پیر, فروری 3, 2025

فیصل شہزاد کی واپسی

دل ابھی بھرا نہیں!
٭٭٭
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الحمدللہ ثم الحمدللہ، آپ سب بہت ہی پیارے دوستوں، بھائیوں، بہنوں اور انکلوں آنٹیوں کی بہت زیادہ دعاؤں اور مخلص کاوشوں سےایک بار پھر آپ کی محفل کو بدمزہ کرنے بابا ناچیز حاضر ہے!

یہ بےشمار دعائیں اور نیک تمنائیں ہی تھیں کہ ایک بہت بڑی ناگہانی آزمائش میں آجانے کے بعد رب تعالیٰ کے اِس لاچار اور بےکس بندے پر ناقابلِ یقین انداز میں آسانی عافیت کے دروازے یکے بعد دیگرے کچھ اِس طرح سے کھلتے چلے گئے اور اللہ رب العزت کا کرم ہر قدم ہر موڑ پر کچھ یوں شامل حال ہوتا رہا کہ نہ صرف بندہ ناچیز کا خزاں رسیدہ مرجھایا ہوا ایمان ہرا بھرا سرسبز و شاداب ہوتا چلا گیا بلکہ ’’بہت سے‘‘ اور سننے دیکھنے والوں کا بھی۔

سو الحمدللہ صرف ۴۴ دن یعنی ایک چلے کی ’’سیرِ آفاق و افلاک و کوٹ لکھ پت‘‘ کے بعد لوٹ کے بدھو مطلب بابا اپنے گھر کو آیا۔

خیر جبر کی جیل سے چھوٹے تو محبت کی جیل نے اپنا اسیر کرلیا۔
واپس آکر جو کچھ اِن آنکھوں نے دیکھا کانوں نے سنا، اس نے سچی بات ہے کہ خشک آنکھوں کو پانی سے اور دل کو راحت سے بھر دیا!

اور پھر کیا ہوا؟
یہ ہوا کہ اگلے بیس دن تو بابا کی بی بی نے یعنی بیگم مدظلہا نے اپنے چنگل سے ہی ہمیں آزاد نہ ہونے دیا، اپنی ہمہ قسم نوازشوں کی ’’ہائی سیکورٹی جیل‘‘ میں ہمیں یوں قید رکھا کہ اپنے غیر کو پر تک نہ مارنے دیا۔ 🫣

نت نئے لذیذ کھانے، نجانے کون کون سے صحت افزا قدیمی ٹوٹکے، انڈے مانڈے، مکھن گھی کی مالشیں غرض بیگمانہ محبت کی بوچھاڑ نے وہ جادو کر دکھایا کہ وہ جو ’’جبری ویٹ لاس سینٹر‘‘ نے اپنی ’’دال روٹی نوازشوں‘‘ سے چالیس دن میں پندرہ کلو وزن کم کرکے بابے کو مزید اسمارٹ کرکے بیگم سے دس سال کم عمر کر دیا تھا، بیگمانہ توجہات اور بیگمی بریانی قورمے نے بلامبالغہ اُس سے نصف وقت میں سوا دس کلو کی جوانی ایک بار پھر بابا کے وجود پر آویزاں کر دکھائی…!
اسے کہتے ہیں سیر پہ سوا سیر۔ 😘

خیر اب کہیں جا کے دوستوں کے ہتھے چڑھے ہیں،سو مزیدار محفلیں او ردعوتیں جاری ہیں، مزید کی بکنگ بھی ان باکس کی جارہی ہے!

البتہ بیگم، دوستوں کی بنسبت میٹا (META) نے نگاہیں یکسر بدل لیں،کم بخت نے دس سالہ رفاقت کو محض چالیس دن میں بھلا کر کٹھورپن اور بے مروتی کی حد کردی۔ ہر طرح منت سماجت کر دیکھی مگر ناس پیٹی واٹس ایپ والا او ٹی کوڈ ہی نہ بھیجتی تھی، پھر چونکہ فیس بک کو بھی ان دنوں اُس نے واٹس ایپ کے تھلے لگا رکھا ہے تو ان دو کوچوں تک رسائی کسی طرح ہوتی ہی نہ تھی، خیر اللہ اللہ کرکے تین ہفتوں کے بعد ایک دن یہ دونوں ہماری دسترس میں آئے اور یوں آج ایک بار پھر آپ سب کی چوکھٹ پر کھڑا یہ بندہ ناچیزآپ سے اِذن باریابی چاہتا ہے۔

کہنے کو تو ایک پوری داستان ہے، انتہائی سنسنی خیز داستان مگر یہ داستان شاید ان کہی ہی رہ جائے گی، سو بس اتنا عرض ہے کہ سات اگست کے دن زندگی کی نارمل چلتی گاڑی نے یکایک تکوین کی ایسی پٹری بدلی کہ میرا شعوری وجود جیسا پہلے تھا نہ رہا۔
اور آج میں کچھ پہلوؤں سے بہت مختلف شخص ہوں!

بلاشبہ بہت کچھ کھویا بھی… صحت، مال، کچھ خوش گمانیاں، کچھ یقین اور کچھ نسبتیں بھی!
مگر اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کھونے کی بنسبت بہت کچھ اور بہت زیادہ پایا بھی۔
اُن کا ذکر مگر فی الحال نہیں کہ سرسری سا کہہ دینا ناشکری محسوس ہوتی ہے۔

بہت کچھ ایسا اِن آنکھوں نے دیکھ لیا، جن کا وہم وگمان بھی کبھی نہ ہوا تھا۔
ناولوں میں بارہا پڑھی پراسرار داستانوں کے اسرار جیسے میرے سامنے حقیقت کے دسترخوان پر چن دیے گئے اور حیرت میرے روبرو آن بیٹھی۔

چند انجان گلیاں، بھاری پردوں کے پیچھے چھپے کچھ پرسرار کوچے، ننگی تاروں کے تاج سر پہ سجائے اونچی بے مہر دیواروں میں مقید کچھ بھید بھرے مقامات اور اُن میں شب و روز نہیں صرف ’’شب‘‘ بسر کرتے کچھ دل شکستہ نفوس اور بہت کچھ ایسا کہ جو شاید ادبی تخیل اور صحافیانہ تجزیوں میں تو کئی نئے رنگ بھردے لیکن اس مشاہدے نے بڑی بےرحمی سے اپنی سراپا سراب زندگی کے بدن پر خود اپنے ہاتھوں ڈالی گئی خود فریبی و خوش گمانی کی چادر کے کئی خوش رنگ دھاگے بھی نوچ ڈالے!

کہا جاسکتا ہے کہ محض کتاب دیدہ آنکھیں اب شاید کسی درجے میں جہاں دیدہ کہلائی جاسکتی ہیں۔

خیر اِن سطور کے ذریعے ان تمام محبین کا شکریہ ادا کرنا مقصود تھا جنھوں نے اپنی اپنی استطاعت اور استعداد کے مطابق دامے درمے سخنے بندے کا ساتھ دیا۔مگر شکریہ کیسے ادا کیا جائے، یہ سمجھ میں نہیں آرہا۔

وہ ہزارہا بلکہ اَن گنت بھائی بہن جو دور بیٹھے صرف دعا ہی کرسکتے تھے اورجیسا کہ علم ہوا انھوں نے بلاشبہ دعاؤں کا حق ادا کردیا، اُن کے رب رحیم کے آگے ایک شخص کے لیے بہائے گئے آنسوؤں اور کی گئی فریادوں اور نیک تمناؤں کا بھلا نرے الفاظ میں کیا بدل ہو؟

اور وہ اچھے لوگ جو دعا کے علاوہ بھی جو کچھ کرسکتے تھے اس سے دریغ نہ کیا، گھر چل کر آئے، اہل خانہ کو تسلی دی، فون پر یا چل پھر کر بندے کی بازیابی کی جو کوشش کر سکتے تھے کی، بنا گھبرائے اور فضول اندیشوں میں گھرے بغیر بندے کی خاطر اسفار کیے، مال خرچ کیا، سوچ بچار مشورے اور تدبیریں کیں، ان سب کے لیے محض شکریے کے چند بے روح الفاظ کیسے لکھ بول دیے جائیں؟
سو بس مختصر یہ کہ جزاکم اللہ خیراً،
تم سب جہاں رہو خوش رہو، سرسبز و شاداب رہو، اپنے پیاروں سے تمھاری آنکھیں ٹھنڈی رہیں، کبھی کسی آزمائش کا منہ نہ دیکھو، دونوں جہانوں میں ہر آن ہر گھڑی عافیت کی گود کھیلو، آمین!

پہلے خیال تھا کہ ان چند گلاب چہرہ سنہری دل نفوس کا نام ضرور لکھیں گے جنھوں نےاپنی بے لوث محبتوں سے ہمیں خرید لیا، مگرپھر خیال آیا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان کا ذکرِ الگ سے اور کچھ تفصیل سے!

آخر میں کچھ ایسے بےنام لوگوں کے لیے ایک بات جو شاید آپ کو حیران کردے اور آپ اس بات کی اس وقت مجھ سے توقع نہ رکھتے ہوں، مگر انصاف کی بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، سو وہ یہ کہ اِس سفر میں جہاں بھی اور جتنے بھی لوگ ملے، واللہ حیرت انگیز طور پر مجھے اپنے معاملے میں تو پچانوے فیصد اچھے لوگ ہی ملے، جنھوں نے مقدور بھر اچھی بات کہی، اچھا رویہ رکھا، اپنے دائرہ کار میں حسب توفیق خیال رکھا، اِن اچھے مگر گمنام لوگوں کے لیے دعائیں تو دل سے بے ساختہ نکلتی ہی ہیں، ذکر بھی کبھی نہ کبھی ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ!
اندازہ ہوا کہ کسی بھی جگہ اچھوں کی کمی نہیں ہے، بس سسٹم ہی شاید ظالم ہے جس کے ہاتھوں بیشتر لوگ مجبور ہیں۔

بہرحال امید ہے کہ احباب استفسارات نہ کریں گے اور دعائیں جاری رکھیں گے کہ
دل ابھی بھرا نہیں
کیس ابھی مکا نہیں

خیر تو چلتے ہیں اپنے روزمرہ کی طرف؛
تو اے نوٹنکیو! بتاؤ تو ذرا اِن دنوں کون سا قصہ گرم ہے؟
سنا ہے ایک نائیک نے بہت سارے کھل نائیکوں کی ناک میں دم کررکھا ہے!
نیز زعم صاحبزدگی میں پھر ایک کھل نائیک حرمزدگی دکھا گیا ہے؟ 😔
٭
نوٹ:
پہلے معزز اور پڑھے لکھے لوگ اپنے کالجوں کی نسبت سے راوین یا اقبالین وغیرہ کہلاتے تھے، ستم ظریفی سے حالات اِن دنوں اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب معزز لوگ فخر سے اپنی’’ عزیمت‘‘ ظاہر کرنے کے لیے ”اڈیالن“ اور ”کوٹ لکھ پتی“ کہلاتے ہیں، سودرج بالا تحریر میں کچھ لطیف اشاروں سے ایک ’’کوٹ لکھ پتی‘‘ ہی محظوظ ہو سکتا ہے!

تو ہے یہاں کوئی چھپا ہوا ہیرا؟ 😜
بابا کوٹ لکھ پتی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسکhttps://alert.com.pk/
Alert News Network Your Voice, Our News "Alert News Network (ANN) is your reliable source for comprehensive coverage of Pakistan's social issues, including education, local governance, and religious affairs. We bring the stories that matter to you the most."
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں