بدھ, دسمبر 18, 2024

فیک نیوز کیا ہے؟

کیا دنیا فیک نیوز کی آماج گاہ ہے ؟اگر موجودہ عالمی ،ابلاغی اور سیاسی منظرنامے میں اس سوال  پر غور کیا جائے تو اس کا جواب ہے:ہاں۔کیونکہ  عالمی میڈیا میں خبر کے نام پر غلط ، من گھڑت  اور ناقص یا  معلومات  کے اخفا  پر مبنی خبر یں پھیلانے میں نہ تو کوئی ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی ہے  اور نہ ہی میں اس میں کوئی  رکاوٹ  ہے۔ حالیہ مہینوں میں مغربی میڈیا میں غزہ جنگ کی رپورٹنگ ’’فیک نیوز‘‘  اور اس  کی تشہیر کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔اگر قومی سطح  پر بات کی جائے تو وطنِ عزیز پاکستان  میں عام لوگوں  اور سیاسی مخالفین کی کردار کشی کے لیے وہ قصے، کہانیاں، خبریں  گھڑلی جاتی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ اب مصنوعی ذہانت نے فیک نیوز  کے واضعین کے کام کو اور بھی  آسان  اور دوچندکردیا ہے۔ پاکستان ایسے معاشروں میں  تو افواہیں  اور من گھڑت  مسالے دار کہانیاں ویسے ہی بے روک ٹوک   آناً فاناً پھیلتی  ہیں اور ان پر کان دھرنے والوں کی شرح بھی کچھ زیادہ  ہی ہے۔اس تعارفی پس منظر میں ہم اس مختصر مضمون میں فیک  نیوز (Fake News) کا جائزہ لیتے ہیں  کہ یہ کیا ہے،کون سا مواد فیک نیوز کے زمرے میں آتا  ہے ،اس کی کون  کون سی قسمیں ہیں اور یہ کیسے پھیلتی ہے۔ نیزاس کا توڑ کیسے کیا جاسکتا ہے؟

فیک نیوز  یا غلط  خبر کی اصطلاح  جھوٹی، گمراہ کن، یا فریب پر مبنی خبروں کو بیان کرنے کے لیے استعمال  کی جاتی ہے۔ یہ خبریں  ارادی  یا غیر ارادی طور پر پھیلائی جا سکتی ہیں اور ان کا مقصد عوام کو گمراہ کرنا، کسی خاص نظریے یا مفاد کو فروغ دینا، یا کسی فرد، گروہ، یا ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہو سکتا ہے لیکن واضح رہے کہ اردو میں’ غلط خبر’  یا ‘جھوٹی خبر’کی ترکیب ان تمام باتوں کا احاطہ نہیں کرتی جس طرح کہ ‘فیک نیوز’ کی جامع اصطلاح کرتی ہے۔

 مختلف میڈیا دانشوروں اور ماہرین نے فیک نیوز کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ یہاں چند معروف دانشوروں اور ماہرین کی تعریفیں پیش کی جا تی  ہیں:

کلیئر وارڈل :Claire Wardle، فرسٹ ڈرافٹ کی شریک بانی ہیں۔ وہ   فیک نیوز کی مختلف اقسام بیان کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، فیک نیوز صرف جھوٹی خبروں تک محدود نہیں بلکہ یہ گمراہ کن معلومات، غلط معلومات، اور افواہوں پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے۔ وہ فیک نیوز  کی تین اقسام بیان کرتی ہیں: "Misinformation, Disinformation, and Malinformation”

مس انفارمیشن: ان کے بہ قول یہ غیر ارادی طور پر پھیلائی جانے والی غلط  اطلاع ہے۔

ڈس انفارمیشن:یہ جان بوجھ کر پھیلائی جانے والی گمراہ کن معلومات  ہیں۔

مل انفارمیشن: مذموم مقاصد کی حامل  نامکمل یا ناقص معلومات، جو نقصان پہنچانے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔

ڈیوڈ ایم جے لیزر :

ڈیوڈ لیزر اور ان کے ساتھی  محققین نے اپنی تحقیق میں فیک نیوز کی تعریف "False information that is spread, regardless of intent to mislead” کے طور پر کی ہے۔ ان کے مطابق، فیک نیوز کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا، کسی خاص نظریے کو فروغ دینا، یا کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہو سکتا ہے . البتہ ان کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ یہ  غلط معلومات کسی کو گم راہ کرنے کے ارادے سے ہی پھیلائی جائیں۔

کیتھلین ہال  جیمسن

امریکا کی پنسلوینیا یونیورسٹی میں  Annenberg Public Policy Center کی ڈائریکٹر  کیتھلین  ہال جیمسن   فیک نیوز کو "Deliberately fraudulent information that mimics the look and style of legitimate news” کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، فیک نیوز وہ مواد ہے جو جان بوجھ کر دھوکا دہی کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور اسے حقیقی خبرکی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔

ہنٹ آلکاٹ اور میتھیو گینزکو ( Allcott اور (Gentzkow نے فیک نیوز کی تعریف "News articles that are intentionally and verifiably false, and could mislead readers” کے طور پر کی ہے۔ ان کے مطابق، فیک نیوز وہ خبریں ہیں جو ارادی، جانی بوجھی اور قابلِ تصدیق  جھوٹ ہوتی ہیں اور قارئین کو گمراہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

جے  سن ہیری سن  نے فیک نیوز کو”A form of post-truth politics” کا  نام دیا ہے  اور کہا ہے کہ جھوٹی خبریں اور معلومات سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ ان کے مطابق، فیک نیوز جدید دور کی سیاست کا حصہ بن چکی ہے جہاں حقیقت اور جھوٹ  میں تمیز مشکل ہو گئی ہے۔

وارڈل اور  درخشاں ( کونسل آف یورپ رپورٹ )

Ø  Wardle اور Derakhshan نے اس رپورٹ میں فیک نیوز کو "Information Disorder” کے طور پر بیان کیا ہے اور اس کی  تین اقسام  بیان کی ہیں۔ان کا مذکورہ بالا سطور میں بھی ذکر آیا ہے لیکن یہاں ان اقسام کی تعریف میں   کچھ مزید صراحت کی گئی ہے:

Ø  Misinformation :غیر ارادی طور پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات۔

Ø  Disinformation: جان بوجھ کر پھیلائی جانے والی گمراہ کن معلومات۔

Ø  Malinformation:ناقص معلومات، جو نقصان پہنچانے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔

ان تعریفوں  سے واضح ہوتا ہے کہ فیک نیوز کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے ،اس کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں اور انھیں  مختلف سیاسی ومذموم مقاصد کے لیے استعمال  کیا جاتا ہے اور کیا جاسکتا ہے۔

فیک نیوز کی مختصر تاریخ

فیک نیوز  غلط یا گمراہ کن معلومات کو اصل  خبر کے طور پر پیش کرنے کی ایک شکل ہے۔ یہ صدیوں سے موجود ہے، لیکن ہمہ نوع ٹیکنالوجی کی روزافزوں ترقی ، خاص طور پر سوشل میڈیا کے عروج کے ساتھ، اس کے پھیلاؤ اور اثر پذیری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ابتدائی شکلیں

فیک نیوز  ابتدا میں اکثر افواہوں اور پروپیگنڈے کی شکل میں ہوتی تھی۔ اس کو  زبانی طور پر پھیلایا جاتا تھا یا پمفلٹس اور اخبارات میں شائع کیا جاتا تھا۔ اس عمل کا  مقصد عوام کی رائے کو متاثر کرنا، سیاسی مفادات کو فروغ دینا، یا صرف تنازعات کو ہوا دینا ہوتا تھا۔

19ویں اور 20ویں صدی

19ویں اور 20ویں صدی میں، ٹیکنالوجی کی ترقی سے فیک نیوز کے پھیلنے کے نت نئے طریقے  بھی وضع ہوئے ۔اس عرصے کے دوران میں  زردصحافت، سنسنی خیز خبریں شائع کرنے کا ایک  ذریعہ  بن گئی تھی۔زرد صحافت 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے آغاز میں مقبول ہوئی تھی۔پرنٹ میڈیا  کے بعد  ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے عروج سے فیک نیوز کو وسیع تر سامعین اور ناظرین تک پہنچانے میں مدد ملی تھی۔

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا عروج

21 ویں  صدی کے آغاز میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے عروج نے فیک نیوز کے منظر نامے کو مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔اب  کوئی بھی شخص  کسی  بھی قسم  کی معلومات کو  شائع کر سکتا ہے اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں (فیس بُک ، ایکس (سابق ٹویٹر)،انسٹاگرام ، یوٹیوب ،انسٹا اور وٹس ایپ ) کے ذریعے  فیک نیوز کو  دنیا بھر میں فوری طور پر شیئر کرسکتا ہے۔ اس  آزادی اور سہولت سے  فیک نیوز کے پھیلنے کی رفتار میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

فیک نیوز کے اثرات

فیک نیوز کے معاشرے پر نمایاں منفی اثرات  مرتب ہو سکتے ہیں۔پاکستان ایسے معاشروں میں  تو یہ   رائے عامہ کو متاثر  کرنے کی بھرپور صلاحیت  رکھتی ہے جہاں شرح خواندگی   50 فی صد کے لگ بھگ ہے اور عوام کی ذہانتی نسبت کی شرح 84 سے 90 فی صد کے درمیان ہے۔اس تناظر میں  پاکستان فیک نیوز کے لیے ایک زرخیز سرزمین  بلکہ آماج گاہ ہے اور اس  کو لوگ ملک میں  سیاسی عدم استحکام ، تشدد اور نفرت کو ہوا دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔فیک نیوز پھیلانے میں سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل  اور کارکنان ہی نہیں بلکہ نامی گرامی  صحافی بھی پیش پیش  ہیں اور انھیں اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے سراسر غلط خبروں اور پروپیگنڈا معلومات کو پھیلانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔  اس  عمل میں صحافی کم یوٹیوبر اور بیرون ملک بیٹھے صحافی اور سیاسی کارکنان بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اس سے  عام لوگوں کا میڈیا اور  صحافیوں پر اعتماد بری طرح مجروح ہوا  ہے اور نوبت بہ ایں جا رسید ، اب وہ ان کی پھیلائی  انٹ شنٹ  خبروں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔

فیک نیوز سے  کیسے نمٹا جائے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیک نیوز سے کیسے نمٹا جائے۔دراصل روز افزوں تغیّر پذیر ٹیکنالوجی کے اس دور میں  فیک نیوز سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کا کوئی آسان حل  بھی دستیاب نہیں ہے، لیکن  اہلِ  صحافت بالخصوص غلط معلومات کی تشہیر،پروپیگنڈا خبروں   اور الم غلم مواد کو روکنے کے لیے   حفظ ماتقدم  کے طور پر چند ایک  کام کرسکتے ہیں اور وہ یہ ہیں:

ذرائع کا جائزہ لیں: صحافی حضرات خبریں  شائع یا شیئر کرنے سے پہلے، ذرائع کی صداقت اور ساکھ کی جانچ کریں۔

شک  کا اظہارکریں: اگر کوئی خبر بہت اچھی یا بہت بری لگتی ہے، تو یہ یقینی طور پر سچ نہیں ہو سکتی۔اگر کسی خبر میں کوئی اچھوتی معلومات نظر آرہی ہیں تو اس پر شک کا اظہار کریں۔اس کا بہ غور جائزہ لیں۔

متعدد ذرائع سے تصدیق کریں: کسی بھی خبر کو شیئر کرنے سے پہلے، اس  میں بیان کردہ حقائق ومعلومات  کی  متعدد ذرائع سے  دوبارہ تصدیق کریں۔

رپورٹ کریں: اگر آپ کے سامنے کوئی  فیک نیوز  آتی ہے، تو اسے متعلقہ پلیٹ فارم یا حکام کو رپورٹ کریں۔

معتبر ذرائع سے خبرکا حصول: ہمیشہ معتبر اور مستند ذرائع سے خبریں حاصل کریں۔

تنقیدی سوچ: فیک نیوز کی جانچ کے لیے اپنی تنقیدی سوچ کو بروئے کار لائیں ، خبروں کو تنقیدی نظر سے دیکھیں اور ان کی صداقت پر سوال اٹھائیں۔

فیک نیوز کے خصائص

1۔ جھوٹا مواد: فیک نیوز میں شامل معلومات عام طور پر جھوٹی یا غیر مصدقہ ہوتی ہیں۔ یہ معلومات بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پیش کی جاتی ہیں۔

2۔ گمراہ کن معلومات: ان خبروں میں معلومات کو توڑ مروڑ کر یا مسخ شدہ حالت میں  پیش کیا جاتا ہے تاکہ قارئین یا ناظرین کو کسی مذموم ایجنڈے کے تحت گمراہ کیا جا سکے۔

3۔ سنسنی خیزی: فیک نیوز اکثر سنسنی خیز سرخیوں اور مواد پر مبنی ہوتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کی جا سکے۔بہت سے یوٹیوبروں کے سنسنی خیز تھمب نیل  فیک نیوز کی نمایاں مثال ہیں کیونکہ ان میں مبالغہ آرائی ہوتی  ہے اور اکثر وڈیوز میں بیان کردہ باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

4۔ غیر معتبر ذرائع:  فیک خبریں عموماً غیر معتبر اور غیر معروف ذرائع سے آتی ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف سنسنی پھیلانا ہوتا ہے۔

5۔ پروپیگنڈا: فیک نیوز کو بعض اوقات کسی مخصوص ایجنڈے یا پروپیگنڈے کو فروغ دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

 فیک نیوز  پھیلنے کی وجوہ

1۔ سوشل میڈیا: فیک نیوز کے پھیلنے میں سوشل میڈیا کا اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ  سوشل میڈیا کے مختلف  پلیٹ فارمز معلومات کو تیزی سے اور وسیع پیمانے پر پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

2۔ تصدیق کی کمی: بہت سے لوگ خبروں کی تصدیق کیے بغیر ہی انھیں آگے پھیلا دیتے ہیں، جس سے فیک نیوز کی تشہیرتیز رفتار ہوتی ہے اور وہ حقیقی معنوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے ۔

3۔ تجسس: سنسنی خیز خبریں لوگوں  میں تجسس  پیدا کرتی  ہیں اور وہ ان خبروں کو جاننے اور پھیلانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔

 فیک نیوز کے نقصانات

1۔ گمراہ کن معلومات: فیک نیوز کی وجہ سے عوام  تک  گمراہ کن معلومات  پہنچتی ہیں جو ان کے فیصلوں اور فیصلہ سازی کے عمل  پر منفی  طور پر اثرانداز  ہو سکتی ہیں۔

2۔ اعتماد کا فقدان: فیک نیوز کی وجہ سے معتبر میڈیا اور صحافتی اداروں پر عوام کا اعتماد کم ہو سکتا ہے۔

3۔ سماجی انتشار: فیک نیوز سماجی انتشار، بے چینی، اور فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دے سکتی ہے۔

دراصل فیک نیوزآج کے سوشل اور مرکزی  دھارے کے میڈیا کا  ایک سنگین مسئلہ ہے اور میڈیا میں گیٹ کیپر کا کردار معدوم ہونے کی وجہ سے اس کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس سے نمٹنے کے لیے ہم  بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ذمہ دار صحافی، شہری  اور صارف بن کر اور معلومات کے اشتراک سے پہلے اس کی جانچ کر کے، ہم فیک نیوز کو پھیلنے سےروکنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ فیک نیوز سے بچنے اور درست معلومات تک رسائی  کے لیے ضروری ہے کہ ہم محتاط رہیں اور خبروں کی  حتی الامکان تصدیق کریں تاکہ گمراہ کن معلومات کو پھیلانے کا ذریعہ نہ بنیں  اور ان کا ہدف بننے سے  بھی محفوظ رہ سکیں۔

امتیاز احمد وریاہ
امتیاز احمد وریاہhttps://alert.com.pk/
I am an experienced journalist and writer. My career as a journalist has spanned over 30 years. Punjabi is my native language. I hold Master of Science degrees in Media Studies, Psychology and History. I have translated seven books from English into Urdu (including two books on Journalism) and I am also a co-author of three textbooks. I have translated over 1000 articles and reports on different topics from English into Urdu and Punjabi. I have reviewed, proofread, and edited numerous books on Islam, Pakistan, History, Urdu language and literature, Journalism, Social Studies etc. My research topic for MS Media Studies degree program was “Problems of Orthography in Urdu Journalism of Pakistan.” (پاکستان کی اردو صحافت میں املا کے مسائل) I have written extensively on this topic and my research articles have been published in different periodicals and research journals. I have worked with different national and international media and development organizations as a writer, translator, and editor.
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں