سید ابوالاعلٰی مودودی (1903ء – 1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی ہیں ۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک ہیں ۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
موجودہ دور میں اسلام کی دنیا بھر میں بین الاقوامی سطح پر پذیرائی سید ابوالاعلی مودودی (بانی جماعت اسلامی ہند ، پاکستان ، اور بنگلہ دیش ) اور شیخ حسن البناء ( بانی اخوان المسلمون ) کی فکر کا ہی نتیجہ ہے جنہوں نے عثمانی خلافت کے اختتام کے بعد نہ صرف اسے زندہ رکھا بلکہ اسے خانقاہوں سے نکال کر عوامی پزیرائی بخشی۔
سید ابوالاعلی مودودی کا پاکستانی سیاست میں بھی بڑا کردار تھا۔ پاکستانی حکومت نے انہیں قادیانی فرقہ کو غیر مسلم قرار دینے پر پھانسی کی سزا بھی سنائی جس پر عالمی دباؤ کے باعث عملدرآمد نہ ہو سکا۔ سید ابوالاعلی مودودی کو ان کی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔
سید ابوالاعلٰی مودودی 1903ء بمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گزرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی تعلیم پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔
1914ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہو گئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔ اس زمانے میں دارالعلوم کے صدر مولانا حمید الدین فراہی تھے جو مولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ تاہم والد کے انتقال کے باعث وہ دار العلوم میں صرف چھ ماہ ہی تعلیم حاصل کر سکے۔
سید مودودی لکھنے کی خداداد قابلیت کے حامل تھے اس لیے انہوں نے قلم کے ذریعے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے اور اسی کو ذریعہ معاش بنانے کا ارادہ کر لیا۔ چنانچہ ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور متعدد اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا جن میں اخبار "مدینہ” بجنور (اترپردیش)، "تاج” جبل پور اور جمعیت علمائے ہند کا روزنامہ "الجمعیت” دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔
1925ء میں جب جمعیت علمائے ہند نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سید مودودی نے بطور احتجاج اخبار”الجمعیۃ” کی ادارت چھوڑ دی۔
جس زمانے میں سید مودودی”الجمعیۃ” کے مدیر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کی جس پر کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کر دیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہو گیا۔ ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور علانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔
انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جا رہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت سید مودودی کی عمر صرف 24 برس تھی۔
اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
” اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے الجمعیۃ” کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑکر سید مودودی حیدرآباد دکن چلے گئے۔ جہاں اپنے قیام کے زمانے میں انہوں نے مختلف کتابیں لکھیں اور 1932ء میں حیدرآباد سے رسالہ”ترجمان القرآن” جاری کیا۔
1935ء میں آپ نے "پردہ” کے نام سے اسلامی پردے کی حمایت میں ایک کتاب تحریر کی جس کا مقصد یورپ سے مرعوب ہوکر اسلامی پردے پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ اس کے علاوہ "تنقیحات” اور”تفہیمات” کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔
1938ء میں کانگریس کی سیاسی تحریک اس قدر زور پکڑ گئی کہ بہت سے مسلمان اور خود علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ مل گئی۔
کانگریس کے اس نظریہ کو "متحدہ قومیت” یا "ایک قومی نظریہ” کانام دیا جاتا تھا۔ سید مودودی نے اس نظریے کے خلاف بہت سے مضامین لکھے جو کتابوں کی صورت میں "مسئلہ قومیت” اور ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش” حصہ اول و دوم کے ناموں سے شائع ہوئی۔ مولانا مودودی صاحب پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ اپنے ایک کتابچے میں لکھتے ہیں کہ:۔
” پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں۔۔۔ اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی۔ “
حالانکہ ان کی تحریروں کو اگر کاٹ چھانٹ کر پیش کرنے کی بجائے مکمل سیاق و سباق کے ساتھ اور پورے جملے کو پڑھا جائے تو اصل صورت حال واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ چونکہ تحریک پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی۔ اس تصور کو پیش کرنے، اسے نکھارنے اور فروغ دینے میں سید مودودی کی تحریرات کا حصہ تھا، اسے اس شخص کی زبان سے سنیئے جو محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان کا دست ِ راست تھا۔ ۔۔۔۔۔ یعنی آل انڈیا مسلم لیگ کے جائنٹ سیکریٹری، اس کی مجلس ِ عمل Committee Of Action اور مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سیکریٹری ظفر احمد انصاری لکھتے ہیں۔
” اس موضوع پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے ’’مسئلہ قومیت“ کے عنوان سے ایک سلسلہ ءِ مضامین لکھا جو اپنے دلائل کی محکمی، زور ِ استدلال اور زور ِ بیان کے باعث مسلمانوں میں بہت مقبول ہوا اور جس کا چرچا بہت تھوڑے عرصے میں اور بڑی تیزی کے ساتھ مسلمانوں میں ہو گیا۔ اس اہم بحث کی ضرب متحدہ قومیت کے نظریہ پر پڑی اور مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کا احساس بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔ قومیت کے مسئلہ پر یہ بحث محض ایک نظری بحث نہ تھی بلکہ اس کی ضرب کانگریس اور جمعیت علماء ہند کے پورے موقف پر پڑتی تھی۔ ہندوؤں کی سب سے خطرناک چال یہی تھی کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کی جدا گانہ قومیت کا احساس کسی طرح ختم کرکے ان کے ملی وجود کی جڑیں کھوکھلی کردی جائیں۔ خود مسلم لیگ نے اس بات کی کوشش کی کہ اس بحث کا مذہبی پہلو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے تاکہ عوام کانگریس کی کھیل کو سمجھ سکیں اور اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔ “
مسلم لیگی رہنما مزید لکھتے ہیں۔
” دراصل پاکستان کی قرار داد سے پہلے ہی مختلف گوشوں سے ’’حکومت الہٰیہ“ ، ’’مسلم ہندوستان“ اور ’’خلافت ربانی“ وغیرہ کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ علامہ اقبال نے ایک ’’مسلم ہندوستان“ کا تصور پیش کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مودودی صاحب کے لٹریچر نے حکومت الہٰیہ کی آواز بلند کی تھی۔ چوہدری فضل حق نے اسلامی حکومت کا نعرہ بلند کیا تھا۔ مولانا آزاد سبحانی نے خلافتِ ربانی کا تصور پیش کیا تھا۔ جگہ جگہ سے اس آواز کا اٹھنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اپنے مخصوص طرز فکر کی حکومت قائم کرنے کی ضرورت پوری شدت سے محسوس کررہے تھے اور حالات کے تقاضے کے طور پر ان کے عزائمِ خفتہ ابھر کر سامنے آرہے تھے۔[4] ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سید مودودی کی تحریرات سے بے حد متاثر تھے۔ بقول میاں محمد شفیع (مدیر ہفت روزہ اقدام)، علامہ موصوف ’’ترجمان القرآن“ کے اُن مضامین کو پڑھوا کر سنتے تھے۔ اُن (مضامین) ہی سے متاثر ہوکر علامہ اقبال نے مولانا مودودی کو حیدرآباد دکن چھوڑ کر پنجاب آنے کی دعوت دی اور اسی دعوت پر مولانا 1938ء میں پنجاب آئے۔ میاں محمد شفیع صاحب اپنے ہفت روزہ اقدام میں لکھتے ہیں کہ
” مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی تو درحقیقت نیشنلسٹ مسلمانوں کی ضد تھے اور میں یہاں پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ میں نے حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ کی زبان سے کم و بیش اس قسم کے الفاظ سنے تھے کہ ’’مودودی ان کانگریسی مسلمانوں کی خبر لیں گے“۔ جہاں علامہ اقبال بالکل واضح طور سے آزاد (مولانا آزاد) اور مدنی (مولانا حسین احمد مدنی) کے نقاد تھے وہاں وہ مولانا کا ’’ترجمان القرآن“ جستہ جستہ مقامات سے پڑھواکر سننے کے عادی تھے۔ اور اس امر کے متعلق تو میں سو فیصدی ذمہ داری سے بات کہہ سکتا ہوں علامہ نے مولانا مودودی کو ایک خط کے ذریعے حیدرآباد دکن کے بجائے پنجاب کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی دعوت دی تھی۔ بلکہ وہ خط انہوں نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا۔
اس وقت کے مارشل لا حکومت کے قائم کردہ دستوری کمیشن کے مشیر اور کمپنی لا کمیشن کے صدر سید شریف الدین پیرزادہ اپنی کتاب ’’ارتقائے پاکستان“ Evolution of Pakistan میں لکھتے ہیں۔
” مولانا مودودی نے ترجمان القرآن کے ایک سلسلہ مضامین کے ذریعے جو 1938ء اور 1939ء کے درمیان شائع ہوئے، کانگریس کے چہرے سے نقاب اتاری اور مسلمانوں کو متنبہ کیا۔ موصوف نے برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لیا، کانگریس کی لادینیت کی قلعی کھولی اور یہ ثابت کیا کہ ہندوستان کے مخصوص حالات میں اس کے لیے جمہوریت ناموزوں ہے۔ اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کو ایک ووٹ اور ہندوؤں کو چار ووٹ ملیں گے۔ انہوں نے ہندوؤں کےقومی استعمار کی بھی مذمت کی اور اس رائے کا اظہار کیا کہ محض مخلوط انتخاب یا اسمبلیوں میں کچھ زیادہ نمائندگی Weightage اور ملازمتوں میں ایک شرح کا تعین مسلمان قوم کے سیاسی مسائل کا حل نہیں ہے۔ جو تجویز انہوں نے پیش کی اس میں تین متبادل صورتوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔“
ان صورتوں میں آخری صورت ہندوستان کی تقسیم کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سید شریف الدین پیرزادہ ارتقائے پاکستان میں جس نتیجہ پر پہنچتے ہیں اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ
” وہ تجاویز اور مشورے جو سر عبداللہ ہارون، ڈاکٹر لطیف، سرسکندر حیات، ’’ایک پنجابی“، سید ظفرالحسن، ڈاکٹر قادری، مولانا مودودی، چودھری خلیق الزمان وغیرہ نے دیئے، وہ ایک معنی میں پاکستان تک پہنچنے والی سڑک کے سنگہائے میل ہیں۔ صوبہ سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم کے موقع پر مولانا مودودی نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیا اور لوگوں کو اس موقع پر آمادہ کرنے کے لیے کہا
” اگرمیں صوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔ اس لیے کہ جب ہندوستان کی تقسیم ہندو اور مسلم قومیت کی بنیاد پر ہورہی ہے تو لامحالہ ہر اس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو اس تقسیم میں مسلم قومیت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہیے۔[8] “
اس تاریخی موقع پر آئندہ کے نظام کے بارے میں مولانا نے لکھا
” وہ نظام اگر فی الواقع اسلامی ہوا جیسا کہ وعدہ کیا جارہا ہے تو ہم دل و جان سے اس کے حامی ہوں گے، اور اگر وہ غیر اسلامی نظام ہوا تو ہم اسے تبدیل کرکے اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اسی طرح کرتے رہیں گے جس طرح موجودہ نظام میں کررہے ہیں۔ [9]
قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوان مسلم قومیت پر سید مودودی کے مضامین مسلم لیگ کے حلقوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے رہے۔ بعد ازاں مسلم لیگ یو پی نے اسلامی نظام مملکت کا خاکہ تیار کرنے کے لیے علما کی ایک کمیٹی بنائی تو مولانا مودودی نے اس کی رکنیت قبول کرتے ہوئے اس کام میں پوری دلچسپی لی۔ اس کا مسودہ کمیٹی سے وابستہ ایک معاون تحقیق مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے Working Paper تیار کیا تھا۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں مولاناعبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں۔
” غالبا 1940ء یا شاید اس سے بھی کچھ قبل جب مسلم لیگ کا طوطی ہندوستان میں بول رہا تھا۔ ارباب لیگ کو خیال پیدا ہوا کہ جس اسلامی حکومت (پاکستان) کے قیام کا مطالبہ شد و مد سے کیا جارہا ہے خود اس کا نظام نامہ یا قانون ِ اساسی بھی تو خالص اسلامی بنانا چاہیے۔ اس غرض سے یو پی کی صوبائی مسلم لیگ نے ایک چھوٹی سی مجلس ایسے ارکان کی مقرر کردی جو اس کے خیال میں شریعت کے ماہرین تھے کہ یہ مجلس ایسا نظام نامہ مرتب کرکے لیگ کے سامنے پیش کرے۔ اس مجلس ِ نظام ِ اسلامی کے چار ممبران کے نام تو اچھی طرح یاد ہیں۔ (1) مولانا سید سلیمان ندوی (2) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (3) مولانا آزاد سبحانی (4) عبدالماجد دریا بادی۔[10]
سید مودودی نے ترجمان القرآن کے ذریعے ایک پابندِ اسلام جماعت کے قیام کی تجویز پیش کی اور اس سلسلے میں ترجمان القرآن میں مضامین بھی شائع کیے۔ جو لوگ اس تجویز سے اتفاق رکھتے تھے وہ 26 اگست 1941ء کو لاہور میں جمع ہوئے اور "جماعت اسلامی” قائم کی گئی۔ جس وقت جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس میں پورے ہندوستان میں سے صرف 75 آدمی شامل ہوئے تھے۔ اس اجتماع میں سید مودودی کو جماعت کا سربراہ منتخب کیا گیا۔
پہلی قید:
تقسیم ہند کے بعد سید مودودی پاکستان آ گئے۔ پاکستان میں قائد اعظم کے انتقال کے اگلے ہی ماہ یعنی اکتوبر 1948ء میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے پر آپ گرفتار ہو گئے۔ گرفتاری سے قبل جماعت کے اخبارات "کوثر”، جہان نو اور روزنامہ "تسنیم” بھی بند کردیے گئے۔
سید مودودی کو اسلامی نظام کا مطالبہ اٹھانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن الزام یہ دھرا گیا کہ وہ جہادِ کشمیر کے مخالف تھے۔ قرارداد مقاصد کی منظوری سے قبل اس کا متن بھی مودودی کو ملتان جیل میں دکھایا گیا تھا۔ انہیں 20 ماہ بعد 1950ء میں رہائی ملی۔
اپنی پہلی قید و بند کے دوران انہوں نے "مسئلہ ملکیت زمین” مرتب کی، "تفہیم القرآن” کامقدمہ لکھا، حدیث کی کتاب "ابو داؤد” کا انڈکس تیارکیا، کتاب "سود” اور "اسلام اور جدید معاشی نظریات” مکمل کیں۔
قادیانی مسئلہ:
1953ء میں سید مودودی نے "قادیانی مسئلہ” کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب تحریر کی جس پر انہیں گرفتار کر لیا گیا اور پھرفوجی عدالت کے ذریعے انہیں یہ کتابچہ لکھنے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنادیا۔ سزائے موت سنانے کے خلاف ملک کے علاوہ عالم اسلام میں بھی شدید رد عمل ہوا۔ جن میں مصر کی اسلامی جماعت اخوان المسلمون کے رہنما علامہ حسن الہضیبی، کابل سے علامہ نور المشائخ المجددی، فلسطین کے مفتی اعظم الحاج محمد الحسینی کے علاوہ الجزائر اور انڈونیشیا کے علما نے حکومت پاکستان سے رابطہ کرکے سید مودودی کی سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا جبکہ شام کے دار الحکومت دمشق میں ان کی سزائے موت کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔
بالآخر حکومت نے سزائے موت کو 14 سال سزائے قید میں تبدیل کر دیا۔ تاہم وہ مزید دوسال اور گیارہ ماہ تک زندان میں رہے اور بالآخر عدالتِ عالیہ کے ایک حکم کے تحت رہا ہوئے۔
1958ء میں مارشل لا کے نفاذ کی سخت مخالفت کرنے کے بعد اس وقت کے صدر ایوب خان نے سید مودودی کی کتاب "ضبط ولادت” کو ضبط کر لیا اور ایوبی دور میں ہی فتنۂ انکار حدیث نے سر اٹھایا اور حکومتی سر پرستی میں ایسا طبقہ سامنے آیا جس کا کہنا تھا کہ اسلام میں حدیث کی کوئی حیثیت نہیں حتیٰ کہ مغربی پاکستان کی عدالت کے ایک جج نے حدیث کے بارے میں شک ظاہر کرتے ہوئے اسے سند ماننے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر سید مودودی نے اسلام میں حدیث کی بنیادی حیثیت کو دلائل سے ثابت کرتے ہوئے دونوں کو اسلامی قانون کا سرچشمہ قرار دیا۔ انہوں نے فتنہ انکارِ حدیث کے خلاف اپنے رسالے "ترجمان القرآن” کا "منصب رسالت نمبر” بھی شائع کیا۔
مارشل لا اٹھنے کے بعد اکتوبر 1963ء میں سید مودودی نے جماعت اسلامی کا سالانہ جلسہ لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایوب خاں کی حکومت نے اس کو روکنے کی پوری پوری کوشش کی اور منٹو پارک کی بجائے بھاٹی دروازے کے باہر تنگ جگہ میں جلسہ کرنے کی اجازت دی۔ بعد ازاں لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا گیا۔ 25 اکتوبر کو جلسہ شروع ہوا۔ سید مودودی نے تقریر شروع ہی کی تھی جلسہ گاہ میں موجود نامعلوم افراد نے فائرنگ شروع کی جس سے جماعت اسلامی کا ایک کارکن جاں بحق ہو گیا تاہم مودودی بچ گئے۔
ایوب خاں نے 6 جنوری 1964ء کو جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دے دیا۔ سید مودودی اور جماعت اسلامی کے 65 رہنماؤں کو گرفتار کر کے قید خانوں میں ڈال دیا گیا۔ اس قید کا دورانیہ 9 ماہ رہا جس کے بعد انہیں عدالیہ عظمیٰ کے فیصلے پر رہا کر دیا گیا۔
1967ء میں عید کے چاند کے مسئلے پر شریعت کا مسئلہ بتانے کے جرم میں سید مودودی کو پھر گرفتار کر لیا اور دو ماہ تک بنوں جیل میں رکھا گیا۔
مشرقی پاکستان کے اشتراکی رہنما مولانا بھاشانی نے یکم جون 1970ء کو پورے ملک میں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے اعلان کیا تب سید مودودی نے اسلام کی عظمت و شوکت کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے پورے ملک میں "یومِ شوکتِ اسلام” منانے کا اعلان کیا۔ اور 31 مئی 1970ء کو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شوکتِ اسلام مظاہرہ ہوا اور سینکڑوں جلوس نکالے گئے۔
جب مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی تو بھارت نے باغیوں کی مدد کے لیے مشرقی پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کر دیا۔ اس وقت سید مودودی اور جماعت اسلامی نے ملک بچانے کے لیے بھارتی فوجوں، ہندوؤں اور سوشلسٹوں کامقابلہ کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں لیکن ملک نہ بچ سکا اور بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لیا۔ فوج نے بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور تقریباً ایک لاکھ پاکستانی فوجی اور شہری بھارت کی قید میں چلے گئے۔ بالآخر 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
سید مودودی مسلسل خرابی صحت کی بنا پر 4 نومبر 1972ء کو جماعت اسلامی کی امارت سے علاحدہ ہو گئے۔ وہ 26 اگست 1941ء کو امیر جماعت مقرر ہوئے تھے اور قیدو بند کے وقفہ کے علاوہ 31 سال 2 ماہ اور8 دن تک جماعت کی امارت پر فائز رہے۔
امارت سے علیحدگی کے بعد انہوں نے تمام تر توجہ تصنیف و تالیف کے کام خصوصاً تفہیم القرآن کی طباعت اور توسیع اشاعت پر مرکوز کردی۔ چودہویں صدی ہجری میں اس عظیم کتاب کی تالیف نے اس صدی کو یادگار بنا دیا، اس عظیم علمی خدمت کو مسلمانوں کی تاریخِ علم و ادب کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔ اس کتاب نے لوگوں کی زندگیوں کے رخ بدل دیے، یہ وہاں تک پہنچی جہاں تک سید مودودی کی دیگر تصانیف نہ پہنچ سکتی تھیں۔ اس نے جدید طبقے کو بھی مسخر کیا اور قدیم طبقے نے بھی اقامت دین کا سبق اس کتاب سے سیکھا ہے۔
1956ء سے 1974ء تک کے عرصے میں آپ نے دنیا کے مختلف حصوں کا سفر کیا۔ اپنے متعدد دوروں کے دوران انہوں نے قاہرہ، دمشق، عمان، مکہ، مدینہ، جدہ، کویت، رباط، استنبول، لندن، نیویارک، ٹورنٹو کے علاوہ کئی بین الاقوامی مراکز میں لیکچر دیے۔ انہی سالوں میں آپ نے 10عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ 1959ء اور 1960ء میں قرآن پاک میں مذکور مقامات کی جغرافیائی کیفیت کا مشاہدہ کرنے کے لیے سعودی عرب، اردن، (بشمول یروشلم) شام اور مصر کا تفصیلی مطالعاتی دورہ کیا۔ انہیں مدینہ یونیورسٹی کے قیام کے سلسلہ میں مدعو کیا گیا۔ آپ 1962ء سے اس جامعہ کے قیام تک اس کی اکیڈمک کونسل کے رکن تھے۔ آپ رابطہ عالم اسلامی کی فاؤنڈیشن کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ اور اکیڈمی آف ریسرچ آن اسلامک لا مدینہ کے بھی رکن تھے۔
آپ کی تصانیف کا عربی، انگریزی، فارسی، ترکی، بنگالی، جرمن، فرانسیسی، ہندی، جاپانی، سواحلی، تامل، تیلگو سمیت 22 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ جبکہ مدینہ یونیورسٹی، ریاض، سوڈان، مصر اور دیگر کئی ممالک میں سید مودودی کی کتابیں نصاب تعلیم کا حصہ ہیں۔
1979ء میں سید مودودی کے گردے اور قلب میں تکلیف ہوئی جس کے علاج کے لیے آپ ریاستہائے متحدہ امریکا گئے جہاں ان کے صاحبزادے بطور معالج برسر روزگار تھے۔
آپ کے چند آپریشن بھی ہوئے مگر 22 ستمبر 1979ء کو 76 برس کی عمر آپ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کاپہلا جنازہ بفیلو، ریاست نیویارک میں پڑھا گیا اور پھرآپ کا جسدِ خاکی پاکستان لایا گیا اور لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آپ کا جنازہ قطر یونیورسٹی کے وائس چانسلر، سابق صدر اخوان المسلمون شام علامہ یوسف القرضاوی نے پڑھایا۔