریکی فوج کے خلاف لڑائی میں  حصہ لے چکے ہیں۔وہاں وہ گرفتار ہوئے اور پانچ سال تک امریکی جیل میں قید رہے تھے۔

وہ شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف 2011ء کے أوائل میں عوامی مزاحمتی تحریک شروع ہونے کے بعد لوٹے تھے اور انھیں داعش کی پیش رو تنظیم  دولت اسلامیہ عراق کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے شام  میں بھیجا تھا  تاکہ وہاں وہ    القاعدہ کی تنظیم سازی کرسکیں۔ انھوں نے 2012ء  میں   جبھۃ  النصرۃ ( النصرہ محاذ) کے نام سے تنظیم قائم کی  تھی  ۔ اس  کو ایک سال بعد   القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری نے  اپنی سرپرستی میں لے  لیا تھا اور اس پر اپنا چغہ ڈال دیا تھا۔چناں چہ  امریکا نے انھیں 2013ء میں  القاعدہ سے تعلق  کے الزام  میں  دہشت گرد قرار دے دیا تھا اور ان کی تنظیم پر بھی پابندیاں عاید کردی تھیں۔شام اور بعض دوسرے ملکوں نے بھی الجولانی اور ان کی تنظیم  جبھۃ النصرہ کو دہشت گرد قراردیا تھا۔ النصرہ محاذ  پر پابندی کے   بعد 2017ء  میں انھوں نے   ہیئت تحریرالشام کے نام سے نئی تنظیم قائم کی تھی اور اس میں بعض چھوٹے گروپ بھی شامل ہوگئے تھے۔دلچسپ  بات یہ ہے کہ  ترکیہ نے  الجولانی  کے زیر قیادت  ہیئت تحریرالشام کو دہشت گرد قراردے رکھا  ہے جبکہ وہ اسی تنظیم کے اتحادی دیگر مسلح دھڑوں کی حمایت بھی کررہا ہے۔ترکیہ کے حمایت یافتہ گروپ شامی قومی فوج (ایس این اے) اور سابق فوجیوں پر مشتمل جیش الحر  ہیئت تحریرالشام کے اتحادی ہیں اور اسی کی حمایت کی بدولت انھوں نے حالیہ دنوں میں شامی دارالحکومت کی جانب تیز رفتار پیش قدمی کی ہے۔

بشارالاسد ، ایران اور روس  کے اتحاد ثلاثہ نے  دمشق   کے نواحی شہروں اور صوبوں   حماۃ اور الدرعا  میں مسلح بغاوت کو فرو  کرنے کے لیے مزاحمتی گروپوں کے ساتھ 2016ء سے 2018ء تک  جنگ بندی کے معاہدے کیے تھے۔ ان کے تحت وہاں سے مزاحمت  کار  شامیوں  اور ان کے حامیوں کے خاندانوں کو  شمال مغربی صوبہ ادلب میں  جبری منتقل کردیا گیا تھا  اور ایک طرح سے  انھیں ایک  بڑے بند علاقے  میں   ‘مسدود’ کردیا  گیا تھا۔   ادلب اور اس  سے  متصل صوبہ حلب کے علاقوں   پر ہیئت تحریرالشام   اور اس کے اتحادی گروپوں کا کنٹرول  برقرار رہا ہے  اور انھوں نے أبو محمد الجولانی  کے زیرقیادت  وہاں اپنا  نظم ونسق قائم کررکھا تھا اور وہاں گذشتہ  دس  ، بارہ سال سے اپنی خودمختار حکومت چلا رہے تھے۔اس  وسیع علاقے پر  حکومت کے اس تجربے کی وجہ سے ان  کی تنظیم  کو  ملک کا نظم ونسق  سنبھالنے میں کوئی  مشکل  درپیش نہیں ہوگی  کیونکہ    انھوں نے  ادلب اور اس سے متصل  حلب میں اپنے زیرقبضہ علاقوں میں  اپنے جنگجوؤں کو منظم کیا اور بشار الأسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اپنی  تیاریاں جاری رکھی   تھیں۔حالیہ دنوں میں  انھوں نے    گذشتہ ایک سال کے دوران میں اسرائیل کی غزہ پر مسلط  کردہ تباہ کن جنگ ،صہیونی فوج کے لبنان پر حملوں اور ایران کے خلاف  کارروائیوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور شام کے معاشی و تجارتی مرکز حلب پر یورش  کے ایک ہفتے کے بعد ہی   آٹھ دسمبر کو دارالحکومت دمشق کو فتح کر لیا ہے اور بشارالاسد  اپنے خاندان سمیت فرار ہوکر روس چلے گئے ہیں۔اس پس منظر میں یہ سب کچھ کوئی اتنا بڑا  انہونا واقعہ بھی نہیں  ، جیسا کہ بعض میڈیا ذرائع  باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

پُراسرار شخصیت؟ ماضی سے تین خبروں کا انتخاب

اب یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے ماضی کے دریچوں سے ’مشتے نمونہ از خروارے‘ ابومحمد الجولانی سے متعلق تین خبریں  معمولی قطع وبرید کے ساتھ  پیش کی جاتی ہیں، جن کے مطالعے سے وہ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ کیا ہیئت تحریرالشام کے سربراہ  کوئی پُراسرار شخصیت ہیں؟

پہلی خبر9مئی 2013کی ہے:
النصرۃ محاذ نے اپنے سربراہ ابو محمد الجولانی کے زخمی ہونے کی تردید کردی

 شامی حکومت پر جنگجو گروپ سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلانے کا الزام

 ’’شام میں صدر بشارالاسد کی فوج کے خلاف برسرپیکار  ایک بڑے جہادی گروپ النصرۃ محاذ نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ دارالحکومت دمشق کے نواح میں لڑائی کے دوران  میں اس کے سربراہ ابو محمد الجولانی زخمی ہوگئے ہیں۔النصرۃ کے ایک کمانڈر آلِ غریب المہاجر القحطانی نے ایک ٹویٹ میں لکھا : ”پیارے بھائیو! یہ نوٹ فرمائیں،یہ جو بعض چینل شیخ الجولانی کے دمشق میں زخمی ہونے سے متعلق اطلاع دے رہے ہیں،یہ درست نہیں ہے۔الحمد للہ”۔

 انھوں نے شامی حکومت پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ ملک کے وسطی علاقے میں ان کی تنظیم کے ایک اور جنگجو کی موت سے متعلق  بھی جھوٹی خبر پھیلا رہی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ”اگر قیادت زخمی ہوجائے یا قیادت کی موت واقع ہوجائے تو جہاد پھر بھی تاقیام قیامت جاری رہے گا لیکن ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ شیخ جولانی کے زخمی ہونے کی خبر غلط ہے”۔برطانیہ میں قائم شامی  رصدگاہ برائے انسانی حقوق نے جنوبی صوبہ دمشق میں شیخ جولانی کے زخمی ہونے کی اطلاع دی تھی۔آبزرویٹری شام میں موجود اپنے کارکنان ،وکلاء اور ڈاکٹروں کے نیٹ ورک کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد  پر ہلاکتوں یا زخمیوں کی تعداد کے بارے میں بیان جاری کرتی ہے اور اس نے اپنے بیان میں صرف یہ کہا تھا کہ شیخ جولانی کے پاؤں میں زخم آیا ہے۔ واضح رہے کہ ابومحمدجولانی نے گذشتہ ماہ  ( اپریل 2013ء میں) القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری سے اظہار وفاداری کا اعلان کیا تھا اور ان کے اس اعلان سے قبل ہی امریکا نے النصرۃ محاذ کو عراق میں القاعدہ کی شاخ سے تعلق کے الزام میں دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ النصرۃ محاذ شام میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا خواہاں ہے۔اس جنگجو گروپ نے شام میں متعدد خودکش بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کی ہے جس کی وجہ سے اس کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا جاتا لیکن اس کے جنگجو جدید ہتھیاروں سے لیس شامی فوج کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں اور انھوں نے شام کے شمالی علاقوں میں خاص طور پر اسدی فوج کے مقابلے میں جیش الحر کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔النصرۃ محاذ کے جنگجوؤں کی جرآت مندی اور ان کی کامیابیوں پر دادوتحسین کے ڈونگرے بھی برسائے جارہے ہیں‘‘۔

دوسری خبر23 جنوری 2014 کی ہے:
’’ڈاکٹر الظواہری کا اسلامی جنگجوؤں سے باہمی لڑائی بند کرنے کا مطالبہ

 شام میں باہم برسرپیکار گروپوں سے اسدی فورسز کے خلاف متحد ہونے پر زور

القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری نے شام میں جہادی جنگجوؤں اور مقامی اسلامی باغیوں کے درمیان جاری باہمی لڑائی فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ڈاکٹر ایمن الظواہری نے ویڈیو شیئرنگ کی ویب سائٹ یو ٹیوب پر اپ لوڈ کی گئی ایک آڈیو ریکارڈنگ میں تمام جہادی گروپوں اور شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کے خواہاں ہر آزاد فرد پر زوردیا ہے کہ وہ جہادی اور اسلامی جنگجوؤں کے درمیان فوری طور پر لڑائی ختم کرائیں۔

شام میں صدر بشارالاسد کی وفادار سکیورٹی فورسز کے خلاف برسرپیکار باغی گروپوں پر مشتمل اسلامی محاذ اور القاعدہ سے وابستہ دولت اسلامی عراق وشام (داعش) کے جنگجوؤں کے درمیان گذشتہ قریباً  ایک ماہ سے شمالی صوبوں حلب اور ادلب میں خونریز لڑائی جاری ہےاور اسلامی محاذ نے القاعدہ کے جہادیوں کو ان دونوں صوبوں کے بہت سے علاقوں سے نکال باہر کیا ہے۔شامی  جنگجو القاعدہ کے اس گروپ پر صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف جاری مزاحمتی جنگ کو ہائی جیک کرنے اور اس کا آلہ کار ہونے کے الزامات عاید کررہے ہیں۔ان کے درمیان داعش کے زیرانتظام چیک پوائنٹس اور اڈوں پر باغی جنگجوؤں کے حملوں کے بعد لڑائی شروع ہوئی تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے پر انسانی حقوق پامال کرنے کے الزامات عاید کررہے ہیں۔داعش کے سربراہ ابو بکرالبغدادی نے اگلے روز شام میں باغی جنگجو گروپوں کے ساتھ جاری لڑائی کے خاتمے کے لیے ان سے رجوع کیا ہے۔انھوں نے  انٹرنیٹ پر جاری کردہ ایک آڈیو بیان میں کہا کہ ”آج دولت اسلامی لڑائی کے خاتمے کے لیے آپ سے رجوع کررہی ہے تاکہ نصیریہ کے ساتھ لڑائی پر توجہ مرکوز کی جا سکے”۔ واضح رہے کہ جہادی بالعموم شامی حکومت کے لیے نصیریہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ابوبکر بغدادی نے شام کے باغی گروپوں پر راہ راست سے بھٹک جانے کا الزام عاید کیا اور کہا کہ جو کوئی بھی ہم سے لڑرہا ہے،اس کو اپنے موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے۔انھوں نے اپنے مخالف باغی جنگجوؤں کو مخاطب کرکے کہا کہ ”آپ نے ہمیں اس وقت پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے جب ہمارے فوجی اگلے محاذوں پر تھے”۔

 لیکن ان سے پہلے داعش کے ایک کمانڈر نے شامی جنگجوؤں کو خبردار کیا تھا کہ اگر انھوں نے ان کے گروپ کے خلاف مسلح کارروائی جاری رکھی تو وہ خودکش بم حملے کریں گے۔داعش کے خلاف لڑائی کی قیادت کرنے والے باغی گروپ احرارالشام سے تعلق رکھنے والے ایک جنگجو کا کہنا ہے کہ ”القاعدہ والے صرف جنگجوؤں ہی کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو خوف زدہ کرنے کے لیے خودکش حملے کررہے ہیں”۔

  داعش کے ترجمان ابومحمدالعدنانی نے گذشتہ ہفتے ایک ویڈیو بیان میں اپنے جنگجوؤں سے کہا تھا کہ وہ دوسرے باغی گروپوں کو ”تہس نہس” کردیں۔انھیں (باغیوں کو) مکمل طور پر ختم کردیں اور سازش کو اس کی پیدائش پر ہی قتل کردیں”۔داعش نے یہ دھمکی القاعدہ سے وابستہ ایک اور گروپ النصرۃ محاذ کے سربراہ ابو محمد الجولانی کے بیان کے بعد دی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان کا محاذ بھی شام کے دوسرے باغی گروپوں کی داعش کے خلاف لڑائی میں شامل ہورہا ہے۔انھوں نے داعش کی غلطیوں کو اس لڑائی کا سبب قراردیا اور کہا کہ اس نے الرقہ میں النصرۃ کے کمانڈر کو گرفتار کر لیا ہے۔ جولانی نے اپنے پیغام میں تمام باغی گروپوں سے کہا تھا کہ وہ صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے مسلح جدوجہد میں متحد ہوجائیں،تمام باغی گروپوں کے درمیان باہمی لڑائی کا خاتمہ ہونا چاہیے اور باغیوں کو صدر بشارالاسد کی فورسز کے خلاف لڑائی پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

 واضح رہے کہ شام میں القاعدہ کے دھڑوں میں تقسیم نومبر 2013ء میں عالمی تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے ایک فیصلے کے بعد رونما ہوئی تھی۔انھوں نے شام میں النصرۃ محاذ کو القاعدہ کا پرچم استعمال کرنے کی اجازت دی تھی اور داعش کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ اس سے پہلے جون میں انھوں نے اس ضمن میں ایک تحریری فرمان جاری کیا تھا لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ڈاکٹر ظواہری نے کہا کہ صرف النصرۃ محاذ شام میں ان کے جہادی گروپ کی شاخ ہے اورجنرل کمان کو رپورٹ کرنے کا پابند ہے۔اس لیے وہاں داعش  کی تنظیم کو ختم کردیا جائے۔وہ جہادی بینر استعمال نہ کرے اور صرف ریاست اسلامی عراق کو برقرار رکھا جائے‘‘۔

یہ 6 جولائی 2017ء کی خبر ہے:

’’ابومحمد الجولانی نے 2014ء  میں  الجزیرہ ٹیلی ویژن کو  پہلا  انٹرویو دیا تھا اور اس میں اپنے چہرے پر ڈھاٹا ماررکھا تھا۔النصرہ محاذ نےعالمی پابندیوں سے بچنےکے لیےالقاعدہ سے جولائی 2016ء  میں اپنا  ناتا توڑ لیا تھا اور اپنا نام تبدیل کرکے ہئیت  تحریرالشام  رکھ لیا تھا۔ اس وقت  الجزیرہ نیوز چینل  نے ان کا ایک ویڈیو پیغام بھی نشر  کیا تھا اور وہ اس  کے ایک پروگرام میں  بھی نمودار ہوئے تھے۔الجزیرہ کے اینکر احمد منصور نے اس پروگرا م میں ابو محمدجولانی کو مخاطب کرکے کہا: ’’آپ کی حکمتِ عملی خاص طور پر جہاد کے معاملے میں، الاخوان المسلمون سےکچھ زیادہ مختلف نہیں ہے تو پھر آپ لوگ الاخوان المسلمون کے ارکان کیوں نہیں بن جاتے؟آ پ القاعدہ سے ناتاجوڑ کردنیا کو اپنے پیچھے لگانے کے بجائے خود کو الاخوان کے کارکنان کیوں نہیں قرار دے دیتے‘‘۔

 الجزیرہ کی الجولانی کو الاخوان المسلمون کا کارکن تسلیم کرانے کی یہ ایک کوشش تھی کیونکہ تب  الاخوان مصر ، سعودی عرب اور بعض عرب ممالک کی پابندیوں کے باوجود  مغرب کے لیے قابل قبول تھی۔جب جولانی الجزیرہ کےاینکر کے جھانسے میں نہیں آئے توپھرموخر الذکر نے یہ کوشش کی کہ وہ کم سے کم یہ کہہ دیں کہ الاخوان المسلمون اور القاعدہ کا نظریہ ایک ہی جیسا ہے۔چناں چہ پھر الجولانی  نے یہ تسلیم کر ہی لیا کہ یہ دونوں جماعتیں ایک ہی نظریے  کی پیداوار ہیں اور اسی پر عمل پیرا ہیں‘‘۔

امتیاز احمد وریاہ
امتیاز احمد وریاہhttps://alert.com.pk/
I am an experienced journalist and writer. My career as a journalist has spanned over 30 years. Punjabi is my native language. I hold Master of Science degrees in Media Studies, Psychology and History. I have translated seven books from English into Urdu (including two books on Journalism) and I am also a co-author of three textbooks. I have translated over 1000 articles and reports on different topics from English into Urdu and Punjabi. I have reviewed, proofread, and edited numerous books on Islam, Pakistan, History, Urdu language and literature, Journalism, Social Studies etc. My research topic for MS Media Studies degree program was “Problems of Orthography in Urdu Journalism of Pakistan.” (پاکستان کی اردو صحافت میں املا کے مسائل) I have written extensively on this topic and my research articles have been published in different periodicals and research journals. I have worked with different national and international media and development organizations as a writer, translator, and editor.
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں