کراچی : ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے 2024 کے لیے ٹرانس نیشنل ایجوکیشن (ٹی این ای) پالیسی متعارف کروا دی ہے، جس کا مقصد پاکستانی جامعات اور غیر ملکی یونیورسٹیوں کے درمیان بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا ہے۔
اس پالیسی کے تحت پاکستانی تعلیمی ادارے مختلف طریقوں سے غیر ملکی ڈگری پروگرام پیش کر سکیں گے، جن میں خارجی ڈگری پروگرام، فرنچائز شراکت داری، اور غیر ملکی یونیورسٹیوں کے زیر انتظام چلنے والے کیمپس شامل ہیں۔
ٹی این ای پالیسی کا مقصد تعلیمی معیار کو بہتر بنانا، پاکستانی طلباء کو عالمی سطح پر مزید مواقع فراہم کرنا اور پاکستانی جامعات کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ بنانا ہے۔ اس پالیسی میں تفصیلی ہدایات شامل ہیں، جن کے تحت جامعات کو شراکت داری قائم کرنے، معیار کی یقین دہانی کرانے، اور تعلیمی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے مخصوص اقدامات کرنے ہوں گے۔
پبلک سیکٹر جامعات اس پالیسی کے تحت غیر ملکی ڈگریاں پیش کر کے اور تحقیقاتی تعاون کو فروغ دے کر بڑے پیمانے پر فوائد حاصل کر سکتی ہیں۔ یہ پالیسی نہ صرف تعلیمی اداروں کے معیار کو بلند کرے گی بلکہ طلباء کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم فراہم کرنے میں بھی معاون ہو گی ۔
پالیسی کے اہم نکات میں تین اقسام کی شراکت داری کا سسٹم موجود ہے ۔ اس پالیسی کے تحت جامعات تین اقسام کے تعاون کے ماڈلز اپنائیں گی ۔ خارجی ڈگری پروگرام، فرنچائزڈ شراکت داری، اور مکمل غیر ملکی انتظام کے تحت چلنے والے کیمپس ہونگے ۔
سخت قواعد و ضوابط کے تحت ہر یونیورسٹی کو ایچ ای سی کی فراہم کردہ قانونی، ثقافتی اور معیاری اصولوں کی مکمل پابندی کرنا ہو گی تاکہ طلباء کے مفادات کا تحفظ ہو سکے اور تعلیمی معیار برقرار رہے۔
مالی وسائل کی شرط بھی لازمی طور پر لگائی گئی ہے ۔پالیسی کے تحت، جامعات کو ان پروگراموں کو کامیابی سے چلانے کے لیے بھاری مالی وسائل کی ضرورت ہو گی، جن میں اینڈومنٹ فنڈز شامل ہیں۔
طلباء کے فوائد کے پیش نظر ان پروگراموں میں داخلہ لینے والے طلباء کو وہی ڈگریاں دی جائیں گی جو غیر ملکی جامعات کے کیمپس میں فراہم کی جاتی ہیں اور انہیں کریڈٹ ٹرانسفر اور بین الاقوامی تعلیمی تجربات کے مواقع بھی حاصل ہوں گے۔
اس پالیسی کے تحت پاکستانی جامعات اب دنیا کی اعلیٰ رینکنگ جامعات کے ساتھ تعاون کر کے اپنے علمی معیار کو مزید بہتر بنا سکیں گی۔ اس پالیسی میں ایچ ای سی کی طرف سے مستقل نگرانی کی شق بھی شامل ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ تعلیمی معیار عالمی سطح کے مطابق ہو۔