بہادر شاہ ظفر کی پیدائش: آخری مغل بادشاہ کا تعارف
آج کے دن (24 اکتوبر 1775ء {27/28 شعبان 1189ھ}) کو بہادر شاہ ظفر (بہادر شاہ دوم)، جو کہ آخری مغل بادشاہ تھے، پیدا ہوئے۔
بہادر شاہ ظفر کی حکمرانی صرف نام کی تھی کیونکہ مغل سلطنت عملی طور پر دہلی (شاہجہان آباد) تک محدود ہو چکی تھی۔
تصویر میں موجود زafar محل کا کمپلیکس، جو کہ جدید دہلی (بھارت) میں ہے، آخری مغل یادگار سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر پہلے اکبر شاہ دوم نے شروع کی اور بعد میں ان کے بیٹے بہادر شاہ دوم نے اسے مکمل کیا۔
مغلیہ سلطنت، جو 1526ء میں بابر کی فتح سے برصغیر میں قائم ہوئی، تقریباً 331 سال تک برصغیر پر حکمرانی کرتی رہی۔ 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے دوران اس عظیم سلطنت کے آخری بادشاہ، بہادر شاہ ظفر، کا عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ بہادر شاہ ظفر کو اس جنگ کا سرپرست سمجھا گیا اور انگریزوں نے انھیں اور ان کی حکومت کو بغاوت کا ذمہ دار قرار دیا۔
مغلیہ سلطنت کا عروج و زوال
مغلیہ سلطنت اپنے عروج پر تقریباً پورے برصغیر، افغانستان، اور موجودہ پاکستان و بنگلہ دیش کے علاقوں پر حکمرانی کرتی تھی۔ لیکن 18ویں صدی تک مغلوں کا اقتدار کمزور ہو چکا تھا، اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے آہستہ آہستہ ان کے بیشتر علاقے اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔ بہادر شاہ ظفر، مغل خاندان کے آخری حکمران تھے، جنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں شاعری اور ادب کے فروغ کے لیے بہت کچھ کیا۔ ان کا اصل نام ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ تھا، لیکن وہ اپنے قلمی نام "ظفر” سے مشہور ہوئے۔
1857ء کی جنگ آزادی
1857ء کی جنگ آزادی، جسے انگریزوں نے "سپاہی بغاوت” کا نام دیا، اس وقت شروع ہوئی جب ہندوستانی فوجیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی۔ بہادر شاہ ظفر کو بغاوت کی قیادت کرنے والے ہندوستانی رہنماؤں نے علامتی طور پر اپنا سربراہ بنایا۔ تاہم، انگریزوں نے جلد ہی اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا۔ جنگ کے بعد، بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا۔
مقدمہ اور سزا
بہادر شاہ ظفر پر دہلی میں انگریزوں کے قتل عام کا الزام لگایا گیا۔ انگریزوں نے ایک خودساختہ عدالت میں مقدمہ چلایا، جس میں بادشاہ کو قومی مجرم قرار دے دیا گیا۔ ان کے خلاف جھوٹے گواہوں اور دستاویزات کے سہارے ثبوت پیش کیے گئے اور بالآخر انہیں رنگون (موجودہ میانمار) میں جلاوطن کر دیا گیا۔
جلاوطنی کی زندگی
1858ء میں بہادر شاہ ظفر کو رنگون منتقل کیا گیا، جہاں وہ 7 نومبر 1862ء کو اپنے آخری ایام گزارنے کے بعد انتقال کر گئے۔ رنگون میں انہیں ایک چھوٹے سے گھر (جو دراصل ایک گیراج تھا) میں قید کیا گیا تھا۔ اس دوران، انہوں نے اپنی مشہور زمانہ غزل لکھی:
"لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں”
انتقال اور تدفین
بہادر شاہ ظفر کا انتقال انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہوا۔ ان کے ساتھ صرف چند افراد موجود تھے، اور انہیں گمنامی میں دفن کر دیا گیا۔ ہندوستان کا آخری مغل شہنشاہ، جو کبھی تاج محل جیسی عظیم یادگاروں کا وارث تھا، رنگون میں ایک معمولی قبر میں دفن کر دیا گیا۔
ایک عظیم سلطنت کا خاتمہ
بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہی مغلیہ سلطنت کا باقاعدہ اختتام ہو گیا۔ ان کی وفات نہ صرف مغلیہ خاندان کے زوال کی علامت تھی بلکہ برصغیر میں مغل دور کے اختتام اور برطانوی راج کے مکمل قیام کا آغاز بھی تھا۔ ان کی جلاوطنی اور دردناک موت تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جو ہندوستان کی طویل اور پیچیدہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
بہادر شاہ ظفر: بادشاہ، شاعر اور صوفی
بہادر شاہ ظفر ایک بہترین شاعر بھی تھے۔ وہ ایک نرم دل، حساس اور صوفی منش انسان تھے، جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنے غم و الم اور درد کو الفاظ کی شکل میں ڈھالا۔ ان کی شاعری آج بھی اردو ادب کا ایک قیمتی خزانہ سمجھی جاتی ہے۔