جمعہ, نومبر 22, 2024

کوے کے بولنے کو مہمان کے آنے کی علامت سمجھنا

لوگوں میں یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ:

* اگر کوا گھر کی چھت یا دیوار پر بیٹھ کر بولے تو گھر میں مہمان آنے والا ھے۔

* اگر کوا گھر کے اوپر سے بولتا ہوا نکل جائے تو اسے مہمان کے آنے یا گھر کے مسافر کے واپس لوٹنے کی علامت سمجھنا۔

سو یہ سب غلط ھے

اَصل:-

کوّے کو لے کر ایسے فضول عقائد مختلف ممالک میں چلتے آئے ہیں۔ جن میں یورپ، چائنا، سلطنتِ عثمانیہ، برِصغیر وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ہم مسلمانوں میں خصوصاً پاکستان میں یہ عقیدہ برِصغیر کے ہندوؤں سے آیا ھے۔ ہندوؤں میں کوّے سے متعلق کچھ عقائد درج ذیل ہیں:-

○ عقیدہ اول:

شانِشوار کا واہانا (سواری) کالا کوّا ھے۔ ہندوؤں کا ایک دیوتا جس کا نام "دیوتا شَنی” (شانِشورا) ھے اور ہر دیوتا کی طرح یہ دیوتا بھی کسی نا کسی چیز کو سواری کے لیے استعمال کرتا تھا۔ تو دیوتا شنی (شانِشورا) "کالے کوّے” کو سواری کے لیے استعمال کرتا تھا۔ تو ہندوؤں کا یہ عقیدہ ھے کہ اگر دیوتا شَنی ناراض ہو تو سزا دینے کے لیے وہ کوے کا استعمال کرتا ھے۔

(ملاحظہ ہو: بریہات وِیشدھا نطیا کرما پادھاتی)

○ عقیدہ دوم:

تاریخ میں براہمنوں کا جب ذوال کا وقت آیا اور مذہبی امور پر کچھ مشکلات کا سامنا ہوا (جیسے پادریِ عظیم کسے ہونا چاہئے وغیرہ) تو براہمنوں نے لوگوں کے درمیان کچھ من گھڑت باتیں اجاگر کر دیں جس سے وہ ڈر کر اور دب کر رہیں۔ جس میں "کوے کا سر کے اوپر سے گزر جانے سے موت واقع ہوجانے یا دولت کے ضائع ہو جانے کی علامت” سب سے زیادہ مشہور ہو گئی۔

(ملاحظہ ہو: ذوالِ براہمنیزم)

○ عقیدہ سوم:

ہندوؤں کا ایک اور عقیدہ جس میں کوؤں کی تعداد کو منحوس سمجھا جاتا ھے، جیسے کہ:

¤ ایک کوّے کو بولتے دیکھا تو بدقسمتی کی علامت
¤ دو کوے دیکھے تو خوش قسمتی کی علامت
¤ تین کوے دیکھت تو صحت کی علامت
¤ چار کوے دیکھے تو دولت کی علامت
¤ پانچ کوے دیکھے تو بیماری کے آنے کی علامت
¤ چھ کوے دیکھے تو موت کے نزدیک ہونے کی علامت سمجھنا

○ عقیدہ چہارم:

ہندوؤں کے ایک عقیدے کے مطابق اگر کسی کے مرنے کے بعد کوا اسی گھر کی چھت پر نظر آئے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مرے ہوئے شخص کی طرف سے پیغام لایا ھے کہ اس مرے ہوئے شخص نے دوسرا جنم لیا ھے۔

(ملاحظہ ہو: بریھات سمھیتا – از: واراہا میھیرا_حصّہ۲، باب۴۷، صفحہ۲۰۳ )

○ عقیدہ پنجم:

چونکہ کالی بلی کو لے کر ہندو مذہب میں عقائد درج ہیں اسی طرح کوّا بھی کالے رنگ کا ہوتا ھے تو لوگوں نے کوّے کو بھی منحوس سمجھنا شروع کر دیا۔

حاصلِ کلام:-

پس یہ ثابت ہوا کہ یہ عقیدہ ہندوانہ مذہب کے پیروکاروں کا ھے اور دینِ اسلام کا اس طرح کے عقائدِ و من گھڑت سوچوں سے کچھ تعلق نہیں ھے۔ اسی لیے ہمیں چاہئے کہ ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کریں۔ ورنہ آج اگر ہم نے ایسی سوچوں کو اپنے ذہنوں و گھروں سے نا نکالا جن کی بنیاد ہندوانہ مذہب پر ھے تو ہماری اگلی نسلوں میں یہ تمام سوچیں ایسے ہی بڑھتی چلی جائیں گی جیسے آج ہم تک پہنچ چکی ہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں