پیر, دسمبر 23, 2024

برونائی دارالسلام – Brunei ( جنوب مشرقی ایشیا)

پاکستان آباد سے برونائی کا فاصلہ قریباً ساڑھے تین ہزار میل سے کم مشرق کی جانب ہے۔

آمد و رفت ہوائی سفر سے ہو سکتی ہے، بحری راستہ بھی موجود ہے۔

پاکستان سے برونائی کا وقت 3 گھنٹے آگے ہے۔
پڑوسی ممالک میں صرف حقیقی ہمسایہ تو ایک ملائیشیا ہے البتہ انڈونیشیا بھی قریب ہے اور کسی حد تک اسپریٹلے جزائر جو مشرق بعید میں جھگڑے کا سامان بن چکے ہیں ۔

برونائی کا رقبه 2226 مربع میل یا 5765 مربع کلومیٹر ہے (آپ کا ایک ضلع) –

برونائی کی آبادی ساڑھے چار لاکھ سے کچھ اوپر ہے۔

زبانیں: ملائی، انگریزی۔

سن 2021 کی ایک تحقیق کے مطابق برونائی میں 82.1 فیصد مسلمان ،8.7 فیصد عیسائی ،7.8 فیصد بدھ اور 4.7 فیصد باقی مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔

آب و ہوا اور موسم گرم مرطوب خوشوار ہے۔

کرنسی برونائی ڈالر ہے جو اس وقت 207.55 پاکستانی روپے اور 0.75 یو ایس ڈالر کے برابر ہے یعنی 1 یو ایس ڈالر 1.34 برونائی کے برابر ہے۔
تیل،گیس اور تجارت کی معیشت ہے۔

2023 میں جی ڈی پی 15.13 بلین ڈالر سالانہ پر رہا ہے اور پرکیپیٹا 33 ہزار چار سو تیس ڈالر سالانہ پر رہا اور جی ڈی پی گروتھ ریٹ 1.4 فیصد سالانہ تبدیل ہوا۔

عمومی حالات یہ ہیں بادشاہ شریف ہے، لوگ آسودہ ہیں اپنے دین پر جان و مال لگانا چاہتے ہیں لیکن ہر کام میں حکومت سبقت لے جاتی ہے گو کہ ایڈوائزر انگریز ہے۔ سن ۲۰۱۳ میں بادشاہ نے اعلان کر دیا کہ ۲۰۱۶ سے ملک کا قانون شریعت ہو گی۔اس پر غیر مسلم ممالک نے بہت افسوس ظاہر کیا۔

برونائی کی تاریخ کے جھروکوں سے:
اسپینی ملاحوں نے جب سولہویں صدی ان پانیوں کا چکر لگایا تو فلپائن کا بیشتر حصہ سلطنت برونائی کے ماتحت تھا۔ اسپینی قوت نے سارے جتن کر لئے مگر لوگ ان کے مطیع نہ ہوئے۔پتہ چلا کہ انہیں قوت و امداد برونائی سے ملتی ہے۔ اسپنیوں نے پیچھے میکسیکو سے بڑا ہیرہ منگوا کر 1578ء میں 16 اپریل کو برونائی سمندر پر حملہ کیا، شہر لوٹا اور جامع مسجد کو آگ لگا دی اور 26 جون تک لوٹ مار کر کے چلے گئے۔ سن 1846ء میں انگریز نے حملہ کیا اور برونائی کو جیمز بروک کی سراوک میں ضم کر لیا ۔1906ء میں بادشاہ کے اوپر ایک ریذیڈنٹ بٹھا دیا جس کے پاس حقیقی اختیار تھا،وہ 1959 تک یہیں رہا۔ جنگ کے 4 سال کے دوران 1945ء تک جاپانی قبضہ رہا تھا۔جاپانی گئے تو قریب ترین الائیڈ فوجیں آسٹریلیا کی تھیں، اس کے سپاہی ہر چیز پر چڑھ بیٹھے، بادشاہ اور عوام ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ یہ ٹکرہ ملائیشیا کی ریاست سراوک کا
حصہ تھا انگریز کا ماتحت ، جب 1929ء میں تیل نکلا تھا تو انگریز نے اسے انتظامی طور پر توڑ کر الگ کر لیا اور باقی ملک سے جاتے ہوئے اسے نہیں چھوڑا، بعد خرابی بسیار 1984ء میں عالمی دباؤ کے باعث چھوڑنا پڑا جبکہ ملائشیا 1957ء میں آزاد ہو چکا تھا ۔
با وسائل ممالک کے ساتھ بھوک ، سازش ، فراڈ اور دھونس کا جو سلوک عموماً غیر مسلموں نے روا رکھا ہے اس کی حقیقت میں یہ ملک بھی ایک مثال ہے ۔ باوجود آزادی کے ہر کام کی چیز پر اب تک انگریز مسلط ہے۔ وہ سرائے جہاں سے تیل نکلتا ہے آج بھی انگریز اور اس کی ملازمہ گورکھا فوج کا اڈہ ہے۔ پندرہ سو گورکھا کمانڈو تعینات رہتے ہیں ۔ پاس رائل ایئر فورس کے بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز، بادشاہ کے پاس کیا رہ گیا ۔ پھر جو حکومتی آمدنی کہیں خرچ ہوگی تو ہر چیز انگلینڈ سے آئے گی۔ تاہم ایک شہر اور بائیس گاؤوں پر مشتمل یہ ملک عالمی حیثیت اور مقام رکھتا ہے۔

آدھی سے زیادہ دنیا میں یہ لوگ ویزہ کے بغیر سفر کر سکتے ہیں ، صرف برونائی کے پاسپورٹ پر۔

برونائی جانے والوں کومچھر کا انتظام احتیاطاً کر لینا جائے۔ ایک دفعہ وہاں تک آ پہنچیں تو خر چ کوئی خاص نہیں تاہم درمیانہ خرچ ممالک کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔ سفارتخانے کو اگر تسلی ہو جائے کہ آنے والے واپس چلے جائیں گے تو ویزہ دے دیتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں