دنیا بھر میں بزرگ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال حکومت اور معاشرہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق بڑھاپے کا دور انسانی زندگی کا اختتامی مرحلہ ہوتا ہے اور یہ ایک قدرتی عمل ہے جس کا ایک نا ایک دن ہر انسان کو سامنا کرنا ہے۔ بڑھاپے میں بیشتر افراد نسیان، قوت بصارت اور سماعت کی کمزوری کے علاوہ امراض قلب، بلند فشار خون، ذیابیطیس، ہڈیوں کی بوسیدگی، جوڑوں کے درد، تنفس، جگر، گردہ اور دیگر دائمی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے بڑھاپےکو "یک پیری صد عیب” اور سفید بالوں کو موت کا قاصد کہا گیا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں بزرگوں کے لئے ایک اہم بلند مرتبہ متعین کیا گیا ہے اور عمر رسیدہ افراد کی تکریم علامت ایمان قرار دی گئی ہے۔ لیکن افسوس کہ اکثر نئی نسل بوڑھے والدین کو بوجھ اور فالتو شے سمجھنے لگی ہے جبکہ قرآن مجید کا یہ واضح پیغام ہے کہ ” اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ” اف” تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا اور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب! تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے پچپن میں پالا۔
( سورہ بنی اسرائیل 24-23)۔
بزرگ افراد کی بزرگی کی وجہ سےانہیں معاشرہ میں ایک خاص مقام اور بلند مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔ لہذاء دنیا کے تمام مذاہب اور اخلاقی تعلیمات میں بزرگ افراد سے ہر ممکن طور پر حسن سلوک کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ ایک حدیث کے مطابق حضور اکرم نے فرمایا کہ بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے( سنن ابو داؤد)۔ اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ کے مطابق آپ نے فرمایا کہ بے شک میری امت کےبزرگ افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی اور و عظمت سے ہے( کنزالاعمال)۔
لہذاء بزرگ افراد کو بڑھاپے کی عمر میں ہماری زیادہ توجہ، دیکھ بھال اور ہمدردی کی ضرورت رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر بزرگوں کی تعظیم اور خدمت ہمارے لئے ایک کار ثواب کا درجہ رکھتی ہے ۔
دنیا بھر میں بزرگ افراد کو زندگی کے آخری دور میں معاشی مسائل، ملازمت کا چھوٹ جانا، ناکافی آمدنی اور معاشی عدم تحفظ کے ساتھ ساتھ جسمانی و نفسیاتی مسائل، صحت و طبی مسائل، غذا کی کمی اور ناکافی رہائشی سہولیات، نفسی و سماجی مسائل، نفسیاتی و سماجی بدنظمی اور بعض اوقات اپنوں کے ہاتھوں بدسلوکی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
بعض بدقسمت بزرگ افراد تو نافرمان اور لالچی اولاد کے دکھی رویہ کے باعث اپنی زندگی کے بقیہ ایام اولڈ ایج ہوم میں گزارنے پربھی مجبور ہو جاتے ہیں۔ جو خدا وند تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات سے سراسر روگردانی کے مترادف ہے ۔لیکن بزرگ افراد کو نظر انداز کرنے کی تشویشناک صورت حال آج کے دور جدید میں ایک بدترین سماجی اور ثقافتی المیہ بن گئی ہے۔
انجمن اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا بھر میں بزرگ افراد کی اہمیت،ان کی تکالیف، ضروریات اور حقوق کی جانب معاشرہ کی توجہ دلانے کے لئے ہرسال یکم اکتوبر کو بزرگ افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا آغاز 1991ء میں ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق 60 برس یا زائد عمر کے افراد کو معاشرہ میں بزرگ شہری(Senior Citizen) کا خصوصی درجہ حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں 14 دسمبر 1990ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد نمبر 106/45 منظور کی گئی تھی۔جو بڑھتی عمر پرویانا عالمی منصوبہ عمل (Vienna International Plan of Action on Aging) کےاولین اقدمات تھے۔ جسے ابتداء میں 1982ء میں بڑھتی عمر پرمنعقدہ عالمی اسمبلی (World Assembly on Aging) نے اپنایا تھا اور پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس اقدام کی توثیق کی تھی۔ 1991ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی ایک قراداد نمبر 91/46 کے ذریعہ دنیا بھر کےبزرگ افراد کے لئے رہنماء اصول مرتب کئے تھےاور 2002ء میں بڑھتی ہوئی عمر کے موضوع پر منعقدہ دوسری عالمی اسمبلی نے اکیسویں صدی میں بڑھتی ہوئی عمر کےمواقعوں اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اور معاشرہ میں تمام عمروں کے افرادکی ترقی اورفروغ کے لئے بڑھتی عمر پر میڈرڈ عالمی منصوبہ عمل (Madrid International Plan of Action on Aging) کو اپنایا تھا ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی رو سے بزرگ افراد کو بھی دیگر شہریوں کی طرح حق آزادی، شرکت، دیکھ بھال،ذاتی خواہشات تکمیل اور وقار سے زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2050ء تک دنیا میں بزرگ افراد کی آبادی دس فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گی یعنی ہر پانچ میں سے ایک شہری بزرگ شہری ہوگا۔
حکومت پاکستان نے بڑھتی عمر پرمیڈرڈ عالمی منصوبہ عمل کے ایک دستخط کنندہ کی حیثیت سے ملک میں بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال اور بحالی کے لئے رفتہ رفتہ متعدد اصلاحات اور قانونی اقدامات کئے ہیں ۔اس سلسلہ میں 1999ء میں ملک میں پالیسی برائے بزرگ شہری متعارف کرائی تھی ۔بعد ازاں بزرگ شہریوں (Senior Citizen) کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے لئے 2007ء میں سینئر سٹیزن بل بھی تیار کیا تھا۔ جس کے تحت بزرگ افراد کو روڈ ٹرانسپورٹ اور ریل کے سفر میں کرائے کی رعائت، پنشن کی فراہمی کو قابل عمل بنانا، عوامی مقامات پر قائم باغیچوں، عجائب گھروں، چڑیا گھروں، لائبریریوں، کتب میلوں اور آرٹ گیلریوں میں مفت داخلے اور مفت قانونی خدمات کی فراہمی کے علاوہ ڈاک خانوں اور بینکوں ،ریلوے اسٹیشنوں اور دیگرسرکاری اداروں میں ان کو فوری خدمات کی فراہمی کے لئے علیحدہ کاؤنٹروں کی سہولت شامل تھی۔
لیکن اپریل 2010ء میں ملک میں 18ویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں بزرگ افراد کی بھلائی کے لئے قانون سازی کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوجانے کے بعد وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں کی جانب سے بزرگ شہریوں کے لئے پالیسی اصلاحات کے تحت علیحدہ علیحدہ ضروری قانون سازی کی گئی تھی۔ جس کے مطابق صوبہ پنجاب میں 2013ء میں بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود اور بحالی کے لئے،صوبہ خیبر پختونخوا نے2014ء میں، صوبہ سندھ نے 2016ء اور صوبہ بلوچستان نے2017ء میں قانون سازی کی گئی تھی۔ جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کا قانون 2019ء میں منظور کیا گیا تھا۔ لیکن بزرگ شہریوں کی بھلائی کے لئے منظور کئے گئے ان جملہ قوانین کے باوجود پاکستان میں آج تک ان پر موثر طور پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ جس کے نتیجہ میں ملک کے لاکھوں بزرگ شہری آج بھی سماجی تحفظ، صحت کی مناسب دیکھ بھال، سرکاری اداروں کی خدمات میں خصوصی ترجیح اور سفری کرائے میں رعائت کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں جس کے باعث بزرگ شہری معاشرہ کے ایک نظر انداز شدہ طبقہ کی حیثیت سے نہایت کسمپرسی کی حالت میں اپنی زندگی کے بقیہ دن پورے کررہے ہیں۔
حکومت پاکستان نے یکم جولائی 1976ء کو سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد فراہم کی جانے والی پنشن کی طرز پر ملک کےنجی شعبہ میں خدمات انجام دینے والے لاکھوں ملازمین کے لئے بھی ریٹائرمنٹ کے بعد باعزت گزر بسر کے لئے ایک بڑھاپا پنشن منصوبہ متعارف کرایا تھا۔ جسے فوائد برائےضعیف العمر ملازمین قانون مجریہ 1976ء یا (Employees’ Old-Age Benefits Act. 1976) کہا جا تاہے ۔۔جس کے تحت آئین پاکستان کی دفعہ38(c) پر عملدرآمد کرتے ہوئے نجی شعبہ کے ملازمین کو لازمی سماجی بیمہ (Compulsory Social Insurance) پنشن کی سہولت فراہم کی گئی تھی تاکہ رجسٹرڈ ملازمین کو ناگہانی صورت حال یعنی بڑھاپے،۔معذوری اور ان کی وفات کی صورت میں ان کے لواحقین کو تاحیات پنشن ادا کی جاسکے ۔اس مقصد کے لئے یکم جولائی 1976ء کوقومی سطح پر ادارہ فوائد برائے ضعیف العمر ملازمین (Employees’ Old-Age Benefits Institution)کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جو وزارت بیرون ملک پاکستانی و ترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان کی زیر نگرانی میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ ایک شراکت داری (Contributory) پنشن منصوبہ ہے جس کے شراکت داروں میں وفاقی حکومت اور آجران اس کے مالی سرپرست مقرر کئے گئے ہیں جبکہ ملازمین اس کے فوائد پانے والوں،(Beneficiary) میں شامل ہیں۔ ملک بھر کے تمام نجی صنعتی، کاروباری، تجارتی، تعلیمی،طبی،ذرائع ابلاغ اور دیگر اداروں میں خدمات انجام دینے والے ہر قسم کے ملازمین خواہ وہ مستقل ہوں یا عارضی، یومیہ اجرت، ٹھیکیداری، بدلی،فصلی یا زیر تربیت اپنے آجران کے توسط سے اس پنشن منصوبہ میں شمولیت کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ای او بی آئی رجسٹر شدہ آجران سے ان کے ملازمین کی مد میں ایک مخصوص مدت تک رواں کم از کم اجرت کے6 فیصد کے مساوی ماہانہ چندہ (Contribution) وصول کرتا ہے ان رجسٹر شدہ ملازمین کو بیمہ دار افراد (Insured Persons) کہا جاتا ہے۔
ابتداء میں یہ پنشن منصوبہ نجی شعبہ ملازمین کے لئے صرف تاحیات بڑھاپے کی پنشن کی فراہمی تک محدود تھا۔ بعد ازاں اس میں اصلاحات کے ذریعہ بیمہ دار افراد کی بے سہارا بیوگان کے لئے تاحیات پسماندگان پنشن، معذوری پنشن،غیر شادی شدہ بیمہ دار فرد کی وفات کی صورت میں ان کے والدین کے لئے 5 برس تک محدود مدت تک پنشن،تخفیفی پنشن اور بیمہ دار فرد/پنشنر اور بیوہ کی وفات کی صورت میں ان کے کسی ایک نابالغ بچہ کے لئے طفلی پنشن بھی متعارف کرائی گئی تھیں۔ان بیمہ دار افراد کو (مرد حضرات کو 60 برس کی عمر میں، خواتین کو 55 برس کی عمر) مقررہ شرائط وضوابط کے مطابق ریٹائرمنٹ اور معذوری کی صورت میں کم از کم 10 ہزار روپے ماہانہ پنشن ادا کی جاتی ہے۔ جبکہ بیمہ دار فرد کی طویل بیمہ شدہ ملازمت اور ادا شدہ کنٹری بیوشن کی زائد شرح کی صورت میں فارمولہ پنشن کے مطابق ان کی زیادہ سے زیادہ پنشن 30,720 روپے ماہانہ تک ہوسکتی ہے۔ اس فوائد منصوبہ کے تحت کسی بیمہ دار فرد کی وفات کی صورت میں صرف تین برس کی رجسٹریشن معہ ادا شدہ چندہ(Contribution) کی بنیاد پر ان کے شریک حیات کو باعزت گزر بسر کے لئے متوفی کی پنشن کے سو فیصد کی شرح سے تاحیات پسماندگان پنشن ادا کی جاتی ہے۔جبکہ کسی بیمہ دار فرد کی دوران ملازمت معذوری کی صورت میں صرف پانچ برس کی رجسٹریشن معہ ادا شدہ چندہ اور میڈیکل بورڈ کی جانب سے طبی جانچ پڑتال کے بعد معذوری پنشن ادا کی جاتی ہے ۔ یہ پنشن منصوبہ اپنے حجم کے لحاظ سے لاکھوں بزرگ شہریوں کی ماہانہ مالی کفالت کرکے ایک اہم قومی فریضہ انجام دے رہا ہے جس کے تحت تقریبا پانچ لاکھ بزرگ پنشنروں میں ماہانہ تقریبا پانچ ارب روپے کی خطیر رقم تقسیم کی جا رہی ہے ۔
ایک اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ ان لاکھوں بزرگ پنشنروں کو دیگر سرکاری اداروں کے پنشنروں کے مقابلہ میں اپنی پنشن کے حصول کے لئے دور دراز سفر، طویل قطاروں اور انتظار کی صعوبتوں سے بھی مکمل نجات دلادی گئی ہے اور بزرگ پنشنرز ملک بھر میں کبھی بھی اور کہیں بھی بینک الفلاح لمیٹڈ کی تقریبا 600 برانچوں کی اے ٹی ایم مشینوں کے ذریعہ باآسانی اپنی پنشن وصول کرسکتے ہیں۔جبکہ ملک بھر میں اس پنشن منصوبہ میں رجسٹرڈ مستقبل کے بزرگ افراد کی تعداد اب ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے
لیکن اب اپنے قیام کے 48 برس بعد اب یہ پنشن منصوبہ حکومتی سطح پر نظر انداز کئے جانے کے باعث تیزی سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ کیونکہ وفاقی حکومت 1995ء سے غیر قانونی طور پر اپنے حصہ کی مساوی امداد (Matching Grant) روکے بیٹھی ہے ۔ جبکہ ملک کے آجران کی اکثریت بھی اپنے قانونی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے اپنے جملہ ملازمین کی رجسٹریشن اور ان کی مد میں ای او بی آئی کو ماہانہ چندہ(Contribution) کی ادائیگی سے پہلو تہی کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں نجی شعبہ کے لاکھوں ملازمین اور ان کے لواحقین کی پنشن کے بنیادی حق کو بری طرح غضب کیا جارہا ہے ۔
اسلام آباد میں بزرگ افراد کی بھلائی اور حقوق کے تحفظ کے فروغ کے لئے قائم ایک تھنک ٹینک سوشل پروٹیکشن ریسورس سنٹر (SPRC) کی رپورٹ ” پاکستان میں بزرگ افراد کی حالت اور بھلائی” کے مطابق ماضی کے مقابلہ میں دنیا بھر میں بہتر خوراک، صحت کی دیکھ بھال، امراض کو کنٹرول کرنے والی موثر ادویات اور شرح افزائش میں کمی کی وجہ سے انسانوں کی طبعی عمر میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان اپنے ایک کروڑ بزرگ افراد پر مشتمل آبادی کے لحاظ سے دنیا میں 15 ویں نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ ماہرین کے ایک تخمینہ کے مطابق 2030ء میں ملک میں بزرگ شہریوں کی آبادی دگنی ہونے کا امکان ہے۔ جبکہ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 72 فیصد بزرگ افراد اپنے کنبہ کے ساتھ، نو فیصد شریک حیات کے ساتھ، سات فیصد تنہا اور تین فیصد اپنے نزدیکی عزیزوں کے ساتھ جبکہ ان کی بقیہ تعداد اولڈ ایج ہومز، محتاج گھروں یا گلی محلوں میں بے یار و مددگار زندگی گزار رہے ہیں۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ابھرتے سورج کی سر زمین جاپان میں بزرگ افراد کی تعداد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں 65 یا زائد برس کے بزرگ افراد کی تعداد اب 3 کروڑ 62 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ چکی ہے اور ان بزرگ افراد کو ملنے والی سرکاری پنشن کے مقابلہ میں ان کے روزمرہ اخراجات 25 فیصد زائد تک پہنچ چکے ہیں۔ جس کے باعث غربت اور تنہائی کے مارے ہوئے جاپانی بزرگ شہری اپنی زندگی کی تنہائی، یکسانیت اور روز بروز بڑھتے ہوئے مصارفی اخراجات سے بیزار ہو کر اب جان بوجھ کر چھوٹے موٹے جرائم کرکے جیل جا نے تک کو تیار ہوگئے ہیں۔ کیونکہ معاشرہ کے برعکس انہیں جیل میں مناسب خوراک، قیام اور علاج معالجہ کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق جاپان کے مختلف شہروں میں عادی جرائم پیشہ افراد کے مقابلہ میں 60 برس یا زائد عمر کے بزرگ افراد نے جان بوجھ کر چوری چکاری کے 35 فیصد معمولی جرائم کا ارتکاب کیا ہے تاکہ اس سرزد جرم کے ذریعہ انہیں کسی نہ کسی طرح سزا کے طور پر جیل جانے کا موقع مل سکے۔
واشنگٹن میں 1929ء سے قائم بہبود آبادی کی ایک فلاحی تنظیم پاپولیشن ریفرنس بیورو (PRB) نے اقوام متحدہ کے آبادی پروگرام کے تحت عالمی آبادی کے تناظر کے حوالہ سے ایک رپورٹ پیش کی ہے۔ جس میں دنیا کے 50 ممالک میں بڑھتی ہوئی عمر 65 برس یا زائد کے بزرگ افراد کے متعلق اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں۔ جس کے مطابق ایشیاء اور یورپ کو بزرگ شہریوں کے گھر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جاپان میں کل آبادی کا 28 فیصد، اٹلی میں 21 فیصد، پرتگال میں 21 فیصد،جرمنی میں 21 فیصد، فرانس میں 20 فیصد، سوئیڈن میں 19 فیصد، برطانیہ میں 18 فیصد، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں 16 فیصد، روسی فیڈریشن میں 14 فیصد،عوامی جمہوریہ چین میں 12 فیصد،یونان میں 11 فیصد،ہندوستان میں 6 فیصد، بنگلہ دیش میں 5 فیصد اور پاکستان میں 4 فیصد حصہ بزرگ شہریوں پر مشتمل ہے۔
مجموعی طور پر دنیا بھر میں ڈنمارک اور فن لینڈ کو وہاں کے عمومی معاشرتی رحجان، مستحکم معیشت اور دستیاب مضبوط سماجی تحفظ کے لحاظ سے بزرگ افراد کے لئے جنت نظیر اور دنیا بھر میں سب سے اطمینان بخش ممالک تسلیم کیا جاتا ہے۔ جبکہ بزرگ افراد کی بہتر دیکھ بھال کے لئے مرتب کی گئی ایک عالمی فہرست مسرت ( Global Happiness Index) میں دنیا کے 20 ممالک ڈنمارک، فن لینڈ، ناروے،سوئیڈن،آئس لینڈ، سوئزر لینڈ، نیوزی لینڈ، ہالینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، ریاستہائے متحدہ امریکہ، کویت، متحدہ عرب امارات، لکسمبرگ، آسٹریا، آئرلینڈ، کوسٹا ریکا، اسرائیل ، بلجیئم اور برطانیہ کو شامل کیا گیا ہے ۔
دنیا بھر میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے والے افراد کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی مناسب دیکھ بھال، صحت کو فروغ دینے، امراض کی روک تھام اور لاحق پیچیدہ امراض کے علاج و معالجہ کی اہمیت بڑھ گئی ہے جس پر حکومت، سماجی اداروں اور معاشرہ کو مشترکہ طور پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں پیدا شدہ اس تشویشناک صورت حال کے پیش نظر بڑھتی ہوئی عمر کے متنوع صلاحیتیں رکھنے والے بزرگ افراد کو معاشروں میں باوقار طور سے کھپانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا بیحد ضروری ہوگیا ہے۔
دنیا بھرکے بزرگ افراد کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنے اور ان کی غیر متحرک زندگی کو سرگرم اور فعال بنانے کے لئے ایک عالمی اور غیر منافع بخش تنظیم ہیلپ ایج انٹرنیشنل HelpAge International)) قائم ہے۔ جس کا قیام 19 نومبر 1983ء کو ایک ممتاز برطانوی انسان دوست اور مخیر سماجی شخصیت سر لیزلی کرکلے(1911-1989) کی کوششوں سے عمل میں آیا تھا جو دنیا بھر میں بزرگ افراد کی زندگی کو بہتر بنانے اور ان کی حمایت کے لئے کوشاں ہے۔ اس فلاحی تنظیم نے ہیلپ ایج گلوبل نیٹ ورک (HelpAge Global Network) کی تنظیموں کے ایک کثیر الجہتی اتحاد کے ذریعہ دنیا بھر کے بزرگ افراد کی بھلائی اور ان کا وقار برقرار رکھنے کا عہد کیا ہوا ہے اور یہ تنظیم دنیا بھر میں بزرگ افراد کی آواز بلند کرنے کے لئے ایک عالمی درجہ رکھتی ہے اور اس کا عالمی نیٹ ورک دنیا کے 98 ارکان ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ اس فلاحی تنظیم کا نصب العین بزرگ افراد کو درپیش غربت،سماجی علیحدگی اور امتیازی سلوک کے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے انہیں ایک صحت مند اور باوقار زندگی گزارنے میں رہنمائی اور مدد فراہم کرنا ہے ۔تنظیم کا کہنا ہے کہ ہم دنیا بھر میں بزرگ افراد کی مدد کرنے والی پالیسیوں اور پروگراموں کی وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ بزرگوں کے لئے کام کرنے والی مقامی تنظیموں اور برادریوں کو ضروری رہنمائی اور تکنیکی امداد بھی فراہم بھی کرتے ہیں۔ہیلپ ایج انٹرنیشنل کو دنیا بھر کے لاکھوں بزرگ افراد کے لئے بھلائی کے امور انجام دینے کے لئے برطانیہ، اقوام متحدہ کے اداروں، دیگر ممالک، یورپی یونین، سوئیڈن، آئر لینڈ اور امریکہ سے22.1 ملین پاؤنڈ سالانہ امداد ملتی ہے اور اس کا صدر دفتر لندن میں واقع ہے جبکہ ایشیاء اور خطہ بحر الکاہل،افریقہ، مشرقی وسطیٰ، لاطینی امریکہ ،شمالی امریکہ اور یورپ کے ممالک میں ہیلپ ایج انٹر نیشنل کا منظم جال بچھا ہوا ہے۔
بزرگ افراد کے حقوق کی وکالت کرنے والی یہ عالمی تنظیم پاکستان میں بھی ہیلپ ایج پاکستان (HelpAge Pakistan) کے نام سے گزشتہ تین دہائیوں سے نمایاں خدمات انجام دے رہی ہے اور اس کا صدر دفتر اسلام آباد میں قائم ہے۔ تنظیم کی جانب سے ملک میں بزرگ افراد کو درپیش مسائل پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں بیشتر بزرگ افراد غربت کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کی پوری زندگی زراعت اور دیگر غیر رسمی شعبوں میں کام کرتے ہوئے گزر جاتی ہے اور جب یہ افراد بڑھاپے کی منزل تک پہنچتے ہیں تو ان میں سے بہت کم بزرگ افراد اپنی بڑھاپا پنشن اور قابل اعتماد آمدنی سے مستفید ہو پاتے ہیں۔جبکہ ریاست کی جانب سے اکثر انہیں اپنے کنبہ کی کفالت پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے جو اپنے محدود وسائل کے باوجود ان بزرگ افراد کی ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ جسمانی اور ذہنی معذوری کا شکار اکثر بزرگ افراد یا تو تنہا بھی رہتے ہیں یا پھر ان کے بچے ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں، خصوصا بزرگ بیوائیں تو اکثر پوری زندگی ریاست کی جانب سے صحت کی دیکھ بھال سے محروم اور مالی عدم تحفظ کا شکار رہتی ہیں۔
پاکستان میں لاکھوں بزرگ افراد کے لئے صحت کی دیکھ بھال اور مناسب علاج و معالجہ کے مسائل بھی بیحد عام ہیں، بڑھتی عمر میں کمزور مدافعاتی نظام کے باعث ان بزرگ افراد کو اکثر غیر متعدی امراض بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔لیکن ملک میں صحت کی دیکھ بھال کے ناکافی مواقعوں، کمزور اور پیچیدہ نظام صحت کی وجہ سے ان بزرگ افراد کو صحت کی خدمات کی فراہمی میں ترجیح حاصل نہیں اور اکثر سرکاری اسپتالوں کا طبی عملہ بھی ان بزرگ افراد کو خصوصی طبی دیکھ بھال کے لئے درکار مہارت اور صلاحیتوں سے نا آشنا ہوتا ہے۔ جس کے باعث اکثر معالجین بزرگ افراد کی صحت کو درپیش مخصوص طبی مسائل،ان کی بروقت تشخیص اور علاج و معالجہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔حتیٰ کہ ملک کے اکثر سرکاری اسپتالوں میں بزرگ افراد کی صحت اور نگہداشت کے ماہر ڈاکٹر (Geriatric Doctors) بھی دستیاب نہیں جو ان بزرگ افراد کو لاحق گوناگوں امراض کی تشخیص اور ان کا مناسب علاج و معالجہ کرسکیں۔
ہیلپ ایج پاکستان کے مطابق پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع ، کمزور معیشت اور ناقص انتظامی ڈھانچہ کی وجہ سے وقتا فوقتا قدرتی آفات کا شکار بھی رہتا ہے ۔جہاں حالیہ برسوں میں لاکھوں باشندوں کو سیلاب، زلزلوں،قحط سالی اور بدامنی کی سنگین صورت حال کا سامنا رہا ہے۔ ایسے ہنگامی حالات کے دوران اکثر بزرگ افراد مختلف نوعیت کے سنگین خطرات میں گھرے رہتے ہیں اور اس نازک صورت حال میں انہیں امدادی شکل میں ایسی معیاری خوراک اور ادویات کی ضرورت رہتی ہے جو بڑھتی عمر کے لحاظ سے ان کی خصوصی ضروریات کو پورا کرسکیں۔
ہیلپ ایج پاکستان کا نصب العین معاشرہ کے نظر انداز شدہ بزرگ افراد کے معاش کا تحفظ، سماجی بچاؤ کی وکالت، بزرگ افراد کے حقوق کی مہم،انسانی ہنگامی صورت حال میں ان کی مدد اور معاشرہ میں بزرگ افراد کی اہمیت کے متعلق آگہی اور بیداری پیدا کرنا ہے۔
بزرگ افراد کی بھلائی اور حمایت کے لئے سرگرم فلاحی تنظیم ہیلپ ایج پاکستان کا معاشرہ کے لئے پیغام ہے کہ اپنے بزرگوں کی بڑھتی ہوئی عمر کو قبول کریں اور انہیں کسی صورت نظر انداز نہ کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ کا ہر بزرگ فرد وہ جہاں کہیں بھی ہو، یہ کہنے کے قابل ہوسکے کہ میں بھلائی سے لطف اندوز ہوتا ہوں، میرا وقار کے ساتھ علاج کیا گیا اور میری آواز سنی گئی۔