غلط العام اور غلط العوام ،یہ دو الگ تراکیب ہیں۔( درست ؛غَ لَ ط)
غلط العام سے مراد ایسی غلطی ہے جس کو فصحاء اور اہل زبان نے درست مان لیا ہو جبکہ غلط العوام کسی لفظ کے تلفظ اور املا کی ایسی غلطی ہے جو زبان زدِعام تو ہوجائے لیکن اس کے باوجود ایسے لفظ کو درست تسلیم نہیں کیا جاتا اور وہ غلط ہی رہتا ہے۔جیسے ان دنوں کرسمس کے تناظر میں بہت استعمال ہونے والا لفظ تہوار ہے۔اس کا درست املا تیوہار ہے ۔اسی طرح دھوکا ، ڈاکا ، دھماکا وغیرہ کو دھوکہ ، ڈاکہ اور دھماکہ لکھنا۔ نیز بہت سے لوگ اور بالخصوص صحافی حضرات چیخ پکار کو چیخ وپکار لکھتے اور بولتے ہیں جبکہ دو ہندی یا سنسکرت الفاظ پر مبنی ترکیب کے درمیان میں عربی اور فارسی کا واؤ حرف عطف نہیں آتا۔
غلط العام اور غلط العوام کا قاعدہ ۔ غلط العام اردو کے کسی لفظ یا ترکیب کی ایسی غلطی ہے جس کو اہل ِزبان ،فصحا اور قواعد کے علماء نے درست مان لیا ہو۔اس کو گوارا کیا جائے گا۔ جیسے ”فوق البھڑک لباس” قواعد کی رو سے یہ بالکل غلط ترکیب ہے لیکن فصحا اس کو درست مانتے اور لکھتے ہیں ،اس لیے یہ درست ہے مگر اس کے برعکس غلط العوام لفظ /الفاظ کی ایسی غلطی ہے جس کو اہلِ زبان اور فصحا درست تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ کوئی غلط العوام لفظ غلط ہی رہتا ہے خواہ اس کو عطاء الحق قاسمی ، علامہ ہارون الرشید ، سلیم صافی یا یاسر پیرزادہ صاحبان یا کوئی اور۔ان کے لکھنے سے کوئی غلط لفظ درست نہیں ہوسکتا۔ان کے علاوہ ہمارے دوسرے لکھاری اور ’’مایہ ناز ‘‘ ٹی وی اینکر اکثر آئے دن کو آئے روز ،بے نیل مرام کو بے نیل ومرام ،زندۂ جاوید کو زندہ وجاوید ،چیخ پکار کو چیخ وپکار لکھتے اور بولتے رہتے ہیں۔جناب سلیم صافی نے تو اپنے ایک کالم میں بیل ( جانور) منڈھے چڑھا دیا تھا، شاید انھیں کبھی کوئی بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دی۔ہمارے ہاں نامی لکھاریوں اور صحافیوں میں ایک اور غلط العوام کا چلن ہوچکا ہے۔ وہ وفاقی دارالحکومت یا کسی صوبائی دارالحکومت کو دارالخلافہ لکھتے ہیں۔ بھائی کہاں کی خلافت اور کہاں کا دارالخلافہ؟سیدھا دارالحکومت لکھیں۔
ایک اہم بات ؛ شہروں کے دیسی ناموں کو املا کے بعض قواعد میں استثنا حاصل ہے۔اگر کسی شہر کے نام کا آخری حرف ’’ہ ‘‘ہے تو ان کے آخر میں ”ہ” ہی لکھا جائے،ان کے آخر میں الف نہ اٹکایا جائے۔ جیسے بنگلہ ، اوکاڑہ ، ڈسکہ ، کولکتہ ۔ وغیرہ ۔یہ اسی طرح درست ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی اردو املا کمیٹیوں نے بھی ا ن ناموں کو اسی طرح لکھنے کی سفارشات کی تھیں لیکن اب جنگ گروپ کے اخبارات جیو نیوز کی خبروں اور ٹکروں میں شہروں کے ان ناموں کو آخر میں الف سے لکھا جارہا ہے، جیسے اوکاڑا ۔ یہ ایک بدعت ہے اور انھیں شہروں کے ناموں کو بگاڑنے سے گریز کرنا چاہیے۔
اہلِ زبان
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہلِ زبان کون ہیں؟ راقم کے نزدیک ہر وہ شخص اردو لسانیات کا اہل زبان کہلا سکتا ہے جس کو اس زبان پر مکمل دسترس اور مہارت ہے۔وہ پنجابی ، سندھی ، پٹھان اور بلوچ ہوسکتا ہے۔اس اعزاز کے لیے کسی خاص علاقے ، یوپی ، سی پی یا دہلی سے تعلق ہونا ضروری نہیں۔ راقم نے الفاظ کی ’’ کھال‘‘ اتارنے کا فن پنجابی اساتذہ اور اہل علم ہی سے سیکھا ہے اور ان ایسی اردو زبان وقواعد پر مہارت تو شاید ان کی بھی نہیں ہوگی جو معروف معنوں میں اردو والے کہلاتے ہیں۔ان میں چند ایک نام گنوائے دیتا ہوں:
1۔جناب ناصر بلوچ ، پروفیسر گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور( میرے استاد اردو )
2۔استاذ مکرم محمد عبدالرشید صاحب( اسکولی استاد،انتہائی شفیق مگر غلط تلفظ پر ہماری ڈنڈوں سے تواضع بھی کرتے تھے، گورنمنٹ ہائی اسکول کوٹلی لوہاراں ، سیال کوٹ)
3۔جناب پروفیسر محمود احمد کاوش صاحب۔ وہ فیس بُک پر بھی ہماری رہ نمائی کرتے رہتے ہیں۔آج کل جامعہ نارووال میں پڑھاتے ہیں۔
4۔جناب ڈاکٹر عطش درانی مرحوم ۔(میرے ایم ایس میڈیا اسٹڈیز کے مقالے کے نگران بھی تھے،ایم ایس ورڈ پر ہم جو اردو لکھتے ہیں، اس میں سب سے زیادہ ڈاکٹر درانی صاحب کی خدمات ہیں،وہ مائیکرو سوفٹ کے مشیر رہے تھے )۔
5۔جناب تجمل حسین شاہ صاحب ، سابق ڈائریکٹر ایف ڈی ای ۔
6۔جناب ڈاکٹر شفقت علی جنجوعہ ۔
7۔محترم تاج محمد صاحب۔
نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام نصابی کتب کی تدوین کے کام میں موخرالذکر چار شخصیات سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
پس تحریر :
ایک عظیم شخصیت جو مَہد سے آج تک مجھے پڑھا، لکھا اور سیکھا رہی ہیں۔ وہ میرے والد گرامی چودھری نبی احمد صاحب ہیں۔وہ مجھے جلد سازی ، کھانا پکانے کی تراکیب سے اسکولی استاد تک سب کچھ پڑھانے ، لکھانے اور سیکھانے کے لیے ہمہ وقت کچھ نا کچھ کرتے رہے ہیں ۔آج تک وہی مجھے میرے پسندیدہ موضوعات کی کتب فراہم کرتے ہیں اور سرکنڈے کے قلم ، ہولڈر اور نب والے پین سے پارکر اور شیفر کے بیش قیمت مختلف النوع اقلام تک وہی سب کچھ لے کر دیتے ہیں ۔کتب اور اسٹیشری کے معاملے میں وہ بہت اعلیٰ ذوق کے مالک ہیں۔میں نے آٹھویں سے ،ایم اے ،ایم ایس سی،ایم ایس اور پی ایچ ڈی تک تمام امتحانات ان ہی کے عطا کردہ پارکر اور شیفر کے قلموں سے دیے ہیں۔والد صاحب اور دادا جان چودھری عبداللہ صاحب مرحوم کی شخصیات الگ سے ایک مضمون نہیں، کئی مضامین کی متقاضی ہیں۔ان کی اپنے گاؤں کانواں لِٹ اور علاقے میں تعلیم کے فروغ اور سماجی ترقی کے لیے بہت خدمات ہیں اور نئی نسل کو شاید کچھ زیادہ پتا نہیں۔ان شاء اللہ بہت جلد ان کی شخصیات کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالوں گا۔بالخصوص دادا جان کی قیام پاکستان کے دوران میں خدمات اور بعد میں گاؤں کی تعمیر وترقی کے لیے کردار کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ایک تیسری شخصیت بھی ہیں۔ وہ چودھری اللہ دتہ مرحوم تھے۔وہ کانواں لِٹ کے حقیقی معنوں میں سرسید تھے۔ان کے بارے میں ’’گاؤں کا سرسیّد ‘‘ کے عنوان سے اردو اور پنجابی میں دو مضمون لکھ رکھے ہیں۔وہ بھی جلد قارئین کی نذر کیے جائیں گے۔