جمعرات, نومبر 7, 2024

بدر اور غزہ: منافقین کی ملامت

مومن کا یہ امتیازی وصف ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالٰی پہ بھروسہ اور یقین رکھتا ہے، اپنی شان و قوت اور کثرت و قلت پہ نظر نہیں رکھتا۔ جب بھی اہل ایمان اس صفت سے میدان میں اترے ہیں تو انہیں باری تعالٰی نے سرخرو کیا ہے اور فتح و کامرانی ان کا مقدر بنی۔ لیکن باطل پرستوں کا سہارا ہمیشہ مال و اسباب اور اپنی تعداد پہ ہوتا ہے، اسی پہ وہ اتراتے ہیں اور کامیابی کا سرچشمہ اپنی طاقت کو سمجھتے ہیں۔

غزوہ بدر کے موقع پہ جب اہل ایمان کی ایک قلیل جماعت چند تلواروں کے ساتھ بے سرو سامانی کے عالم میں کفار کا مقابلہ کرنے نکلی تو منافقین و مشرکین انہیں دیکھ کر مذاق اڑانے لگے اور طعنہ دینے لگے کہ یہ اس حالت میں اس جماعت سے لڑیں گے جو تعداد، طاقت و شوکت اور اسباب و وسائل سمیت ہر چیز میں ان سے کئی گنا بڑھ کر ہے، ان کو ان کے دینی غرور نے دھوکہ میں مبتلا کیا ہوا ہے کہ یہ فاتح بن جائیں گے اور عرب کو فتح کر لیں گے، اگر شہید ہو گئے تو ہم جنت کی نعمتوں میں ہوں گے، اس خیال سے یہ اپنے آپ کو قتل کروانے میدان میں اتر آئے ہیں۔ گویا کہ منافقین اور باطل پرست ظاہری معیار پہ اہل ایمان کو تول رہے تھے اور ان کو اس اقدام پہ ملامت کر رہے تھے۔ اہل ایمان ان کی ملامت و طعن کی پرواہ کئے بغیر اللہ تعالٰی پہ توکل کرتے ہوئے نکل پڑے اور اس توکل کی طاقت کا منظر دنیا نے دیکھا کہ طاقت و کثرت کو عبرتناک اور شرمناک شکست ہوئی اور خداوند قدوس پہ بھروسہ کرنے والے کامیاب و فتح یاب ہوئے۔ اس کی منظر کشی قرآن کریم ان الفاظ میں کرتا ہے:
"اس وقت منافق اور جن کے دلوں میں مرض تھا کہتے تھے کہ انھیں ان کے دین نے مغلوب کر رکھا ہے اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔

باطل پرستوں کا یہ انداز کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر دور میں باطل پرست اہل حق کو اسی طرح سادہ لوحی اور دینی فریب کا الزام دیتے ہیں اور ان کے پاس ماپنے کا معیار ٹیکنالوجی اور جنگی ہتھیار و وسائل ہوتے ہیں۔ سال پہلے اصحاب بدر سے نسبت رکھنے والی غزہ کی ایک قلیل جماعت نے اپنے محدود وسائل و اسباب کے ساتھ دنیا کی سپر پاور اور نا قابل تسخیر سمجھی جانےوالی طاقت پہ کاری ضرب لگانے اور اس کی شوکت کو زیر کرنے عزم مصمم کیا اور میدان میں کود پڑے تو مادی ترقی اور ٹیکنالوجی کی ظاہری شوکت سے مرعوب ہونے والے منافقین اور دلوں میں ایمان و اہل کی دشمنی و عداوت رکھنے والوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور پھر سے باطل کی سابقہ روش کو اپناتے ہوئے ملامتی بولیاں شروع کیں، انہیں بے وقوف گردانا و نا دان گردانا گیا، معصوموں کا قاتل ٹھہرایا گیا، غرض طعن و تشنیع اور طنز و استہزاء کے سارے راستے اختیار کئے گئے لیکن اس جماعت جانباز اپنے پیش رو کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے ملامتی طبقے سے بے خوف ہو کر عزم و استقلال اور شجاعت و بہادری سے لڑتے رہے اور آج انہیں شجاعت کے جوہر دکھاتے سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن طعن و تشنیع کے سارے تیر چوک گئے، ٹیکنالوجی اور دنیا کے جدید ترین ہتھیار کے حاملین تمام تر طاقت و قوت آزمانے کے بعد بھی نفسیاتی، عسکری، معاشی، داخلی و خارجی اور ذرائع ابلاغ سمیت ہر محاذ پہ شکست خوردہ نظر آ رہے ہیں۔ اصحاب بدر کے پیروکاروں نے کسمپرسی کے عالم میں مقدور بھر ہتھیار کے ساتھ ذات باری تعالٰی پہ توکل کر کے قدم اٹھایا تھا، آج اس توکل کے نتیجے میں وہ سرخرو ہوتے جا رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ جماعت بھی بدریین کی مثل تاریخ ساز فتح سے ہمکنار ہوگی اور ایک بار پھر دشمن عبرتناک اور شرمناک ہزیمت سے دوچار ہوگا۔ قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت اصحاب بدر کی طرح دور حاضر کے ملامتی طبقے کی منافقت و دجل کی حقیقت ظاہر کرتی ہے اور توکل کے وعدے کی صداقت پہ مہر ثبت کرتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے اسی وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی نصرت و غلبہ کے مظاہر دنیا کو دکھا دئیے، اسی حقیقت کو آشکارا کرتے ہوئے علامہ اقبال یوں گویا ہوتے ہیں:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں